حق معلومات کا قانون2013

اتوار 10 مئی 2020

Mohammad Ashar Saeed

محمد اشعر سعید

پاکستان میں شفاف حکمرانی ایک بحث طلب مسلئہ رہا ہے۔ہر سیاسی جماعت شفافیت کے بلند و بالا دعوے تو کرتی ہے مگر عملی طور پر اس دعوے سے بہت دورکھڑی نظر آتی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ مک مکا کی سیاست ہے جبکہ دوسری وجہ اداروں کا کمزور ہونا ہے۔اگر حکومت صاف شفاف نہ ہو تو عام آدمی کے لیے ہر سطح پر رسائی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔اگر کوئی شخص کسی بھی ادارے تک رسائی کی کوشش کرتا تو اُسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔


سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے دور حکومت میں عام عوام کے لیے معلومات تک رسائی کا قانون بنایا گیا۔ اس قانون کے تحت عام عوام کو حق دیا گیا کہ اگر وہ کسی بھی پروجیکٹ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو وہ متعلقہ محکمہ سے ایک درخواست کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہاں موجود آفسیرز کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سائلین کی درخواست پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان کے مسائل حل کریں۔


یہ قانون عام انسان کو با اختیار بناتا ہے۔عوام کو حق حاصل ہوتا کہ وہ نامکمل منصوبوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ۔اس کے ذریعے تعلیم،صحت اور لوکل گورنمنٹ محکموں سے درپیش مسائل کی شکایات کو بھی متعلقہ افسران تک پہنچاسکتا ہے۔اس کے علاوہ کورٹ،پنجاب اسمبلی اور گورنر سیکٹریٹ سے بھی معلومات حاصل کرنےکا حق دیتا ہے
کسی بھی بورڈ،کمیشن،کونسل ،گورنمنٹ کمپنیز اور این جی اوز جن کے ساتھ  حکومت مالی طور جڑی ہو وہ سب ادارے عام عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں۔

اگر کوئی شخص کسی بھی منصوبہ کی  مکمل تفصیل حاصل کرنا چاہتا ہے تو متعلقہ ادارہ اُسے تمام انفارمیشن دینے کا مجاز ہو گا۔
اس قانون کے مطابق اگر آپ کسی منصوبہ کے بارے میں آگائی چاہتے ہیں یا کسی ادارے کے بارے میں شکایت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک درخواست اس محکمہ کے پبلک انفارمیشن آفسیر کو دی جاتی ہے۔درخواست سادہ صفیحہ پر بھی دی جاسکتی ہے۔

اس کے علاوہ آر ٹی آئی کی ویب سائٹ پر بھی شکایات کے فارم موجود ہوتے ہیں۔اگر کوئی شخص ان پڑھ ہو یا معذور ہوتو پبلک انفارمیشن آفسیر خود اس کی درخواست سن کر اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔
درخواست جمع کروانے کا طریقہ انتہائی آسان ہوتا ہے۔سب سے پہلے شکایت فارم پر اس منصوبہ کی معلومات دینے والے محکمہ کا نام درج کیا جاتا ہے۔اس کے بعد جو بھی انفارمیشن حاصل کرنی ہو اس کی تمام تر تفصیل درج کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ اگر دستاویزات کے ساتھ سی ڈی وغیرہ چاہیے ہو وہ بھی درج کیا جاتا ہے۔اس کے بعد اپنا نام اور مکمل پتہ درج کیا جاتا ہے۔اس درخواست کو پبلک انفارمیشن آفسیرز کو بذریعہ ڈاک یا سائلین خود جاکر جمع کرواسکتے ہیں۔اس کے بعد وہ محکمہ پبلک انفارمیشن آفسیرز کو قانون کے مطابق سائل کی درخواست پر عمل درآمد کرنے کی ھدایت دیتا ہے۔
متعلقہ آفیسر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ درخواست کو چودہ دن کے اندر ہر حال میں حل کرے۔

اگر سائل کو مزید معلومات کی ضرورت ہو تو چودہ مزید دن کا ٹائم درکار ہوتا ہے۔اگر فوری ہدایات پر رپوڑٹ کی ضرورت ہو تو دو دن کے اندر رپوڑٹ دینا لازم ہوتا ہے۔
اگر پبلک انفارمیشن آفسیر شکایات پر عمل پیرا نہ ہو تو اس کے خلاف شکایت کی جاسکتی ہے۔اس شکایات کو اس محکمہ کا سربراہ تیس دن کے اندر سائل کی شکایت حل کرتا ہے اور اُس پبلک انفارمیشن آفسیر کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا خق رکھتا ہے۔اگر محکمہ کا سربراہ بھی اس معملہ میں کوتاہی کرے تو ساٗل قانونی حق استعمال کرتے ہوےٗ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔
یہ قانون عام عوام کی رسائی کے لیے ہے مگر عوام میں شعور نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :