پنجاب کی انتظامی ٹیم کیسی ہو؟

منگل 6 جولائی 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،ایک مثالی ،مستعد اور متحرک حکومت  کےلئے  آہستہ آہستہ لیکن  سلو اینڈ سٹیڈی   اپنے مشن اور وژن کو انتہائی احتیاط اور جانفشانی سے لے کر آگے چل رہے ہیں جس کے نتیجے میں پنجاب ایک بار پھر  وہ صوبہ بنتا جا رہا  ہے جو  بڑے بھائی کی حیثیت سے دوسرے صوبوں کیلئے قابل تقلید مثالیں چھوڑ تا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج  پنجاب میں ہر شعبہ زندگی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

وزیر اعلیٰ  عثمان بزدار ،اچھے افسروں  کی تعیناتی اور   اچھی حکومت کے قیام کیلئے  بہت محنت کر رہے ہیں،اس مقصد کیلئے ان کی نگاہ صرف حالیہ دور میں ڈیلیور کرنے اور عوام کو ریلیف دینے  پر  ہی  نہیں  بلکہ وہ مستقبل میں آنے والی حکومتوں کے لئے   بھی مشعل راہ بننے کی کوشش میں ہیں، جس کی وجہ سے  ممکن ہے آئندہ الیکشن میں بھی عوام کی اکثریت تحریک انصاف کو ہی حکمرانی کا مینڈیٹ دے،حالانکہ اسے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بہت زیادہ چیلنجز ہیں ۔

(جاری ہے)

عثمان بزدار کے حالیہ اقدامات  تحریک انصاف کی آئیندہ حکومت  کیلئے بھی آسانی و آسائش کا سبب ہونگے،صنعت زراعت سیاحت  اور دوسرے شعبوں  کیساتھ  ساتھ  عثمان بزدار سرکاری مشینری یعنی بیوروکریسی کو بھی عوام دوست بنانے کیلئے کوشاں ہیں، شروع  میں انہیں ا س حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا  اور خصوصی طور پر سابق  چیف سیکرٹری پنجاب   میجر آعظم سلیمان  کے پنجاب سے ہٹنے کے بعد بیوروکریسی میں کافی مایوسی اور تنزلی دیکھنے کو ملی تھی مگر اب ایک بار پھر معاملات میں بہتری نظر آ رہی ہے  اور  جس تیزی او ر  ترتیب سے  وزیر اعلیٰ بزدار  منصوبہ بندی کر رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جلد ہی  وہ بیوروکریسی کو اپنے طریقہ سے ملک و قوم کی خدمت کیلئے بروئے کار لے آئیں گے۔

ان دنوں وہ  اپنی انتظامی ٹیم میں تبدیلیوں کے لئے غور و خوض کر رہے ہیں۔
      بیوروکریسی  دراصل اس  ملک کے نظم و نسق کا ایک  جزو  لا ینفک ہے،  اسے  نیب،انٹی کرپشن  اور دوسرے  ایسے ہی اداروں   کے  خوف و ہراس،انتقامی کارروائیوں اور   سیاسی مداخلت سے نجات دیکر اعتماد کیساتھ نتائج پر مبنی کارکردگی دکھانے کیلئے اختیار دینا ہو گا  ،اعلیٰ تعلیم یافتہ،تجربہ کار اور تربیت یافتہ یہ فورس ایک دور میں ریاست کا سرمایہ تھی،مگر بتدریج سیاسی مداخلت،سیاسی تعیناتیوں،کنٹریکٹ پر سیاسی افراد کی اعلیٰ عہدوں اور بھاری مشاہراہ پر بھرتیوں سے سرکاری افسر بد دلی اور مایوسی کا شکار ہو گئے،اس صورتحال کو فوری بدلنے اور بیوروکریسی میں خود اعتمادی پیدا کر کے انہیں اختیار دیکر نتائج حاصل کرنے کی ضرورت ہے،ایک افسر کو عہدہ دیکر عوام کے سامنے کر دیا جائے مگر اس سے تمام تر اختیارات چھین لئے جائیں، یا اس پر اعتماد ہی نہ کیا جائے اور اسے بتایا ہی نہ جائے کہ حکومت اس سے کیا نتائج چاہتی ہے تو ایسا افسر کیا کار کردگی دکھائے گا؟
وزر اعلیٰ بزدار کو یہ بھی  مشورہ ہے کہ انہیں اپنی  منتخب  بیوروکریٹک ٹیم  کے لئے ہر موقع پر  سٹینڈ لینا ہو گا،ورنہ اچھی سے اچھی ٹیم بھی آپ کو فائدہ نہ دے سکے گی۔

ماضی میں نیب نے پنجاب میں کام کرنے والے دو اچھے افسروں فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے خلاف کاروائی کی  تو بیوروکریسی نے عملی طور پر کام ہی  کرنا چھوڑ دیا  جس کا خمیازہ اس صوبے کو ابھی تک بھگتنا پڑ رہا ہے ،ان دنوں پھر نیب  اور انٹی کرپشن کے ذریعے  ،پنجاب کے افسروں کو ہراساں کیا  جا رہا ہے ،انتہائی اپ رائٹ افسر اور صوبائی سیکرٹری صحت  بیرسٹر نبیل اعوان کو پہلے نوٹس جاری کر کے کبھی نیب کے دفتر طلب کیا جا  رہا ہے اور کبھی ان سے ان کے دادے ،نانے کی جائیدادوں کی تفصیلات مانگی جا رہی ہیں  وہ افسر جو پنجاب میں کرونا جیسی موزی وبا سے کامیابی سے لڑ  رہا ہے  ، اسے نیب کے خوف اور ہتھکنڈوں سے  ڈرایا جا رہا ہے، کیوں؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اسے اسکی محنت اور خدمات پر انعام دیتےمگر ہم اسے نیب کے نوٹسز کی صورت میں  اچھا انعام دے رہے ہیں۔

اب  تازہ خبر آئی ہے کہ وزیر اعلیٰ بزدار کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید  کو بھی نیب کا نوٹس جاری ہو گیا ہے،وزیر اعظم  اور وزیر اعلیٰ  طاہر خورشید کی محنت اور کام کی تعریف کرتے ہیں شائد اسی وجہ سے ان کو انکی اس  محنت کا  انعام،  نیب دینا چاہ رہا ہے ،    دیکھتے ہیں اگلا نوٹس کس افسر کو ملتا ہے؟  
    پنجاب  میں کام کا تجربہ رکھنے والی  بیوروکریسی تعلیم  اور تربیت کے حوالے سے ملک بھر میں امتیازی مقام و مرتبہ کی حامل ہے،اگر مقاصد حاصل کرنا ہیں،عوام کے دل جیتنا ہیں،آئندہ الیکشن میں سرخرو ہونا ہے تو لازمی ہے کہ پنجاب کی نئی انتظامی ٹیم کے انتخاب میں احتیاط کیساتھ عرق ریزی کا بھی مظاہرہ کیا جائے۔

  نئی انتظامی ٹیم میں ایسے افسروں کو تعینات کرنے کی اشد ضرورت ہے جو قاعدے قانون کے پابند اور انصاف پسند ہوں،ضروری نہیں کہ حصول انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ ہی کھٹکھٹایا جائے،عوام کو عدالت سے باہر فوری اور سستا انصاف مل جائے تو یہ پنجاب حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی،ان افسروں کا انتخاب کیا جائے جو دیانتدار ہوں،قوانین کے پابند،فیصلے کرتے  وقت  جن کے ترازو کے پلڑے جھکنے نہ پائیں،کیونکہ اس ملک اور عوام کو اب سیدھے اور بے لاگ،غیر امتیازی اور قوانین کے مطابق فیصلوں کی ضرورت ہے۔


اسی طرح وزیر اعلیٰ کو اپنی بیوروکریٹک ٹیم میں ہم آہنگی  اور ٹیم ورک پیدا کرنے کی ضرورت ہے،جو ابھی تک نظر نہیں آ رہا۔  مثال کے طور  پر  کمشنر لاہور ڈویزن کیپٹن عثمان انتہائی متحرک اور محنتی افسر ہیں مگر انکی اپنی ٹیم کے ساتھ ہی نہیں بنتی ،وہ اپنے ڈویزن کے اضلاع کے ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنروں سے مطمعن ہیں ،نہ ان پر بھروسہ کرتے ہیں  اسی  وجہ سے انکی ٹیم بھی ان کے ساتھ خوش نہیں ،کیپٹن عثمان سولو فلائٹ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے اور نقصان پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ کا ہو گا ۔

وہ جو محکمہ چھوڑ کر آئے ہیں اسکی سیکرٹری بھی ان سے نالاں ہیں  وہ سمجھتی ہیں کہ کیپٹن عثمان ابھی تک اپنے آپ کو سیکرٹری پرائمری ہیلتھ ہی سمجھ رہے ہیں اور اپنا کمشنری کا کام کرنے کی بجائے ان کے محکمے میں مداخلت کر رہے ہیں اسی وجہ سے سیکرٹری  پرائمری ہیلتھ نے  اپنے محکمے میں تعینات کیپٹن عثمان دور کے اکثر افسر تبدیل کر دیے ہیں۔  
انتظامی بحران کی  بڑی وجہ  بر وقت اور شفاف فیصلے نہ ہونا  بھی ہوتا  ہے ،قانون کے مطابق اور دیانتداری پر مشتمل فیصلے ہی ہماری بقاء کے ضامن ہیں۔

آج جن چیلنجز کا ملک و قوم اور صوبہ کو سامنا ہے ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایسے افسر ناگزیر ہیں جو محنتی ہوں، افسر دیانتدار ہو مگر تساہل اور تغافل سے کام لے تو دیانتداری بے فائدہ ہو جاتی ہے،افسر ایسے ہوں جو کسی فائل کو التواء میں نہ رکھیں جو مسئلہ سامنے آئے اس کا فوری حل نکالیں ،منتخب کردہ انتظامی ٹیم کے افسروں میں کام کرنے ، ہدف کے حصول  ، اہلیت ، مثبت سوچ اور عوامی خدمت کا  جزبہ بھی ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :