رکو چندا

پیر 30 نومبر 2020

Mrs Jamshaid Khakwani

مسز جمشید خاکوانی

آجکل ایسے حالات چل رہے ہیں کہ بظاہر وہ مختلف لگتے ہیں لیکن اس کے پیچھے ایک ہی ہستی نکلتی ہے اب تو دل گھبرانے لگا ہے حالانکہ عمران خان نے کہا تھا آپنے گھبرانا نہیں ہے اور ہم بھی مستقل مزاجی سے لگے ہوئے ہیں کہ انشا اللہ پاکستان کے حالات بہتر ہونگے اس جستجو میں ہم نے کیا کیا نہیں دیکھا ہم نے واقعی پاکستان کو بدلتے دیکھا ہے لیکن یہ تبدیلی غریبوں میں آئی ہے وہ لوگ جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا وہ پر امید بھی ہیں اور قدرے خوش بھی میں بھی اس جستجو میں وال وال پھرتی ہوں کہ لوگوں کی سوچ تک پہنچوں ایک وال پر خوبصورت تحریروں کا ایک خزانہ ملا ہمیں تو سیاست نے ایسا گھیرا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی کسی اور موضوع پر قلم نہیں اٹھتا عورت ہونے کے ناطے مجھے زیادہ تر عورت کے مسائل پر ہی لکھنا چاہیے لیکن وہ کیا ہے کہ چند عورتوں نے عورتوں کو شرمسار کر دیا ہے کہ ہر طرف سے طوفان بد تمیزی کے بادل امڈتے آ رہے ہیں حالانکہ عورت اللہ کی بہترین تخلیق ہے ،وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ،صرف رنگ ہی نہیں وفا و ایثار کی اکثر مثالیں عورت ذات سے ہی منسوب ہیں جس طرح ایک اچھی عورت اپنے مرد کو اونچا مقام دے کر معاشرے میں اپنے خاندان کے لیے فخر و عزت کا باعث بنتی ہے اس طرح ایک بھٹکی ہوئی انا پرست متکبر عورت اپنے پورے خاندان بلکہ آلے دوالے کو بھی لے ڈوبتی ہے ایسی شیطان صفت عورتوں سے مرد بھی پناہ مانگتے ہیں ۔

(جاری ہے)


جس طرح کے بیان ڈیلی آتے ہیں اور ایک ہی قسم کے انتقام انتقام کی رٹ منظر کو دھندلا رہی ہے لیکن اس دھندلاہٹ میں بھی لوگوں کو نوشتہ دیوار صاف دکھائی دے رہا ہے روک سکو تو روک لو کے نعرے کو لے کر چلنے والی ہستی کو کسی نہ کسی کو تو کہنا پڑے گا رکو چندا اب بس ہو گئی اس قدر جھوٹ اور دن رات جھوٹ یہ ایک شیطانی چکر ہے جس کے تانے باے سرحد پار مل رہے ہیں لیکن رکیے سب ایک جیسی نہیں ہوتیں ۔

پہلے ایک حساس سی تحریر پڑھ لیجیے ۔۔۔۔برگد کے گھنے پیڑ کے نیچے بیٹھے بابے کے گرد کچھ منچلے نوجوان جمع تھے ایک نوجوان بولا سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی ؟ قریب بیٹھے دوسرے نوجوانوں نے آنکھوں آنکھوں میں ہنس کر ایک دوسرے کو دیکھا
اللہ بخشے اسے بہت اچھی عورت تھی بنا ناراض ہوئے بغیر غصہ کیے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا مسکراہٹیں سمٹیں ایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی کیا نہیں ؟بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے ،کہتے تو وہ ٹھیک ہی ہیں بڑی خطرناک عورت تھی اور حقیقتاً میں نے اسے ڈر کے مارے ہی طلاق دی تھی ۔

۔۔۔
یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے ؟نوجوان جوشیلے انداز میں بولا ۔۔۔
میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا میں تو ” اس “ سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی ،پرسکون جواب نوجوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔۔ایسی عورتوں کو تو جہنم میں ہونا چاہیے ۔لا حول ولا قوة،کہاں آپ جیسا شریف النفس آدمی کہاں وہ عورت ،اچھا کیا آپنے چھوڑ دیا نوجوان کے لہجے میں غصہ تھا ۔

بوڑھے کی متجسس زندگی کا پٹارہ کھل کر سامنے آ گیا تھا تجسس ختم ہوا اب سب باری باری منتشر ہونے لگے جانے والوں نے عنوان پڑھ لیا تھا کہانی خود بنانی تھی جو رہ گئے تھے وہ وہی تھے جو اصل کہانی جاننا چاہتے تھے
میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا کہ اسے جہنم میں ہی ہونا چاہیے تھا تب ہی میں نے اسے جہنم جیسی زندگی دی تھی بوڑھی آنکھوں میں اضطراب اترا یہ تب کی بات ہے جب میں سرکار کے ہاں ایک روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا میری ماں چاہتی تھی کہ میری شادی ہو جائے رشتہ ڈھونڈا گیا ایک مونگ پھلی فروش کی بیٹی میری ماں کو پسند آئی خوبصورت سلیقہ مند اور ایکدم خاموش طبع ،مجھے اس رشتے پر اعتراض تھا کہ وہ ایک مونگ پھلی بیچنے والی کی بیٹی تھی مزدور کی اولاد کو پیٹ کی فکر رہتی ہے تربیت کی نہیں ،تربیت بڑے گھرانوں میں کی جاتی ہے جہاں افلاس آنکھوں کی روشنی چھیننے سے قاصر ہوتا ہے وہ کیا تربیت دے گی میری اولاد کو ؟؟؟
وہ لڑکی میری ماں کو اتنا پسند تھی کہ اماں اس کے علاوہ کسی کا نام تک سننا پسند نہیں کرتی تھی پھر وہ بیاہ کر میرے گھر آ گئی رخصتی کے وقت اس کے باپ نے مجھے کہا ،میری بیٹی سیدھی سادھی ہے اسے دنیا داری کا کوئی خاص پتہ نہیں اگر کہیں کوئی چُوک ہو جائے تو اسے معاف کر دینا یوں ہے بڑے دل والی ” اپنے سائیں کو خوش رکھے گی “
وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسے میری ماں نے بتایا تھا سلیقہ مند ،سگھڑ،تابعدار ،بابا جی کی وہی گھسی پٹی کہانی ہو گی کچھ اور نوجوان اُٹھ کر چلے گئے ۔

۔ میری باہر دوستوں کے ساتھ کوئی اچھی صحبت نہ تھی ملازمت کے اوقات میں کھانا گھر سے باہر کھانا دوستوں میں بیٹھے رہنا رات گئے تک محفل جمتی پھر گھر جانا وہ کیا کھاتی تھی کیا پہنتی تھی کس حال میں رہتی تھی مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی انہی دنوں میری ماں بھی دنیا سے رخصت ہو گئی ایک روز میں جوئے میں بھاری رقم ہار کر گھر آیا تو کہنے لگی آپ تو کھانا باہر کھا کر آتے ہیں مجھے بھوک لگتی ہے ہو سکے تو ایک ہی بار مہینے کا راشن ڈلوا دیا کیجیے روز روز بازار سے خریداری کی صعوبت نہیں اٹھانی پڑے گی کیا؟؟؟ اس مونگ پھلی پیچنے والے کی بیٹی کی اتنی اوقات کہ مجھ سے مطالبہ کر سکے مجھے طیش آ گیا ،ہو ناں تم کسی بڑے باپ کی بیٹی کہ تمہیں راشن ڈلوا دیا کروں اور خرچ بھی دوں اوقات دیکھی ہے تُو نے اپنی غصے میں اس پر ہاتھ اٹھایا مغلظات بھی بکے ،میں یہ نہیں سوچ سکا کہ آخر زندہ رہنے کے لیے اسے روٹی تو ہر حال میں چاہیے تھی وہ جسمانی لحاذ سے کافی کمزور تھی مار برداشت نہیں کر سکتی تھی پشیمانی تھی یا کیا وہ دو دن بستر پر پڑی رہی مجھے اس پر بھی کوئی پرواہ نہیں ہوئی ۔

پھر اس نے گھر میں ہی سینا پرونا شروع کر دیا ہاتھ کا ہنر اس کے کام آیا یوں اس کی روٹی کا انتظام ہو گیا اور میں اس سے پہلے سے بھی زیادہ لا پرواہ ہو گیا ایک دن ایک ہمسائے نے مجھے راستے میں روک کر کہا جب آپ گھر میں نہیں ہوتے آپ کے گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیں ۔میرے سوا میری غیر موجودگی میں کون آتا تھا جس سے وہ اتنی آواز میں باتیں کرتی تھی ؟؟ غصہ حد سے سوا تھا بس نہ چلتا تھا کہ اسے جان سے مار دوں لیکن بس موقع کی تلاش میں تھا ۔

ایک رات پچھلے پہر کسی کے بولنے کی آواز آئی میری آنکھ کھلی چاندنی رات میں صحن میں پڑی ہر چیز واضح تھی میں اٹھ کر دروازے تک آیا اب آواز زیادہ واضح تھی وہ کہہ رہی تھی سائیں !صبح ایک روٹی کے لیے آٹا گھر میں موجود ہے وہ ایک روٹی کھا کر چلا جائے گا یہ سوچے بنا کہ میں سارا دن بھکی رہوں گی میری روٹی جب تک تیرے ذمے تھی تو عزت سے ملتی تھی جب تو نے اپنے نائب کے ہاتھ میں دی تو روٹی کے ساتھ بے عزتی اور اذیت بھی ملنے لگی مجھے اب روٹی تُو ہی دے تیرا بنایا نائب تو خائن نکلا ۔

وہ میری میری شکایت کر رہی تھی لیکن کس سے ؟؟کون تھا جو اسے روٹی دیتا تھا مجھ سے بھی پہلے ؟؟؟میں نے باہر آکر دیکھا وہ صحن کے بیچ چارپائی پر سوئی دھاگہ اور فریم ہاتھ میں لیے خود سے باتیں کر رہی تھی وہاں کوئی بھی نہ تھا میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی وہ خدا سے میری شکایت کر رہی تھی اس لمحے وہ مجھے کوئی اور ہی مخلوق لگی وہ بہت کم بولتی تھی لیکن کس کے ساتھ اتنا بولتی تھی آج مجھے پتہ چلا وہ تو بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی کیسی عورت تھی جو افلاس کے ہوتے ہوئے خدا شناس تھی میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا
دن چڑھتے ہی میں نے سامان باندھا اور اسے اس کے گھر چھوڑ آیا سسر نے طلاق کی وجہ پوچھی تو میں نے ڈرتے ہوئے کہا یہ بڑی خطرناک عورت ہے بڑے دربار میں میری شکائتیں لگاتی ہے مجھے ڈر کہ بادشاہ کو کسی دن تاؤ آ گیا تو میرا حشر نہ کر دے حقیقت یہ تھی کہ میں اس کے ساتھ انصاف نہ کر سکا تھا اس کا باپ گھر کی دہلیز پر ہی کھڑا تھا میرے پلٹنے پر کہنے لگا میں نے تمہیں کہا بھی تھا اسے دنیا داری نہیں آتی ۔

وہ تو بس سائیں کو خوش رکھنا جانتی ہے اس کی مراد خدا سے تھی ،اور میں خود کو سائیں سمجھا تھا جب میں واپس گھر آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ رات اس نے یہی تو مانگا تھا ” تو خود مجھے روٹی دے تیرا نائب تو خائن نکلا “تو آج نان نفقے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا میں بے تحاشہ رویا اس کا سائیں بہت بڑا تھا جس تک اس کی رسائی تھی وہ تو دو جہانوں کا بادشاہ تھا میرے لیے تو اس کی دو روٹی بھاری تھی وہ کیا نہیں کر سکتا تھا کہیں وہ میرے لیے بد دعا نہ کر دے میں بہت ڈر گیا لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہاں میں کہاں وہ میں کور چشم اسے پہچان ہی نہ سکا بابے کی بوڑھی آنکھوں میں نمی اتر آئی کہانی کے اختتام تک بابے کے پاس صرف ایک نوجوان بیٹھا تھا کہانیاں بہت سے لوگ جانتے ہیں لیکن کہانی کی حقیقت تک پہنچنے والا کوئی ایک ہی ہوتا ہے !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :