آزادی کے بعدکی جنگ

منگل 24 اگست 2021

Mohammad Burhan Ul Haq Jalali

محمد برہان الحق جلالی

مملکت خدادادپاکستان کی آزادی رب کائنات کے انعامات  میں سے ایک ایسی عظیم انعام ہے آزادی کے حصول کیلئے انسان کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتا۔ آزادی کا حصول یقیناً ایک بہت مشکل مرحلہ تھا اِس میں اللہ  تعالیٰ کی رحمت و رہنمائی و مدد حاصل تھی۔ اللہ رب العزت جس نے آزادی جیسی نعمت سےعطاء کی  اِس میں اللہ  رب العزت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

پہلے ہمارے آباءو اجدادنےحصول آزادی پاکستان کی جدوجہد کی تھی اور آج ہمیں تعمیر و طن کی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ آج پھر ہمیں تحریک آزادی پاکستان جیسے جوش وجذبےا ور ولولے  کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصول کیلئے ہمارے آباء و اجداد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے پاکستان وہ وطن عزیز ہے جو خیرات میں نہیں ملا بلکہ پاکستان کی بنیادوں میں پانی کی جگہ مسلمانوں کاخون اینٹوں کی جگہ مسلمانوں کی ہڈیاں اور گارے کی جگہ گوشت استعمال ہواہے۔

(جاری ہے)

پاکستان کی آزادی اور اس کو بنانے والوں نےاتنی گراں قدر قربانیاں دی ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا آزادی کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس نے تعمیر پاکستان میں اپنا تن من دھن، عورتیں بچے بوڑھے اور جوان سب کچھ قربان کیا ہو ۔ پاکستان کی آزادی کےلئے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کتنی ہی پاکدامن  ماؤں بہنوں بیٹیوں نے نہروں اور کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر جانیں قُربان کیں اور پاکستان کی خاطر بھاری قیمت ادا کی ۔

لاکھوں بچے یتیم ہوگئے ۔جن ناگفتہ بہ حالات میں ہندوستان سے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان ہجرت کی وہ انتہائی تکلیف دہ مراحل اور مناظر تھے اُن کو  بیان کرنا ممکن نہیں جہاں کلہاڑیوں برچھیو ں وغیرہ سے ذبح کیا گیا ہو ،ماؤں، بہنوں ،بیٹیوں کی عصمتوں کو تارتار کیا گیا ہو ،جب گھر بار مال و اسباب چھوڑ کر مسلمانوں نے ہجرت کی تو سفاک ہندواور سکھ مسلمانوں کے راستے میں رکاوٹ بن گئے اور مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم کے پہاڑ گرائے گئے ہزاروں خاندان اُجڑ گئے گھر بار لٹ گیا جو قومیں آزاد فضاؤں میں سانس لینے کی عادی ہیں ان کی سوچ کبھی غلامانہ نہیں ہوتی ،ہمارے آباء واجداد نے ہندوستان میں اُس وقت متعصب ہندوؤں کی غلامانہ پالیسوں اور دوہرے معیار سے تنگ آکر پاکستان بنانے کا عہد کیا تھا اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں میں مذہبی ،سیاسی ،معاشی  ،تعلیمی اور دیگر میدانوں میں شعور اجاگر کرکے آزادی کی تحریک کو کامیاب بنایا جس کی بدولت آج ہم ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست میں آزاد قوم کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں
ہم نے انگریزوں سے ہندووں سے آزادی لے تو لےلی ہے  مگر جنگ  آزادی کے بعد ہمیں نئی جنگ کا سامنا ہےاس جنگ میں ہمیں ان  بیماریوں کا سامنا ہے جوملک پاکستان کی جڑوں کھوکھلا کر رہی ہیں ان میں کرپشن،فرقہ واریت، چوری ،بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات ،خواتین کے ساتھ بدسلوکی،رشوت،جعل سازی،کشیدہ تعلقات  وغیرہ شامل ہیں۔


آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کرپشن:۔
مولاناالطاف حسین حالیؔ نے کہا :
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
عمل کی بنیاد پر ہی انسانی زندگی کندن بنتی ہے ۔ بد اعمالی سے تباہی و بربادی اُس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ خیر اور شر دوونوں ہی انسان کی سرشت میں شامل ہیں۔

نیکی اور برائی کی دونوں راہیں انسان کے سامنے ہیں۔رب کائنات نےخیر وشر میں فرق کی پہچان کے لیے انسان کو شعور کی دولت سے مالامال کیاہے ۔
 ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
کرپشن کو ام الخبائث کہا جاسکتا ہے، کیونکہ بے شمار برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح  چاٹ کر کھوکھلا کردیتی ہے۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تباہی میں مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن کا ہی ہوتا ہے، کرپشن کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو گی، وہ قوم اتنی ہی جلدبربادی کے گڑھے میں جاگرتی ہے، اگر کسی قوم میں کرپشن سرایت کرجائے تو وہ اپنی پہچان اپنی شناخت اور مقام و مرتبے سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، کرپشن معاشرے میں ایک اچھوت بیماری کی طرح  جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو تباہ و بربادکرکے رکھ دیتی ہے۔


تقریبا ہر شعبہ میںکرپشن ہو رہی ہوتی ہے مگر  واضح رہے کہ ملک کے ہر شعبہ  ایسے ملازمین بھی ہیں۔جو انتہائی ایمان دار و دیانتدار  ہیں۔جوکہ مجبوری اور دباؤ کے باوجود رشوت اور کرپشن کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ طبقہ اقلیت میں ہے۔
اس بیماری کےچند خاص اسباب حسب ذیل ہیں :
1۔معاشی تفاوت
2-مسرفانہ غلط رسم ورواج
3-کم تنخواہ ومراعات

ہوس زر ، راتوں رات امیر سے امیر تر بننے کی خواہش۔
5-محاسبہ کا فقدان
اس بیماری کی دوا صرف اسلام کے پاس  ہی ہے: یہ ایک  حقیقت ہے کہ اس دنیا سے کرپشن کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس سے نکلنے کا کوئی ایسا راستہ نہیں دکھا یا جائے جس پر چلنے کو ہر شخص تیار ہوجائے، اور ایساکوئی پیغام نہ سنایا جائے جوخود لوگوں کے دلوں کی آواز ہو۔


بلاشبہ  دین اسلام   ہی وہ واحدمذہب ہے جو انسانوں کو کسی راہ پر تنہا نہیں رہنے دیتا۔ وہ ان کا کا ہاتھ تھام کرانھیں ہر تنگ  اور مشکل راہوں سے گزارکر لے جاتا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ بھی  ایسا نہیں جہاں اسلام ایک مکمل راہنما کی حیثیت سے موجود نہ ہو۔ لیکن یہ دنیا کی محرومی ہے کہ وہ اسلام کے آغوش میں آکر اپنے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں دردرلیے پھرتی ہے، جہاں اس کے مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے چلے جاتے ہیں۔

اگر ہم کرپشن کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تو ہم اس بیماری کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں
رشوت:۔
’’رشوت وہ چیز ہے جو آدمی کسی حاکم یا غیر حاکم کو اس مقصد کے تحت دیتا ہے کہ فیصلہ اس کے حق میں ہو یا اس کے من پسند منصب پر اسے فائز کیا جائے مثلا وہ رشوت جو ایسا کام کرانے کے لئے نہ دی جائے جس میں کوئی باطل نہ ہو۔


رشوت کا حکم قرآن و حدیث کے آئینے میں
بے شک رشوت حرام ہے۔ جج ہو یا قاضی، وزیر ہو یا گورنر، حاکم ہو یا ملازم، پولیس ہو یا ڈی ایم، سیکریٹری ہو یا رئیس الجامعہ، مولوی ہو یا عالم، مفتی ہو یا شیخ الحدیث غرض کہ اعلیٰ سے ادنیٰ تک تمام محکموں یعنی ڈپارٹمنٹ کے ہر صاحب منصب پر اپنے فرض منصبی کی ادائیگی بغیر کسی دنیاوی غرض و غایت اور مقاصد و منفعت کے (خواہ وہ جانی ہو یا مالی) واجب ہے اور رشوت ستانی کی حرمت کے سلسلے میں علمائے کرام اور محدثین عظام کی دو رائے نہیں ہیں۔

جس طرح ﷲ نے رشوت قبول کرنے کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح رشوت دینے اور واسطہ بننے کو بھی حرام قرار دیا ہے۔
کتاب ﷲ سے دلائل
ارشاد ربانی ہے:
ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلوا الی الحکام لتأکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم وانتم تعلمون (
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھائو اور نہ مال کو حاکموں کے پاس رشوت کے طور پر اس غرض سے پہنچائو کہ لوگوں کے مال میں سے تھوڑا بہت (جو کچھ ہاتھ لگے) اس کو جان بوجھ کر جائز طور پر کھائو۔

اس آیت کریمہ میں باطل طریقہ سے لوگوں کے مال کھانے کی صورت میں ایک انتہائی بدترین صورت ہے جس کے ذریعہ حکام اور کار پرداز اسخاص کو عدل و انصاف کی ڈگر سے منحرف کردیا جاتا ہے اور صاحب حق کے خلاف راشی کے حسب منشاء فیصلہ کیا جاتا ہے یا کم از کم جس کا کام بعد میں ہونا چاہئے، اس کا پہلے اور جس کا پہلے ہونا چائے اس کا بعد میں کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر ﷲ تعالیٰ نے سرے سے اس کی جڑ کاٹ ڈالی اور ہمیشہ کے لئے اس پر قدغن لگادی۔

اس حرام خوری اور رشوت ستانی کی بنیاد پر ﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کی مذمت فرمائی اور انہیں سبب سے بڑا مجرم قرار دیا ہے۔
سنت سے دلائل
بیشتر احادیث مبارکہ میں رشوت خور حکام پر لعنت کی گئی ہے اور ان کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ نیز اس کے بھیانک نتائج سے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا
انہ لن یدخل الجنۃ لحم نبت من سحت (۸)
کہ گوشت کا جو پارہ سحت سے پروان چڑھے وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوگا۔


حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول خداﷺ نے فرمایا
یعنی میں بہرحال ایک اللّٰه کا بندہ ہی تو ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لائو اور تم میں سے ایک کاذب فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ شیریں کلام اور چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سنکر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کروگے (متفق علیہ)
حضورﷺ نے فرمایا ’’فیصلہ کرنے کے سلسلے میں رشوت لینے اور دینے والے پر ﷲ نے لعنت فرمائی‘‘ (۱۱)
حضورﷺ نے فرمایا
اﷲ تعالیٰ نے فیصلہ کے سلسلے میں رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

رشوت کبیرہ گناہ ہے اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
رشوت کے ساتھ بھی ہماری جنگ جاری و ساری ہے۔
اسی طرح ایک اور بیماری جس کے خلاف جنگ جاری و ساری ہے وہ ہے فرقہ واریت
فرقہ واریت:۔
اجتماعی زوال اور بربادی کا انتہائی اور آخری کنارا آن پہنچا ہے جس کی واضح اوردرد ناک نشانی یہ ہے کہ قومی و ملی یکجہتی خواب و خیال اور قصّۂ پارینہ بن چکی ہے۔

بزرگ افراد کو  متحد اور پُرسکون معاشرے کی حسین یادیں خون کے آنسو رلاتی ہیں تو نئی نسل کے لیے امن و اتحاد و یکجہتی  بے معنی لفظوں سے زیادہ وقعت و اہمیت نہیں رکھتے۔
یہ سب بے سبب نہیں بلکہ صاف اورواضح  ہے کہ پچھلے کچھ عرصے  سے ہم مسلسل اعلانیہ و غیر اعلانیہ حالت جنگ میں ہیں۔ فرقہ واریت کی خودکُش پالیسی نے بہ حیثیت قوم و ملت ہمیں اندر سے کھوکھلا اور پارہ پارہ کردیا ہے۔

تقسیم کی دیواریں اس قدر بلند اور نفرت کی خلیج اتنی گہری ہوچکی جنہیں گرانا ایک تاریخی چیلنج بن کر کھڑا ہے۔الفت و محبت ختم ہو چکی ہے اخلاص جاتا رہا ہے رنگ، نسل، زبان، ثقافت و جغرافیائی تقسیم سے زیادہ خطرناک اور مہلک  ترین مذہبی فرقہ واریت و انتہاء پسندی ہے۔ہمیں ہر صورت میں فرقہ واریت کی بلا سے ناصرف خود کو بلکہ پوری امت کو بچانا ہوگا کہ یہی اغیار اور دشمنان دین و ملّت کی  چالاکیوں سے بچاؤ کا شافی علاج ہے ہم گروہ در گروہ تقسیم ہو چکے ہیں اتحاد و یکجہتی ختم ہو چکی ہے اگر ہم أصول پر متفق ہو جائیں تو فرقہ واریت اگر ختم نہ ہو مگر کم ضرور  ہو جائے گی اسلام ہمیں محبت و آشتی کا درس دیتا ہے اسلام ہمیں بھائی چارے کا درس دیتا ہے اسلام ہمیں اتحاد و یگانگت کا درس دیتا ہےکیا ہم اس درس پر عمل پیرا ہیں؟
زیادتی،  انسانی حقوق کے مسائل
ایک اور جنگ جس کے خلاف ہم نبرد آزما ہیں وہ ہے پاکستان میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات ۔

انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان ساری دنیا میں بہت پیچھے ہے۔ چاہے وہ عورتوں کے حقوق ہوں، بچوں کے حقوق ہوں  یا اقلیتوں کے حقوق پاکستان میں ان سب حقوق کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔آئے روز بچوں کے ساتھ زیادتی ،عورتوں کی عصمت دری کے واقعات ہو رہے ہیں گو کہ یہ واقعات ہمارے ہمسایہ ملک کے مقابلے میں کم ہیں مگر یہ مملکت خداداد پاکستان کے ماتھے پہ کلنگ کا ٹیکہ ہے
گذشتہ سال پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے تقریباً پونے چار ہزار واقعات پیش آئے۔

غیر سرکاری تنظیم ساحل کے مطابق سنہ 2018 میں تقریباً 3,832 واقعات پیش آئے جو سنہ 2017 کی نسبت 11 فیصد زیادہ تھے۔
پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے قانون پر عمل درآمد ضروری ہے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو رپورٹ ضرور کریں تاکہ ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دی جا سکے۔
حکومت کی جانب سے جنسی جرائم کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے کئی ایک قوانین بھی متعارف کروائے گئے، جن میں حال ہی میں ریپ کے ملزمان کو نامرد بنانے کا صدارتی آرڈینینس بھی شامل ہے۔


وقت آ گیا ہے کہ وزارت انسانی حقوق اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی قوانین کو فعال اور تحقیقات کے عمل کو تیز کریں تاکہ سائبر ہراسانی کا شکار خواتین کو جلد از جلد انصاف فراہم کیا جا سکے۔‘
مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی
آزادی کے بعد جس بیماری کے خلاف نبردآزما ہیں ان میں سے ایک مہنگائی اور  ذخیرہ اندوزی ہےحضور نبی آخر الزمان ﷺ نے فرمایا ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے ۔


اس بات پر تو تمام علماء وفقہاء کا اتفاق ہے کی روزمرہ کی خصوصا کھانے پینے اشیاء میں ذخیرہ اندوزی بالکل جائز نہیں  ،
اور یہ بھی یاد رہے کہ ذخیرہ اندوزی صرف اسی صورت میں ناجائز ہے جب ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عوام کو ضرر پہنچے عوام کو اس کی ضرورت ہو لیکن ذخیرہ اندوز اس کو مہنگی قیمت پر فروخت کرنے کے لیے روک رکھے اور بازار میں نہ لائےاکثر ہمارے ھاں کسی بھی چیز کے زیادہ دام لینے کے لئے روک لیا جاتا ہے تاکہ جب اس چیز کا بحران ہو تو اس کو زیادہ سے زیادہ دام پر فروخت کرے ۔


اس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہےحکام بالا کو نوٹس لینا چاہئے اور تعلیم کو عام کیا جائے تاکہ ان بیماریوں کا قلع قمع ہو سکے
توانائی کا بحران:۔
آزادی کے بعدایک اور بڑی جنگ وہ ہے توانائی کا بدترین بحران ۔ توانائی کے بحران کو جب تک حل نہ کیا گیا تب تک ملک کے  معاشی استحکام کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ معاشی استحکام کے لیے توانائی یعنی بجلی اور گیس ،تیل انجن کا کام کرتے ہیں۔

تیل،بجلی اور گیس ہوگی تو صنعت کا پہیہ چلے گا،  روزگار کےمواقع پیدا ہوں گے، نئی صنعت سازی کو عروج ملے گا   غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا بجلی پیدا کرنے کے لیے روایتی ذرائع پر انحصارکرنا ہوگا، بجلی و گیس چوری کی روک تھام کی جائے۔
ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات:۔
ایک اور جنگ جس کے خلاف ہم نبرد آزما ہیں وہ ہےہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات۔

ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اندرون خانہ  ہمہ وقت جنگی فضاء قائم رہتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم مسلسل حالت جنگ میں ہیں۔ صوبوں‘ قوموں‘زبانوں ‘مذاہب اور مسالک کے درمیان برابری‘ رواداری‘باہمی مفاداور رضاکارانہ بھائی چارے پر مبنی پرامن تعلقات کی بجائےلسانی اختلافات ، نفرت‘بغض و عناد،تعصب،نسلی برتری و تفاخر‘ استحصالی اور کشیدہ بنا دیے گئے ہیں ہمیں مذاکرات کے ذریعے سب  اختلافات  کو ختم کرنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :