حکومت اور اپوزیشن کی طاقت کی جنگ اور مہنگائی کا سیلاب۔ ذمہ دار کون

منگل 6 اگست 2019

 Mirza Zahid Baig

مرزا زاہد بیگ

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سپیکر قومی اسمبلی صادق سنجرانی اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر سلیم مانڈری والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ڈراپ سین ۔نہ حکومت اپنی عزت بچا سکی اور نہ اپوزیشن اپنے ممبران کو سنبھال پائی ۔ اپوزیشن کے امیدوار حاصل برنجو پچاس ووٹ لے کر ہار گئے ار صادق سنجرانی 45ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے ۔ دیکھنا یہ ہے اس صورت حال میں کس نے کیا کھویا کیا پایا ۔

حکومت تو اپنی جیت کے شادیانے بجانے میں مصروف نظر آتی ہے ۔ اپوزیشن کے ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی بری طرح پٹ گئی اس سے حکومت کو اپنی پوزیشن کا اندازہ تو ہے لیکن اس کے باوجود حکومتی زعما ء اسے اپنی جیت قرار دے رہے ہیں ۔
 حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طاقت کی اس جنگ میں عوام کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہے ۔

(جاری ہے)

ملک میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح نے عام آدمی کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے ۔

پیٹرول کی قیمتوں میں ہوش ہربا اضافے کے بعد تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ یقینی ہے اور اس پر نہ تو اپوزیشن اور نہ ہی حکومتی ارباب اختیار کوئی بات کرتے نظر آتے ہیں ، تحریک انصاف کے کارکنوں کو تو پتہ نہیں کیوں ملک میں مہنگائی نظر ہی نہیں آتی ۔ شرم ناک پہلو یہ ہے کہ وہ عمران خان جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر یہ کہتے تھے کہ پیٹرول 40سے 45روپے لیٹر ہونا چاہیے ان کی حکومت میں پیٹرول کی قیمت 118روپے کی حد تک پہنچ گئی ہے اس سے قبل پٹرول 110روپے کی سطح سے آگے کبھی نہیں گیا ۔

حکومتی وزراء مہنگائی کو معمول کی کارروائی قرار دیتے نظر آتے ہیں ۔ اپوزیشن بھی عوام کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیتے ہوئے عوامی ترجمانی کی ضرورت ہے لیکن لگتایٰہ ہے کہ عوامی مسائل تو ان سیاست دانوں کو نظر ہی نہیں آتے ۔
 ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے عوام کا جینا اجیرن ہو کر رہ گیا ہے ۔ عوام کو ان بڑھتے ہوئے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے حکومت کے خلاف صف آراء ہوتے ہوئے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف جدوجہد کرنا ہو گی ۔

تبدیلی کی دعوے دار حکومت کا ایک سال پورا ہونے کو ہے اور حکومت عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔ بیرونی امداد نہ لینے کے دعوے بھی دم توڑ چکے ہیں ۔ آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کا خواب بھی چکنا چور ہو چکا بلکہ تحریک انصاف کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے واشگاف الفاظ میں ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس آئی ایم ایف سے نجات کا ایجنڈا موجود تھا لیکن اس پر مجھے عملدرآمد نہیں کرنے دیا گیا اور وزیر اعظم عمران خان کی مرضی سے آئی ایم ایف جانے کا فیصلہ کیا گیا ۔

بجلی گیس اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ،بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے کاروبار زندگی اور معاشی صورت حال دگرگوں ہو چکی ہے ۔ تاجر طبقہ بھی اس مہنگائی سے شدید مشکلات سے دوچار ہے ۔ حکومت ان معاملات کو سنبھالنے میں تا حال مکمل ناکام نظر آ رہی ہے موجودہ حالات میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اور مہنگائی کے سیلاب پر قابو پانے کے لئے حکومت کو لائن آف ایکشن ترتیب دینا ہو گی ۔

بصورت دیگر عوام کو تحریک انصاف نے تبدیلی کے جو خواب دیکھائے تھے وہ ٹوٹتے نظر آر ہے ہیں ۔
 سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران جو کچھ ہوا اس سے بھی یہی نظر آتا ہے کہ ملک میں نئی حکومت آنے کے باوجود پرانا نظام اسی طرح چل رہا ہے ۔ ضمیر فروشوں کے ضمیر پہلے بھی خریدے جاتے تھے اور اس حکومت میں بھی وہی صورت حال ہے تو عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہی تبدیلی ہے جس کے خواب دکھائے جا رہے تھے ۔

حکومت کا ایک سال پورا ہونے پر اگر پٹرول 116روپے تک پہنچ گیا ۔ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی پاکستانی روپے کی قیمت گر گئی اور معاشی پہیہ بحران کا شکار ہو گیا تو عوام کس کے پاس فریا د کریں گے ۔ جناب وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ عوام گھبرانا نہیں کیا عوام کی تشفی کے لئے یہ کافی ہو گا ۔ جب بھی مہنگائی ، بیروزگاری یا معاشی عدم استحکام کی بات کی جاتی ہے تو اس کا ساراالزام سابقہ حکومتوں کو دے کر کیا موجودہ حکومت خود کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہے قطعا نہیں ۔

حکومت کو عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اپنی ترجیحات عوام کے سامنے رکھنا ہوں گی تا کہ اذیت کا شکار عوام بھی سکون کا سانس لے سکے ۔
سیکرٹریٹ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی طرف سے محکمہ کے تمام تدریسی اور انتظامی افیسران و اہلکاران کے لئے اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی ادارہ جات میں داخل کروانا لازمی قرار دے دیا ہے اور محکمہ کے جملہ افسران معلمین اور معلمات جملہ کیڈر تدریسی و انتظامی سٹاف کی ترقیابیوں ٹایم سکیل قریبی سٹیشن پر تبادلہ جات رخصت ۔

جی پی ایف ۔ ری فنڈ ۔ این او سی قرضہ تعمیر مکان وغیرہ جیسی جملہ مراعات کو اپنے بچوں کی سرکاری تعلیمی ادارہ جات میں تدریس سے منسلک کر دیا ہے جن اساتذہ کے بچے پرائیویٹ ادارہ جات میں زیر تعلیم ہوں گے وہ ماسوائے تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل نہ کر سکیں گے ۔
 اس سلسلہ میں باقاعدہ پالیسی سرکلر جاری کر دیا گیا ہے ۔سیکرٹریٹ تعلیم کی جانب سے یہ سرکلر عوامی حلقو ں میں زیر بحث ہے ۔

ہمارے سیاست دان ۔ بیورو کریٹ اور اعلیٰ ارباب اختیار اپنے بچوں کو اعلیٰ پرائیویٹ اداروں میں داخل کروانے کو باعث فخر قرار دیتے ہیں بلکہ بیرون ممالک تک پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن تدریسی ملازمین کو باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعے اس امر کا پابند کر دینا کہ وہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں نہیں پڑھا سکتے یہ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نظر آتا ہے ۔

اچھی تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اسے اس محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ عوامی و سماجی حلقوں نے اس نوٹیفکیشن پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست دان اور بیورو کرٹیس کے بچے تو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھیں اور بے چارے ملازمین کو سرکاری اداروں میں پڑھانے تک محدود کر دیا جائے یہ بات کسی صور ت میں قابل قبول نہیں ہے ۔ اس پر شدید احتجاج کیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :