پیپلز پارٹی کا مستقبل کس کے ہاتھ میں

بدھ 9 دسمبر 2020

Mohammad Hassan Majid

محمد حسن ماجد

بی بی کے وفات پانے کے بعد پیپلز پارٹی کی وہ پوزیشن نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اب صرف سندھ کی حد تک ہی محدود رہ گئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان کی سب سے پرانی پارٹی اور ملک کی ایک بڑی پارٹی جو کہ کئی دفعہ وفاق میں اور صوبوں میں حکومت بنا چکی ہے وہ اس حالت میں پہنچ چکی ہے کہ سندھ کے علاوہ کہیں بھی حکومت بنانا ان کے لیے اب ناممکن سی بات ہوگئی ہے۔


اس کی بڑی وجہ تو بنظیر بھٹو کی غیر موجودگی ہے جس کی وجہ سے کئی جیالے پارٹی کو چھوڑ گئے۔ اور انہوں نے دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی۔ دوسری بڑی وجہ میں سمجھتا ہوں زرداری صاحب ہیں جنہوں نے بےنظیر کے وفات پانے کے بعد پارٹی کی کمان کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ 2008 کے الیکشن میں آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوئے اور پانچ سال ملک کے صدر رہے اس دوران ان کی حکومت کی پالیسیوں نے عوام کو اتنا خوش نہیں کیا جتنا کیا جا سکتا تھا۔

(جاری ہے)

  اس وجہ سے جیالوں سمیت ان کی پارٹی کے اہم رہنما بھی ان کا ساتھ چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرگئے۔ جو ان کے لیے ایک بڑا نقصان تھا۔ جیالوں سے جب پوچھا گیا تو ان کا جواب یہ ہی تھا کہ پیپلز پارٹی اب وہ پارٹی نہیں رہی جو کبھی محترمہ بینظیر بھٹو کی ہوا کرتی تھی اور زرداری صاحب پارٹی کو غلط طرف لے کر جا رہے ہیں۔ اب تو زرداری صاحب کی صحت بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ پارٹی کو مزید سنبھال سکیں تو انہوں نے پارٹی کی کمان اپنے لخت جگر بلاول بھٹو زرداری کو سونپ دی۔


بلاول بھٹو زرداری اب اس وقت پارٹی کے چیئرمین ہیں اور اپوزیشن میں اپنی پارٹی کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔ ان کی تقریر کا انداز اور جوش تو اپنی ماں بینظیر بھٹو کی طرح ضرور ہے لیکن کہیں نہ کہیں کوئی کمی ضرور ہے جو کہ ان کی پارٹی وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ 2018 کے الیکشن میں بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی قیادت کی اور بھرپور کمپین چلائی لیکن پارٹی پورے پاکستان میں تیسرے نمبر پر رہی یہاں تک کہ بلاول صاحب خود بھی لڑکانہ کی سیٹ کے علاوہ کوئی سیٹ نہ جیت سکے۔

پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ایک شرم ناک شکست کا سامنا ہوا۔ تو اس سے یہ لگتا ہے کہ بلاول صاحب اپنی پارٹی کو اس طرح سے لیڈ نہ کرسکے جس طرح بےنظیر بھٹو صاحبہ نے کیا تھا۔ آسان الفاظ میں میرے نزدیک پیپلز پارٹی کا مستقبل بلاول بھٹو نہیں ہے۔
آج کل اپوزیشن نے پی ڈی ایم کے نام سے حکومت خلاف تحریک شروع کی ہے جس میں جماعت اسلامی کو چھوڑ کر اپوزیشن کی تمام پارٹیوں نے حصہ لیا۔

پیپلز پارٹی کی قیادت بلاول بھٹو زرداری ہی کر رہے تھے لیکن کرونا وائرس ہونے کی وجہ سے فلحال وہ پارٹی کو لیڈ نہیں کرسکتے۔ ان کی جگہ پارٹی کو ان کی بہن آصفہ بھٹو زرداری لیڈ کر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے اپنی پہلی تقریر کی اور اپنے سیاسی کیریر کا آغاز کیا۔ آصفہ بھٹو کو اپنی پہلی تقریر کرنے کا موقع ملتان کے اپوزیشن کے جلسے میں ملا جس میں انہوں نے حکومت کی سہی طرح سے چھترول کی۔

ان کی تقریر کے انداز نے پورے پاکستان کو محترمہ بینظیر بھٹو کی یاد دلا دی۔ ان کی تقریر کا انداز اتنا جوشیلا تھا کہ جیالوں کو لگ رہا تھا جیسے ان کے سامنے بی بی ہی بول رہی ہوں۔ اس دن آصفہ بھٹو صاحبہ ٹویٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بھی بنی رہیں لوگوں نے ان کی تقریر کو بہت پسند کیا۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کے مستقبل کی بات ہے میں سمجھتا ہوں کہ آصفہ بھٹو ہی وہ لیڈر ہوسکتی ہیں جو پارٹی کو واپس اس پوزیشن پر لاہیں گی جہاں وہ کبھی ہوا کرتی تھی۔

اگر جیالوں کو واپس لانا ہے تو آصفہ بھٹو کو پارٹی کی کمان سونپی جائے۔ اس سے پارٹی کو پنجاب میں بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا  ہوں کہ جب آصفہ بھٹو نے اپنی پہلی تقریر کی اس دن انہوں نے پورے پاکستان میں ایک تہلکہ مچادیا۔ اور کافی لوگوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اگر پارٹی کی کمان آصفہ بھٹو کو سونپی جائے تو ہم پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :