گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کوٹلی میں ماڈل سیکشنز کا اجزاء ۔ ایک لائق تحسین اقدام

بدھ 3 جولائی 2019

 Mirza Zahid Baig

مرزا زاہد بیگ

ایجوکیشن سیکٹر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھرمار اور بھاری فیسوں کے بعد عام آدمی کے لئے اپنے بچوں کو پڑھانا جہاں مشکل ہو گیا وہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی مناپلی بھی دیکھنے میں آئی ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں سرکاری پروفیسرز کی وزٹینگ کلاسز کے رجحان نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کی گردن میں سریا ڈال دیا اور وہ صرف اور صرف من مانی فیسیں وصول کر نے میں مصروف ہو گئے ۔

پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے رزلٹ اچھے آنے لگے اور سرکاری ادارہ جات کے رزلٹ کمزور ہو تے چلے گئے اس سے بھی پرائیویٹ ادارہ جات کی مناپلی میں اضافہ ہوا ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ پرائیویٹ ادارے جو سرکار سے رجسٹریشن حاصل کرتے ہیں سرکاری افیسران کو بھی خاطر میں لانا گوارہ نہیں کرتے ان کے اپنے قوانین ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ امر حکومتی ارباب اختیار کے لئے نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ اس پر عملی طور پر اقدامات کی بھی ضرورت ہے ۔

گذشتہ دنوں ہمارے ایک نہایت قابل احترام دوست طارق آفتاب جو سرکاری کالج میں پروفیسر ہیں ،سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ ہم نے گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کوٹلی میں فسٹ ائیر کے لئے میل اور فی فیل ماڈل سیکشن قائم کی ہیں اور پرنسپل ڈگری کالج کی سرکاری رہائش گاہ کو طالبات کے لئے مختص کر دیا ہے ۔طالبات کے لئے کالج میں داخلے کے لئے بالکل الگ اراستہ موجود ہے ۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارے پروفیسر ساتھیوں نے اپنی بچیاں بھی اس سیکشن میں داخل کروا دی ہیں انہوں نے مجھے بھی اپنی بیٹی کو اس ادارہ میں داخل کرانے کی دعوت دی ۔ میں نے ادارہ کے وزٹ کا وعدہ کیا ۔ حسب وعدہ جب میں اادرہ کے وزٹ کے لیے کالج پہنچا تو نہایت خوشگوار احساس یہ ہوا کہ سرکاری کالج کے پروفیسرز میں طلبا و طالبات کو پڑھانے کا جذبہ موجود ہے اور ان پروفیسرز نے ملاقات میں بتایا کہ پرائیویٹ سیکٹر کے مقابلے میں سرکاری ادارہ جات کی کارکردگی پر یقینا سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن ہم نے ماڈل سیکشنزکا اجرا ء کر کے اس کلاس کو ایک ماڈل کلاس کے طور پر لیا ہے تا کہ ہم ان بچوں کو مقابلے کے لئے تیار کر سکیں ۔

تعلیمی حوالے سے ایک بات مشاہدے میں آئی ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارہ جات میں روایتی رٹہ سسٹم کے تحت بچوں کو تیار کیا جاتا ہے جو کتابوں کا رٹہ لگا کر نمبر تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن انٹری ٹیسٹ میں تقریبا 90فی صد طلبا و طالبات رہ جاتے ہیں اور پھر وہ ہزاروں روپے لگا کر راولپنڈی اسلام آباد اور دیگر شہروں میں فیسں دے کر انٹری ٹیسٹ کی تیار کرتے ہیں اس سے جہاں انہیں مالی طور پر زیر بار ہونا پڑتا ہے وہاں ان کے وقت کا بھی ضیاع ہوتا ہے ۔

ایسے بہت سے طالب علم جو انٹری ٹیسٹ راولپنڈی اسلام آباد سے تیار کر کے جب سیٹ حاصل کرتے ہیں تو پرائیویٹ تعلیمی ادارے ان کو اپنے کھاتے میں شمار کرلیتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے پرائیوٹ تعلیمی ادارے جو بچوں کو محض کتابوں کا حافظ بنا کر نمبر دلا دیتے ہیں ان بچوں کا بعد میں پرسان حال کون ہو گا ۔ گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کوٹلی کے پرنسپل ڈاکٹر قاسم بن حسن اور دیگر اساتذہ کرام نے فسٹ ائیر کی ماڈل کلاس چلا کر جو بنیاد رکھی ہے یہ یقینا بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو گی اور اس کلاس کے اختتام کے بعد انشا اللہ سرکاری ادارہ جات پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہو گا ۔

پروفیسر حضرات کا رضاکارانہ جذبہ نہ صرف لائق تحسین ہے بلکہ اس پر ان کی حکومتی سطح پر بھی حوصلہ افزائی ضروری ہے ۔ اس اقدام سے جہاں محدود وسائل رکھنے والے والدین کی جیبوں سے بوجھ کم ہو گا وہاں طلبا و طالبات کو بھی ایک بہتر تعلیمی ماحول میسر ہو گا ۔موجودہ مہنگائی کے دور میں والدین کے لئے بچوں کو پڑھانا ایک چیلنج بن کر رہ گیا ہے وہاں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج کوٹلی کے اساتذہ کی مثبت سوچ اور اقدام کو سلام عقیدت پیش کرنے کو جی چاہتا ہے رب جلیل سے دعا ہے کہ وہ ان کے حوصلوں کو سلامت رکھے اور طلبا و طالبات کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کرنے کے اس عمل کو قیول فرمائے اور انہیں اس کا اجر عطا فرمائے ۔

ان سطور کی وساطت سے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدرخان اور دیگر ارباب اختیار سے یہ کہنا چاہیں گے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارہ جات کو سرکاری نیٹ کے اندر لاتے ہوئے ان کی فیسوں سمیت سلیبس اور دیگر معاملات پر توجہ دی جائے ۔سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں بہتری کی گنجائش موجود ہے صرف اور صرف اس کے لئے عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔محکمہ تعلیم کے ار باب اختیار کو اس معاملات پر بھی توجہ دینا ہو گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :