تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
پیر 24 اگست 2020
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
ہر چیز واضح نظر آنے لگ جاتی ہے اچھائی ہو یا برائی علم کے پیمانے سے ناپی جا سکتی ہے۔ اور اس بات میں حقیقت بھی ہے کیونکہ آج سے دو سو سال پہلے تک اتنی ٹیکنالوجیز علم کی کمی کی وجہ سے میسر نہ تھیں۔ جوکہ آج کے انسان کو میسر ہیں۔ بٹن دبایا تو بلب آن، گرمی لگے تو اے سی ، سردی لگے تو ہیٹر، یہ سب علم ہی کی بدولت ممکن ہو پایا ہے۔ دانشوروں نے ان چیزوں پر بہت غور فکر کیا اور یہ چیزیں آج کے دور میں میسر آئی،آج سے دو سو سال پہلے لوگوں نے بہت مشکلات میں اپنی زندگی گزاری۔
(جاری ہے)
علم کے اس دور میں جہاں پاکستان میں ابھی تعلیم کی شرح کم ہے ، ادھر ہی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں زیادتی کے 3840 واقعات رپورٹ ہوئے مگر یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ کچھ واقعات والدین شرم کے مارے اور کچھ ادارے اپنی علمی زیادتی کی وجہ سے بھی یہ واقعات چھپا لیتے ہیں کہ ادارے کی عزت خراب نہ ہو کیونکہ ان اداروں میں اکثر تعلیی مرکز ہی ہوتے ہیں جہاں پر بچوں کو علم کی شمع دے کر جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے کا ذمہ سونپا جاتا ہے۔ کیا صرف تعلیم ہی ضروری ہے جہالت ختم کرنے کو۔۔۔؟ اگر صرف تعلیم ہی ضروری ہے تو سب سے زیادہ جہالت تو ہمارے عدالتی مراکز ، تعلیم مراکز، تھانوں اور ہسپتالوں میں ہے اگر کبھی عدالت کا چکر لگ بھی جائے تو وہاں پر ملنے والے وکیل صاحب اپنے علم کو سر پر رکھ کر سفید کو کالا اور کالے کو سفید کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار بیھٹے ہوتے ہیں ، تعلیی مرکز کی بات کی جائے تو اگر آپ نے اچھی تعلیم حاصل کرنی ہے تو پہلے آپ کو اچھے پیسوں والا اسکول دیکھنا ہو گا پھر آپ یونیورسٹی میں ہیں تو آپ کو اپنے پروفسیر صاحب کو ہمشہ خوش رکھنا ہو گا پھر آپ کو ایک اچھی تعلیمی ڈگری مل سکتی ہے، تھانے جائیں تو وہاں اہل علم ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ آپ کو لگے گا کہ انہوں نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ ہسپتال میں اہل علم جو کہ مسیح انسانیت ہوتے ہیں بہت مشکل سے انہوں نے علم حاصل کیا ہوتا ہے مگر یہ مسیح انسانیت جب تک اپنے من پسند رقوم نہ وصول کر لیں صحیح سے علاج تک نہیں کرتے ۔ کیونکہ ہم سب علم کے اس دور میں ہیں جہاں ہر قسم کی سہولیات علم کی وجہ سے میسر ہیں سوائے تہذیب اور انسانیت کے ۔
قدیم زمانہ میں ہمارے پاس شاید علم کے نہ وہ مراکز تھے نہ سہولیات مگر ہر شخص میں تہذیب ہوا کرتی تھی ، احساس ہوا کرتا تھا بھوک تھی مگر صرف پیٹ کی ، مشکلات تھیں مگر اتحاد تھا، علم کم تھا مگر تہذیب تھی ، پھر یوں ہوا کہ تہذیب کو ہم نے علم سے پیچھے چھوڑ دیا اور بھوک اب بھی ہے مگر صرف بیٹ کی نہیں ، تعلم تو ہے مگر تعلم یافتہ جہالت ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان چانڈیو کے کالمز
-
میں کس سے پوچھوں دیوان سنگھ سے یا جاوید چوہدری صاحب سے ۔۔؟
بدھ 29 ستمبر 2021
-
ہاں وہ چہرے نہیں پڑھ سکتی ہے
بدھ 28 اپریل 2021
-
میں اور میں دوست ہیں
منگل 16 مارچ 2021
-
مطلب پھر سے دھاندلی ہوگئی۔۔؟
ہفتہ 27 فروری 2021
-
پاکستان کا نظامِ حکومت کیا ہے؟
ہفتہ 6 فروری 2021
-
ماں جی بھی کتنی سادہ ہیں
جمعرات 21 جنوری 2021
-
ریاست مدینہ کا خلیفہ
جمعہ 8 جنوری 2021
-
کون ہو گا اگلا وزیراعظم۔۔۔؟
ہفتہ 26 دسمبر 2020
محمد عرفان چانڈیو کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.