پاک انڈیا ٹریڈ کی معطلی اور بزنس کمیونٹی کو درپیش مسائل

پیر 27 مئی 2019

 Mirza Zahid Baig

مرزا زاہد بیگ

پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخ حالات اور دونوں ممالک کے درمیان شدید ترین بحرانوں کے باوجود جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں منقسیم کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے راستے کھولے گئے جس سے برسوں کے بچھڑے بہن بھائی ایک دوسرے کے ساتھ ملے اور دونوں اطراف سے کشمیری بس سروس کے ذریعہ ایک دوسے کے قریب ہوئے ۔ اس کے بعد دونوں ممالک نے اعتماد سازی کو فروغ دیتے ہوئے ٹریڈ کا بھی آغاذ کیا ۔

بارڈر پر گولہ باری اور سنگین صورت حال کے باوجود بس سروس اور ٹریڈ دونوں کسی نہ کسی صورت میں چلتے ہی رہے ۔ کشمیر میں ٹریڈ شروع ہونے سے دونوں اطراف میں بسنے والے ہزاروں بے روزگاروں کو روزگار ملنے کے ساتھ ساتھ اشیائے صرف بھی شہریوں کومناسب انراخ میں ملنے لگی ۔

(جاری ہے)

بارٹر سسٹم کے تحت اشیاء کے بدلے اشیا کا فارمولہ طے کیا گیا ۔ بارٹر سسٹم 1930میں شروع کیا گیا تھا جس میں رقم کے بجائے چیز کے بجائے چیز دینا ہوتی تھی اس سسٹم میں خرابی بھی موجود ہے کہ بعض اوقات جس چیز کی کسٹمر کو ضرورت نہیں ہوتی دوسرے کومجبوراً و ہ بھی لینا پڑتی ہے اس سے اسے نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

ان معاملات کے باوجود کشمیر میں ٹریڈ جاری رہا ۔ دس سال کے دوران تقریبا 5ہزار کروڑ کا ٹریڈ دونوں ممالک کے درمیان ہوا اور اس سے دونوں اطراف کی بزنس کمیونٹی کو بھی فائدہ پہنچا ۔ 18اپریل 2019کو بھارت نے ایک سرکلر کے ذریعے یہ الزام لگا کر تریڈ معطل کر دیا کہ پاکستان ٹریڈ کی آڑ میں منشیات یا دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہے ۔ یہ الزام تومحض الزام ہی ہے کیونکہ ہندوستا ن میں الیکشن ہو رہے تھے اوروہاں کے وزیر اعظم نرینڈر مودی نے عوام کی ہمدردیاں بھی سمیٹنا تھی اس لئے انہوں نے ٹریڈ کو معطل کر دیا ۔

ٹریڈ بند ہونے سے دونوں اطراف بسنے والی بزنس کمیونٹی کو ہی نقصان نہیں پہنچا بلکہ عوام بھی اس سے براہ راست متاثر ہوئے مقبوضہ کشمیر سے آنے والا لیموں ٹریڈ بند ہونے کی وجہ سے پانچ سے چھ سوروپے کلو ہو گیا ۔ پاکستان سے چھوہارا اور دیگر جڑی بوٹیاں جو دوسری طرف جاتی تھی ان کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں ۔ اس کے علاوہ اس کاروبار سے وابستہ افراد کے لاکھوں روپے بھی اس ٹریڈ کی وجہ سے پھنس کر رہ گئے جس کی وجہ سے اس کمیونٹی میں شدید تشویش پائی جاتی ہے ۔

آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر دونوں اطراف سے ٹریڈ بند ہونے پر صدائے احتجاج جاری ہے اور بزنس کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ ٹریڈ کو فوری طور پر اوپن کیا جائے ۔ہندوستان کو ٹریڈ کے حوالے سے جن خدشات کا سامنا ہے اس کے حوالے سے نہ صرف انڈیا بلکہپاکستان کو بھی عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ڈیجیٹل سسٹم کے تحت منصوبہ بندی کرنی چاہیئے تا کہ آنے والے ٹرکوں اور ڈرائیور ز کی سکرینگ ہو سکے ۔

جدید مشینری اور ایکویکمنٹ استعمال کر کے تمام خدشات پر نہ صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی اور مین ٹو مین تعلقات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اگر بارٹر سسٹم کے بجائے کرنسی پالیسی ایڈپٹ کی جائے تو بھی بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔بس سروس اور ٹریڈ سروس کا آغاز دونوں ممالک کے لئے ایک نہایت مثبت اور لائق تحسین اقدام تھا جس کی وجہ سے نہ صر ف کشمیر کے دونوں اطراف بسنے والے کشمیری ایک دوسرے سے مل پائے ہیں بلکہ ان کے معاشی معاملات میں بھی بہتری آئی ہے ۔

اب جب کہ ہندوستان میں ایک بار پھر بی جے پی سرکار برسر اقتدار آ نے کو ہے ، انہیں ٹریڈ کو فوری طور پر اوپن کرتے ہوئے معاشی معاملات کے آگے بڑھانے اور بزنس کمیونٹی کے مسائل کم کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہہیں قبل ازیں بھی تھوڑے عرصہ کے لئے ٹریڈ بند کیا جاتا رہا ہے لیکن پھر کھول دیا جاتا ہے اب بھی امید ہے کہ دونوں ممالک غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ٹریڈ کے حوالے سے موثر منصوبہ بندی اپناتے ہوئے اسے ضرور اوپن کریں گے ۔

موجودہ دور میں اعتماد سازی اور غلط فہمیوں کا ازالہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ دونوں ممالک کے عوام اس وقت جن معاشی بحرانوں سے گذر رہے ہیں ان کو دور کرنے کے لئے ٹریڈ کی بحالی نہایت ضروری ہے ۔ اگر ہندوستان اپریل میں ٹریڈ معطل کرنے کے فیصلے کو ختم کرے تو یقینا اس کے دورس نتایج برآمد ہوں گے اور کشمیر کے دونوں اطراف کی بزنس کمیونٹی کو جو نقصان ہوا ہے اس کے ازالہ میں مدد ملے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :