مجھے ہے حکم اذاں

پیر 3 فروری 2020

Mohammad Faisal

محمد فیصل

سازش اور غداری کے مجرموں کا خون قاہرہ کی ریت نے ابھی اپنے اندر جذب نہیں کیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھائی تقی الدین اُس کے بلاوے پر دو سو(200) منتخب سواروں کے ساتھ قاہرہ پہنچ گیا۔ سازش کے مجرموں کی گردنیں کاٹی جا چکی تھیں اور یوں نظر آتا تھا جیسے قاہرہ کی ریت ان مرے ہوئے غداروں کا خون اپنے اندر جذب کرنے سے گریز کر رہی ہے جو صلیبیوں کے ساتھ مل کر سلطنت اسلامیہ کے پرچم کو سرنگوں کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان سب کی لاشیں دیکھیں ان کے کٹے ہوئے سر ان کے بے جان جسموں کے سینوں پر رکھ دئیے گئے تھے۔ صرف ایک لاش تھی جو سب سے بڑے غدار کی تھی اور جس پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو کبھی کلی طور پر اعتماد تھا۔ اس لاش کا سر اس کے ساتھ ہی تھا۔

(جاری ہے)

ایک تیر اُس کی شہہ رگ میں داخل ہو کر دوسری طرف نکلا ہوا تھا۔ یہ قاہرہ کا نائب ''مصلح الدین'' تھا۔

فوج کے سامنے جب اس کا جرم سنایا جا رہا تھا تو ایک جوشیلے سپاہی نے کمان میں تیر ڈال کر مصلح الدین کی شہہ رگ سے پار کردیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سپاہی کی یہ حرکت ڈسپلن کے خلاف تھی، مگر صرف اس لیے نظر انداز کرکے معاف کر دیا تھا کہ کوئی بھی صاحب ایمان مسلمان غداری برداشت نہیں کرسکتا۔ اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہی اپنی فوج میں ایمان کی یہ قوت پیدا کی تھی۔


ان لاشوں کو دیکھ کر سلطان کے چہرے پر خوشی کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی کہ اُس کی صفوں اور نظام حکومت میں سے اتنے زیادہ غدار اور سازشی پکڑے گئے ہیں اور انہیں سزائے موت دے دی گئی ہے۔ اُس کے چہرے پر اُداسی اور اس کی آنکھیں گہری سرخ تھیں، جیسے وہ آ نسو روکنے کی کوشش کر رہا ہو۔ غصہ تو تھا ہی جس کا اظہار اس نے ان الفاظ میں کیا کہ ''ان میں سے کسی کا جنازہ نہیں پڑھایا جائے گا۔

ان کی لاشیں ان کے رشتہ داروں کو نہیں دی جائیں گی، تا کہ انہیں کفن بھی نہ پہنائے جائیں۔ رات کے اندھیرے میں انہیں ایک ہی گہرے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دو اور زمین ہموار کر دو۔ اس دُنیا میں ان کانشان بھی باقی نہ رہے''۔
وطن عزیزپاکستان کو غداروں کی جنت کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جس طرح ہم چند سال میں کوئی نہ کوئی بڑا اور نامور غدار تخلیق یا دریافت کرتے ہیں اس پر عدالتوں میں مقدمات چلاتے ہیں اور بلآخر قانونی طور، معزز عدالتوں کے ذریعے اس کے ماتھے سے غداری کا داغ دھو کر زندہ باد زندہ باد اور مبارک سلامت کی صدائیں بلند کرتے ہیں اس پر ہمیں واقعی کوئی بڑا انعام ملنا چاہیے. پچھلے چند سالوں پر ہی ایک نظر دوڑائیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ایسے لوگوں کی پیداوار میں ہم کافی حد تک خود کفیل ہیں۔

اکثر تو کلبوشن جیسے لوگ ہماری صفوں سے پکڑے جاتے ہیں اور جو کلبوشن جیسے ابھی نہیں پکڑے گئے وہ ہماری صفوں سے اپنے جیسے تلاش کرتے ہیں اور انہیں تیار بھی کرتے ہیں۔کبھی ہمارے یہاں طلبہ یونین کے نام پر، کبھی حسین حقانی کی شکل میں، کبھی پولیو کے قطرے پلانے والے شکیل آفریدی جیسے، کبھی مہاجر کارڈ کے نام پر الطاف
حسین جیسے، کبھی ڈان لیکس کی اسٹوری چھاپنے والے سرل المیڈا اور اس کو اسٹوری دینے والے اور پھر اس کو بچانے والے لوگوں کی شکل میں اور اب انسانی حقوق کے نام پر پشتین جیسے بندے کی گرفتاری۔

اس کی گرفتاری پر پاکستان سے زیادہ احتجاج اور غم و غصہ تو افغانستان میں پایا جاتا ہے اور اب تو اس کی پشت پناہی ڈھکے چھپے لفظوں سے نہیں بلکہ افغان حکومتی سطح پر کی جا رہی ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح جب پانی سروں کے اوپر سے گزر جائے، جب ''سیل خوں شہر کی گلیوں'' تک آ جائے، جب ہمارے شہر خون میں نہا جائیں۔ پھر ایک دم خیال آتا ہے۔ یہ تو بُرا ہو گیا۔


سمجھ نہیں آتی کہ ریاست کے محافظ کسی سانحہ کسی حادثہ کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ کونسی عقل ہے جو خودسوزی کو پاکستانیوں پر جائز کر دیتی ہے؟ جس طرح کے حالات سے پاکستانیوں کو گزرنا پڑتا ہے بلاوجہ غداروں کو زندہ رہنے دینے پر کیا یہ کسی غداری سے کم ہے؟
آپ نے لغت میں غداری‘ ملک دشمنی‘ بغاوت اور اس مفہوم کے کئی دیگر الفاظ دیکھے اور پڑھے ہونگے۔

ہوسکتا ہے کہ ہر شخص ان الفاظ کی تشریح اپنے انداز میں کرتا ہو اور کچھ لوگوں کی نظروں میں غدار درحقیقت غدار نہ ہوں اور ملک دشمن اصل میں ملک دشمن نہ ہوں۔ ہمارے پاس الفاظ کے کچھ ایسے ذخیرے بھی ہیں جو خطرناک سے خطرناک اصطلاحوں کے مفہوم تبدیل کرڈالتے ہیں‘ مثلاً انسانی حقوق اور جمہوری امنگیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میرے خیال میں یہاں ہمیں رہنمائی اپنی تاریخ سے لینی چاہئے۔


اگر سرنگاپٹم کے قلعہ میں محصور ٹیپو سلطان شہید کے ساتھ اس کا دست راست میر جعفر غداری نہ کرتا تو آج برصغیر پاک و ہند کا یہ جغرافیہ ہوتا جو آپ کے سامنے ہے؟ اسی لیے علامہ اقبال نے بھی میر جعفر کو ننگ ملت‘ ننگ دیں اور ننگ وطن کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ اگر شریف مکہ کی غداری کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ نہ ہوتا تو آج دنیا بھر میں مسلمانوں کی یہ حالت زار ہوتی جو آپ دیکھ رہے ہیں؟ اقبال نے تاریخ کے اس موڑ پر بھی ببانگ دہل کہا ”بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیٰ“ بحیثیت مسلمان تاریخ میرے ہاتھ میں قدم قدم پر غداروں کی ایک فہرست تھما دیتی ہے اور جو قومیں اپنے غداروں کوسزا دینے میں کوتاہی برتا کرتی ہیں انہیں اس عمل کی قیمت بڑی بھاری ادا کرنا پڑتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :