کرونا وائرس اور علماء کرام کا کردار

بدھ 1 اپریل 2020

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

کرونا وائرس کی وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہوا ہے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن کی رسائی چاند سے آگے مریخ تک ہے اس عالمی وباء کے آگے بے بس نظرآتے ہیں پوری دنیا میں نفسا نفسی کا عالم ہے ،سائنسی دنیا کے پاس سوائے احتیاط کے کوئی علاج نہیں مذاہب عالم خاموش ہیں ویسے بھی ماسواء اسلام کے مذاہب عالم کے پاس ہے ہی کیا وہ تو انسانی خودساختہ نظام کے گود میں آخری ہچکیاں لے رہی ہے جب کہ اسلام باقائدہ ایک حیاتِ جاویدہ کی روشن تصویر ہے، جس میں نظام عدل، نظامِ معیشت، خاندانی و سماجی نظام زندگی گزار نے ساتھ ساتھ اپنے خالق حقیقی سے رشتہء بندگی قائم رکھنے کے طریقہ کار واضح کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلمانانِ عالم اپنے وجود کے روزِ اول سے اپنے مذہبی پیشواء کے بہت قریب نظر آتے ہیں، ولادت سے موت تک، شادی بیاہ ، تقسیم میراث، اصولِ زندگی و بندگی عین دینِ اسلام مطابق کیسے ممکن ہے یہ علماء اکرام ہی کی مرہونِ منت ہے کہ صدیوں سے عوام الناس کو دیانت اور ذمہ داری کے ساتھ رسول اللہﷺ کے ارشادات کے عین مطابق رہنمائی کرتے آئے ہیں، پھر کیسے ممکن ہے کہ کرونا جیسی عالمی وباء کی صورت میں مسلمانوں کی نگاہیں اپنے ائمہ و پیشواء کے جانب نااٹھے اور وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمان و عالم انسانیت کی رہنمائی ناکریں، ہمارے معاشرے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ علماء اکرام مساجد و مدارس کے چار دیواری میں بسنے والی وہ مخلوق ہے جو دنیا اور اس کے جدید نظام اس کی ترقی سے نا آشنا ہے، یہ وہ قدامت پسند طبقہ ہے جو ضروریات انسانیت سے بے خبر ہے ، ان کا کام صرف چٹائیوں میں بیٹھ کر اللہ اور اسکے رسولوں کے قصے سنانا اور نکاح و جنازہ پڑھاناہے، مولویت کے تاریخ سے نابلد لوگ ہی ایسا سوچ سکتے ہیں ، جبکہ اسلام کی تحفظ ، ترویج و اشاعت اور انسانیت کی بھلائی کے لئے جب جہاں ان کی ضرورت پیش آئی علما ء اکرام نے بناکسی لالچ کے اپنا کردار ادا کیا ، آج سے صرف سو سال پہلے تک اسلامی سلطنت کی نظامِ عدلیہ ، نظامِ تعلیم ، نظامِ معیشت سمیت ملکی اہم انتظامی امور علماء اسلام ہی کے زیرِ نگین تھے، زمانہء حاضر میں بھی علماء اکرام کی خدمات کسی سے کمتر نہیں ، آج ایک طرف جدید تمدنی ترقی نے نٹ نئے مسائل کا طوفان لا کھڑا کردیا ہے بلخصوص بینکنگ و میڈیکل سائنس کی دنیا میں غیرمعمولی انقلاب نے سیکڑوں ایسے مسائل پیدا کردیئے جن کا حل مذاہب عالم اور ان کے پیشواء کے پاس نہیں تھے ایسے نازک موقع پر عصرِ حاضر کے علماء اکرام نے اسلامی معیشت، اسلامی بینکنگ، ٹیسٹ بے بی ٹیوب، انسانی دودھ اور منی بینک ، تبدیلی جنس بذریعہ سرجری ، جینیٹک اور کلوننگ کے مسائل، انسانی خون کا مسئلہ ، گردے کی تبدیلی اور انسانی اعضاء کی پیوند کاری سمیت سیکڑوں جدید مسائل پر پرمغز تحقیقی مقالوں کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ اسلام کے پاس عالم انسانیت کا ہر سوال کا جواب موجود ہیں یقینا علماء اسلام کی یہ خدمت اظہر من الشمش مترادف ہے، اختصار کے پیش نظر اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں حکومت اور لبرل طبقے کی جانب سے باربار یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کروناوائرس کی تباہ کاری سے علماء اکرام ناواقف ہے ، اگر پاکستان میں کرونا وائرس پھیلتا ہے تو اس کی اصل وجہ علماء اکرام کی بے احتیاتی ہوگی ، میں ان حضرات کی خدمت میں نہایت ادب و احترام سے گوش گزار کرنے کی جسارت کرنا چاہونگا کہ کیا صرف علماء اکرام ہی غیر محتاط ہیں اور جناب کیا آپ حضرات نے سوائے لاک ڈاؤن کے اس عالمی وباء کرونا وائرس سے بچنے کے لئے کوئی اور انتظام کیا ہے؟ کیا آپ کی یہ عوام لاک ڈاؤن کی متحمل ہیں؟ ملک کا ایک بڑا طبقہ جو پہلے سے ہی بیروزگار ہے اور غربت کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں اور وہ طبقہ جو روزانہ کے بنیاد پر کماتے ہیں، ان کے لئے آپ نے کیا انتظام کیا ہے، علماء اکرام تو اپنی تقریروں ، تحریروں اور تدبیروں سے عوام کو وباء کی خطرات سے آگاہ بھی کررہے ہیں اور شرعی حکم بھی بیان فرمارہے ہیں ساتھ میں عوام کو صلح رحمی کرنے صدقات دینے اور استغفار کرنے کی مسلسل تلقین فرمارہے ہیں ساتھ ہی آپ کے حکم کے مطابق مساجد و مدارس بھی بند کردیئے ، دینی مدارس کے سربراہان نے سالانہ امتحانات اور طالبعلموں کی زندگی کی سب سے یادگار لمحہ یعنی دستار بندی کے پروگرام تک ملتوی کردیئے ، جس میں شیخ الاسلام جسٹس(ر) مفتی تقی عثمانی اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کلیڈی کردار ادا کرتے ہوئے حکومت اور مذہبی طبقے کے درمیان پل کا کردار اداکیا اور حکومت کی جانب سے کئے گئے احتیاطی تدبیروں پر من و عن عمل کرنے کی ھدایت کی، پھرکیا وجہ ہے کہ علماء اکرام ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے ، جبکہ تمام سپر مارکیٹ کھلے ہوئے ہیں اور وہاں عوام کا رش حکومت کی حکمت عملی کی ناکامی کی منہ بولتا ثبوت ہے، پولیس ہیڈ کواٹر ، مارکیٹوں اور دیگر عوامی مقامات پر غیرمعمولی ہجوم کیا کرونا وائرس پھیلنے کے لئے کافی نہیں اور تو اور حکومت سندھ کی سخت ترین پابندی کے باوجود بعض مذہبی مقامات پر مذہبی اجتماعات سمجھ سے بالاتر ہے ایک طرف ایک طبقے کی مجالس دوسری طرف جمعہ پڑھانے پر علماء اکرام کے خلاف FIR کیا یہ کھلی تضاد نہیں ، عوام الناس کو گھروں تک محدود رکھنا امام مسجد کا کام ہے یا انتظامیہ کا ؟ کیا ائمہ مساجد علماء اکرام ہمارے معاشرے کا معززترین طبقہ نہیں ہے ہمارے معاشرے کے اس دوہرا معیار پر میرے دل و دماغ میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے کہ ایک پروفیسر کے ہاتھ میں ہتھکڑی دیکھ کر حکمرانوں کے ایوانوں میں طوفان برپا کرنے والے علم دوست معاشرے کو درجنوں علماء اکرام کے ہاتھوں میں ہتھکڑی نظرنہیں آئی، کیا ان علماء اکرام کا احترام حکمران سمیت ہم سب فرض نہیں؟ ہمارے معاشرے میں مولویت مظلوم ، خدمت گار اور علم دوست طبقہ ہے ان کی روشن کردار کی قدر کریں ناکہ بلاجہ وجہ تنقید کے نشتر چلائیں اگر علماء سو معاشرے میں دین ، تہذیب و تمدن پر حملہ آور ہیں تو علماء حق کی بہت بڑی تعداد اسلامی اقدار اور علم و حکمت کا پاسبان ہے جو احسن انداز میں عالم انسانیت کے سامنے دین اسلام کی ترجمانی کررہے ہیں اور انہی کی وجہ سے ہمارا دین ، تہذیب و تمدن محفوظ و معمور ہے ، اللہ بزرگ و برتر ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائیں آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :