معمار قوم اور سانحہ پشاور کی یاد

بدھ 16 دسمبر 2020

Muhammad Nafees Danish

محمد نفیس دانش

یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے قوم کا مستقبل اور معمار قوم ہوتے ہیں، آج کے ننھے منے بچے کل کے ڈاکٹرز ،انجینئرز جنرلز اور صدرووزیراعظم ہوتے ہیں،
یہ بچے اس ارض چمن پاکستان کے وہ خوبصورت کلیاں ہوتی ہیں جنہیں ابھی کھلنا ہوتا ہے، ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، ان کے عزائم روشن ہوتے ہیں اور یہ قوم کے شاندار مستقبل کے امین ہوتے ہیں۔

علم،آگہی،رواداری بھائی چارگی اور پرامن زندگی کے سفیر ہوتے ہیں۔
یہ معصوم بچے نہ جانے کتنے سہانےخواب آنکھوں میں سجائے اور اپنے والدین کی امیدوں اور آرزوؤں کو لئے آرمی پبلک سکول پشاور میں اپنی منزل کی طرف گامزن تھے، لیکن جہالت، تعصب، وحشت، اور دہشت کے سودا گر تاک میں تھے۔ موقع ملتے ہی سقاوت اور سفاکی کا وہ مظاہرہ کیا کہ انسانی تاریخ شرمندہ ہوئی اور انسانیت دم توڑ گئی۔

(جاری ہے)


حالانکہ ان حسین پھولوں کو گھر میں اچھی تربیت جبکہ سکول میں اچھا ماحول ملتا ہےاور اچھی اچھی نصیحتیں کی جاتی ہیں اور یہی سمجھایا جاتا ہے کہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں، ایک دوسرے سے جھگڑا مت کریں، کسی کی دل شکنی نہ کریں، اتفاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور جب بچے آپس میں ناراض ہو بھی جائیں تو چند لمحوں میں سب کچھ بھلا کر دوبارہ گل مل جاتے ہیں۔


یہ بھی حقیقت ہے کہ بچے اپنے بڑوں سے اثر لیتے ہیں،گھر کا اچھا ماحول بچوں پر اچھے اور لڑائی جھگڑے والا ماحول برے اثرات مرتب کرتا ہے، جس گھر میں لڑائی جھگڑا ہو وہاں سے رزق اٹھ جاتا ہے۔ یہی حال پاکستان کے حکمرانوں کا ہے اتفاق تو دور کی بات ایک دوسرے کی صحیح بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے ۔
ہمارے بانی پاکستان محترم قائد اعظم نے بے شمار قربانیوں کے بعد اس وطن عزیز کو حاصل کیا، اس کی ایک طویل داستان ہے۔

بد قسمتی سے ہمیں آج تک کوئی بھی قائد اعظم جیسے لیڈر نہیں ملا،جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمارے حکمرانوں کی آپس کی چپقلش سے ملک نے ترقی نہیں کی۔
سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کو 2020 میں گزرے ہوئے مکمل چھے برس ہوجائیں گئے، یہ سانحہ پاکستانی تاریخ کا بدترین سانحہ ہے، قوم کا بچہ بچہ اس سانحہ سے واقف ہے۔
 کیا یہ سب کچھ کہی ہمارے" بڑوں "کی آپس کی نااتفاقی کا نتیجہ تو نہیں تھا.....؟
16دسمبر 2014ء سانحہ پشاور کو کوئی نہیں بول سکتا اور یہ پہلو بھی بولنے والا نہیں کہ پاکستان میں ماؤں نے سب سے زیادہ آنسو بہائے، معصوم اور بے گناہ بچوں کو بڑی بےدردی سے قتل کیا گیا اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر سوچ رونے پر مجبور تھی، سول سے فوج تک، دانشور سے عام شہریوں تک اپنی نئی نسل کی وحشت و بربریت کے انتہائی سفاک مظاہر کو دیکھنا پڑا، دہشت گردی کا جواب پاک فوج نے خوب دیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان درندوں اور حیوانوں کے دل نہ تھے؟ جو پسیج جاتے، جنہوں نے معصوم بچوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، آخر ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا، انہوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا...؟
پشاور کے سانحہ تک پہنچے کے لیے دہشت گردی، ظلم اور زیادتی کی کارروائیوں نے ایک طویل سفر طے کیا، جبکہ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ سب کچھ نااتفاقی سے ہوا ہمارے لیڈر اور رہنما ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے بچے ملکی و غیر ملکی حالات سے باخبر ہے الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ نے انہیں شعور اور آگاہی پیداکرنے کے لیے اہم کردار ادا کا ہے ۔


ہمارے حکمرانوں کو ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھار کرنے کی بجائے دوسرے کے ساتھ مل کرقومی صورتحال کو بہتر بنانے اور ملک و قوم کے مستقبل کو محفوظ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن ابھی تک وہ اس مقصد میں ناکام ہے دیکھا اور محسوس بھی کیا گیا ہے کہ وہ اقتدار کی ہوس میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تاریخ کا بدترین واقعہ سانحہ پشاور بھی اسی روز رونما ہوا تھا، جس روز متحدہ پاکستان دولخت ہوا ملک کا ایک بڑا حصہ ملک سے الگ ہوا تھا۔


بہرحال قوم کے بہادر بچوں نے زخمی ہوکر بھی دہشت گردوں کے سامنے جھکنے کی بجائے حالات کا مقابلہ کیا ہمت نہ ہاری اور آنے والی نئی نسلوں کو یہ پیغام دیں گے کہ
ارادے جن کے پختہ ہو نظر جن کی خدا پر
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
16دسمبر کے سانحہ سے قبل جب بچوں سے سوال کیا جاتا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے، تو زیادہ تر بچوں کا یہی جواب ہوتا تھا کہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بنیں گئے اور غریبوں کا مفت علاج کریں گے اسی طرح کوئی وکیل اور انجنئیر کا عزم ظاہر کرتا لیکن اس سانحہ کے بعد اب بچوں کا جوش و خروش اور جذبہ سے یہی جواب ہوتا ہے جو انشاءاللہ ضرور پورا ہوگا کہ وہ بڑے ہو کر اپنے بے گناہ بھائیوں کا انتقام لیں گے، اب ہر بچہ فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہے؛ تاکہ پیارے وطن پاکستان کو اس گند سے پاک کیا جائے، بے شک یہ کام پاک فوج بڑی ذمہ داری سے سرانجام دے رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کامیابی بھی حاصل کر رہی ہے لیکن اس وقت بچوں کا نیا عزم ،جوش اور جذبہ بھی قابل دید ہے، ان کے انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی اور نہ ہی انتقام لینے تک ٹھنڈی ہوگی۔


مستقبل میں ہمارے نونہالوں نے ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ماضی و حال کا نقشہ ان کے ذہنوں میں نقش ہے، وہ اپنے دشمنوں کوکیسی عبرتناک سزا دیتے ہیں یہ انشاءاللہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :