تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی

پیر 24 اگست 2020

Mohammad Irfan Chandio

محمد عرفان چانڈیو

تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
 معلوم نہیں کچھ دنوں سے یہ شعر ہے کہ دماغ سے نکل ہی نہیں رہا بڑے بزرگوں سے سنا تھا کہ علم جہالت کو دور کرتی ہے ۔علم اُبھرتے ہوئے سورج کی مانند ہے جو کہ اندھرے کو ختم کر کے روشنی ہر سو پھیلا دیتا ہے۔
 ہر چیز واضح نظر آنے لگ جاتی ہے اچھائی ہو  یا برائی علم کے پیمانے سے ناپی  جا سکتی ہے۔

اور اس بات میں حقیقت بھی ہے کیونکہ آج سے دو سو سال پہلے تک اتنی  ٹیکنالوجیز علم کی کمی کی وجہ سے  میسر نہ تھیں۔ جوکہ آج کے  انسان کو میسر ہیں۔ بٹن دبایا تو بلب آن، گرمی لگے تو اے سی ، سردی لگے تو ہیٹر، یہ سب علم  ہی کی بدولت ممکن ہو پایا ہے۔ دانشوروں نے ان چیزوں پر بہت غور فکر کیا اور یہ چیزیں آج کے دور میں میسر آئی،آج سے دو سو  سال پہلے لوگوں نے بہت مشکلات میں اپنی زندگی گزاری۔

(جاری ہے)

نہ آزادی کی سہولیت میسر تھی اور نہ کوئی تعلیم کی ، کیونکہ اس وقت علم کے مراکز کا فقدان تھا مگراس علم سے دور دنیا میں  علم سے سرشار ہر آدمی میں انسانیت ہوا کرتی تھی۔ کچھ دن پہلے جی بات ہے کہ میرے ایک دوست کے تایا بیمار ہوئے جو کہ گردے کے مرض میں مبتلا تھے۔ وہ اپنے بیٹوں کو ملنے لاہور گئے ہوئے تھے وہاں طبعیت زیادہ خراب ہو جانے کی وجہ سے  انہیں لاہور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لایا گیا ۔

مگر زندگی نے 1 گھنٹے بعد ساتھ چھوڑ دیا بیٹوں پر 1 گھنٹے پہلے جو باپ کا سایہ تھا وہ  یتیمی کے سائے میں بدل گیا  بہرحال ہسپتال کے ایڈمنسٹیریشن بلاک کے انچارج نے کہا آپ 35 ہزار روپے جمع کروا دیں تاکہ مرحوم کی میت کوآپ کے حوالے کیا جا سکے، اتنے زیادہ بل کی وجہ پوچھنے پر معلوم ہوا یہ بل آپ کو ادا کیے بنا میت نہیں مل سکتی کیونکہ کہ یہ ہسپتال بڑے لوگوں کے لیے ہے جو کہ علم سے سرشار ہوتے ہیں اور جن کا یہ ہسپتال ہے وہ بھی علم سے مالا مال ہیں مگر تہذیب کا کچھ نہیں کہہ سکتے ۔


 علم کے اس دور میں جہاں پاکستان میں ابھی تعلیم کی شرح کم ہے ، ادھر ہی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں زیادتی کے 3840 واقعات رپورٹ ہوئے مگر یہ  صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ کچھ واقعات والدین شرم کے مارے اور کچھ ادارے اپنی علمی  زیادتی کی وجہ سے بھی یہ واقعات چھپا لیتے ہیں کہ ادارے کی عزت خراب نہ ہو کیونکہ  ان اداروں میں اکثر تعلیی مرکز ہی ہوتے ہیں جہاں پر بچوں کو علم کی شمع دے کر جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے کا ذمہ سونپا جاتا ہے۔

  کیا صرف تعلیم ہی ضروری ہے جہالت ختم کرنے کو۔۔۔؟ اگر صرف تعلیم ہی ضروری ہے تو سب سے زیادہ جہالت تو  ہمارے عدالتی مراکز ، تعلیم مراکز، تھانوں  اور ہسپتالوں میں ہے اگر کبھی عدالت کا چکر لگ بھی جائے تو وہاں پر ملنے والے وکیل صاحب اپنے علم کو سر پر رکھ کر سفید کو کالا اور کالے کو سفید کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار بیھٹے ہوتے ہیں ، تعلیی مرکز کی بات کی جائے تو اگر آپ نے اچھی تعلیم حاصل کرنی ہے تو پہلے آپ کو اچھے پیسوں والا اسکول دیکھنا ہو گا پھر آپ یونیورسٹی میں ہیں تو آپ کو اپنے پروفسیر صاحب کو ہمشہ خوش رکھنا ہو گا پھر آپ کو ایک اچھی تعلیمی ڈگری مل سکتی ہے،  تھانے جائیں تو وہاں اہل علم ایسی زبان استعمال کرتے ہیں  کہ آپ کو لگے گا کہ انہوں نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا ہو گا۔

  ہسپتال میں اہل علم جو کہ  مسیح انسانیت ہوتے ہیں بہت مشکل سے انہوں نے علم حاصل کیا ہوتا ہے مگر یہ مسیح انسانیت جب تک اپنے من پسند رقوم نہ وصول کر لیں  صحیح سے علاج تک نہیں کرتے ۔ کیونکہ ہم سب علم کے اس دور میں ہیں جہاں ہر قسم کی سہولیات علم کی وجہ سے میسر ہیں سوائے تہذیب اور انسانیت کے ۔
قدیم زمانہ میں ہمارے پاس شاید علم کے نہ وہ مراکز تھے نہ سہولیات مگر ہر شخص میں تہذیب ہوا کرتی تھی ،  احساس ہوا کرتا تھا بھوک تھی   مگر صرف پیٹ کی  ، مشکلات تھیں مگر اتحاد تھا، علم کم تھا مگر تہذیب تھی ، پھر یوں ہوا کہ تہذیب کو ہم نے علم سے پیچھے چھوڑ دیا  اور بھوک اب بھی ہے مگر صرف بیٹ کی نہیں ، تعلم تو ہے مگر تعلم یافتہ جہالت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :