پاکستانی معاشرے میں صنف نازک کے مسائل

جمعرات 3 دسمبر 2020

Mohammad Bashir

محمد بشیر

پاکستان میں خواتین کا ایک  معقول حصہ زندگی کے مختلف  شعبوں میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مصروف  دکھائ دیتا ہے. شادی شدہ خواتین کے علاوہ کنواری نوجوان لڑکیاں بھی   مختلف فیلڈز میں اپنی مہارت کے جوہر دکھا رہی ہیں.نصنف نازک میں زیادہ تر خواتین ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہوکر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراہستہ کرنے میں مصروف دکھائ دیتی ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ بعض بنکنگ، ہوٹلنگ کے ساتھ ساتھ سرکاری اور نجی اداروں میں  ملازمت کر رہی ہیں.چند خواتین فضائ اور زمینی ٹرانسپورٹ سسٹم میں میزبانی کے فراہض سرانجام دے رہی  ہیں.

 
 بعض خواتین گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے ملازمت اختیار کرتی ہیں اور بعض شوقیہ طور پر یا گھروں میں بوریت سے تنگ آکر دفاتر کا رخ  کرتی ہیں. اس کے علاوہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکیاں اور چھوٹی بچیاں خراب مالی حالات  کی وجہ سے امیر گھرانوں میں صفائ وغیرہ کا کام کرنے کے لئے باہر نکلتی ہیں .یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بےجا نہ ہوگا کہ جو کمسن بچیاں لوگوں کے گھر کام  کرتی ہیں انہیں بہت نامساہد حالات میں اپنی ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے٠ ان چھوٹی بچیوں کو خاتون خانہ معمولی باتوں پر شدید تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتیں٠ صفائ کے دوران کس برتن کا ٹوٹنا یا کوئ اور وجہ ان کے لئے وبال جان بن جاتا ہے.

میڈیا میں آئے دنوں ان معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کا ذکر ہوتا رہتا ہے٠
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف خواتین  مردوں کی جانب سے ہراسمنٹ اور بداخلاقی کا شکار ہوتی ہیں اور دوسری طرف  خواتین ہی کمسن بچیوں کو تشدد کا نشانہ بناتیں ہیں.یہ ایک تصویر کے دو پہلو ہیں.
جہاں تک دفاتر  وغیرہ میں کام کرنے والی متوسط طبقے کی عورتوں کا تعلق ہے وہ بڑے گھرانوں سے تعلق رکھنے والیوں کی نسبت  زیادہ تکالیف اور پریشانیوں  میں گھری رہتی ہیں.

کیونکہ ان کے پاس  اپنی سواری کی سہولت نہیں ہوتی اس لئے کام پر جانے کے لئے  انکو پبلک ٹرانسپورٹ لینی پڑتی ہے. جب وہ گھر سے کام کرنے کے لئے نکلتی ہیں تو سب سے پہلے ان کا  واسطہ رکشہ، ٹیکسی اور بس کے ڈراہیور  کے علاوہ ساتھ سفر کرنے والے مختلف افراد سے پڑتا ہے جو  ان کو غلط نظروں سے دیکھنے کے علاوہ بعض اوقات نامناسب فقرے کسنے اور چھونے سے بھی گریز نہیں کرتے.اس کے بعد دفاتر میں کبھی باسز اور کبھی ساتھی عملہ ان کو ہراساں  کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے.

جس طرع ہاتھ کی تمام انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں اسی طرع  مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اور دفاتر میں کام کرنے والے مرد   ایک جیسے نہیں ہوتے.ان میں شریف اور  خاندانی لوگ بھی ہوتے ہیں جو خواتین کو عزت دینا جانتے  بھی ہیں اور عزت دیتے بھی ہیں. دوسری طرف وہ خواتین جن کا تعلق  اپر کلاس سے  ہوتا ہے  ان کو  ہراسمنٹ کا خاص سامنا نہیں کرنا پڑتا .

ان کے مضبوط فیملی بیک گراوُنڈ  کا ہونا اس کی بنیادی وجہ ہے.  بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جب دفاتر میں صنف نازک کو  اس طرع کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ  مصلحت کے تحت کسی قسم کا احتجاج نہیں کرتیں  اور  اپنے آپ کو حالات کے سپرد کر دیتی ہیں.اگر خواتین جرآت اور بہادری کے ساتھ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریں تو کسی  فرد کی ہمت نہیں ہوگی کہ ان کو  پریشان کرے.

صرف شرط یہ ہے کہ وہ اپنے اندر حوصلہ اور  قوت پیدا کریں.
 فیملی میں کسی مرد کا نہ ہونا یا مردوں کے شکی مزاج ہونے کی وجہ سے بھی  خواتین    زیادتی برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہیں. اس کے   علاوہ بعض خواتین کی رضامندی بھی اس قبیح فعل میں شامل ہوتی ہے. اسلام آباد کے ایک بنک میں پیش آنے والا واقعہ اس کی ایک مثال ہے.اس طرع کی بےشمار  کہانیاں پاکستان کے طول و عرض میں بکھری پڑیں ہیں جو معاشرے کے منہ پر کلنک کا ٹیکہ ہیں.
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا   ہے کہ جو مرد حضرات نوجوان لڑکیوں کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان کو   ہراساں کرتے ہیں  وہ اس طرع کی غیراخلاقی حرکات کیوں کرتے ہیں.کیا ان کی تعلیم یا تربیت میں کوئ کمی رہ جاتی ہے یا ان کے گھر میں ماہیں، بہنیں یا بیٹیاں نہیں ہوتیں یا ان کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے.  اسلامی  تعلیمات سے دوری اس کی ایک بنیادی وجہ ہوسکتی ہے.

اس طرع کے ہوس پرست اور  گندی ذہنیت رکھنے والوں کی بے راہ روی کی ایک وجہ   ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے مارننگ شوز، غیر اخلاقی ڈرامے اور گندے ایڈز  بھی ہوتے ہیں٠ جو ان کی نفسانی خواہشات کو  ابھارنے میں  مدد دیتے ہیں. نہایت  معذرت کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں کا ڈریس بھی اس تمام معاملے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے.
 با پردہ خواتین اس طرع کے  مسائل  سے اکثر محفوظ رہتی ہیں.

اس کا  ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ  کوئ لڑکی اگر مغربی لباس پہنتی ہے تو اردگرد کے لوگ اسے للچائ ہوئ نظروں سے  تاڑنا شروع ہو جاہیں یا ان کے ساتھ بدتہذیبی سے پیش آہیں٠ انسانیت کا ٹقاضہ تو یہ ہے کہ  ہر  شخص کو قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کو ہر حال میں عزت اور احترام   دینا چاہئے. کیوں کہ یہ ہمارا مذہبی  اور اخلاقی فرض ہے.
اس سارے  مسئلے میں سب سے افسوس ناک اور شرمناک  امر کم عمر بچیوں کا اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کر دیا جانا ہے جو کسی طور پر بھی   معافی کے قابل نہیں سمجھا جا سکتا.
 بدقسمتی سے اس طرع کے  ظلم اور بربریت پر مبنی فعل رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے٠ بلکہ دن بدن ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے.

افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں نوجوان لڑکیوں کو ہراسمنٹ  اور کمسن بچیوں اور بچوں کو زیادتی کا نشانہ بننے سے بچانے میں ملکی ادارے اپنا کردار بخوبی ادا نہیں کرتے. لا اینڈ آرڈر بحال رکھنے والے ادارے خاص کر پولیس  شہریوں کی حفاظت کرنے  میں غفلت برتتے ہیں.
  پچھلے دنوں ایک خاتون جج نے  سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا ہے جس میں اس  محترم خاتون نے بعض وکلاء کی طرف سے ہراساں کئے جانے کی شکایت کی ہے.خاتون جج کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران پیش ہونے والے وکلا ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اور گالم گلوچ بھی کرتے ہیں.ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اگر ایک خاتون جج  کی عزت محفوظ نہیں ہے تو ایک  لوئر مڈل کلاس کی عورت کیسے تذلیل سے بچ   سکتی ہے.
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست کو  معاشرے کے مردہ ضمیر مرد حضرات کو جو خواتین اور معصوم بچیوں  کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں  کو منتقی انجام تک پہنچانے کی طرف بھرپور توجہ دینا ہوگی.
 اس کے علاوہ  سوساہٹی  کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان نازک معاملات کا تدارک کرنے کے لئے لوگوں میں شعور اجاگر کرے.  نوجوان لڑکیوں اور  کم عمر بچیوں کے والدین کی سب سے زیادہ زمہ داری ہے کہ وہ ان کا خیال رکھیں اور تھوڑے پیسوں کے لالچ میں اپنی نسل کو برباد مت کریں.  عوام کی نماہندگی کی دعوے دار  مقننہ کو بھی  ظلم اور زیادتی کے ان قبیح واقعات کی بیخ کنی کے لئے سخت ترین سزاوُں  کے لئے قانون سازی کی طرف جانا ہوگا.

ورنہ  ظلم ، جبر اور  بربریت پر مبنی  یہ داستان کبھی ختم نہیں ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :