وطن عزیز میں نشہ کی لعنت

منگل 8 دسمبر 2020

Muhammad Riaz

محمد ریاض

منشیات کا ماخذ نشہ سے ہے، نشہ اک کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان اپنے نفس کوبظاہر تسکین پہنچا رہا ہوتا ہے،مگر درحقیقت وہ اپنے نفس کو مفلوج کررہا ہوتا ہے۔نشہ کی لت جب کسی انسان کو پڑجائے تو وہ اسکی گہرائیوں میں ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے ڈوبتا ہی چلا جاتا ہے۔اور ان گہرائیوں کی تباہ کاریوں سے انسان کو  اللہ ہی بچائے تو بچائے ورنہ انسانی نفس جو کہ پہلے ہی نشہ کی وجہ سے مفلوج تر ہوچکا ہوتا ہے اسکے لئے اس دلدل سے باہر نکلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔

نشہ کو حاصل کرنے کے لئے جن اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے انہیں منشیات کہا جاتا ہے۔
نشہ کی تاریخ بھی انسانی تاریخ جتنی پرانی ہے،  ہر زمانہ میں نشہ نے اپنی کیفیات کو بدلا ہے، انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان نے نشہ حاصل کرنے کے لئے منشیات کی نت نئی قسموں کو ایجاد کیا، انسان نے کبھی تو نشہ حاصل کرنے کے لئے جڑی بوٹیوں کا سہارا لیا، تو کبھی حلال اشیاء جیسا کہ انگور، کھجور، سنگترہ، مالٹا،دیسی گڑوغیرہ وغیرہ کو مختلف طریقوں سے جوش دلا کر شراب بنانے کی تگ و دو کی جس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہا، اسکے ساتھ ساتھ انسان نے مختلف بیماریوں میں استعمال ہونے والی ادویات یاادویات بنانے کے لئے مختلف کیمکلز کو بھی اپنے نشہ کی آگ بجھانے کے استعمال کرنا شروع کردیا۔

(جاری ہے)


دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو، تہذیب ہواس میں نشہ، منشیات کا استعمال ہمیشہ ہی سے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو منشیات کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔ہمار ا مذہب اسلام بھی اک مسلمان کو کسی بھی قسم کی نشہ آور اشیاء کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں جو درس ملتا ہے وہ یہی ہے کہ اک مسلمان ہر قسم کی نشہ آور اشیاء سے نفرت کا اظہار کرے اور انکا استعمال بالکل بھی نہ کرے چاہے وہ چھوٹی سی مقدارہی کیوں نہ ہو۔

اللہ کے پیارے رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم کی پیاری حدیث مبارکہ میں ارشاد پاک ہے کہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے اور جس کی زیادہ مقدار نشہ لانے والی ہو اس کا تھوڑا بھی حرام ہے۔(بحوالہ حدیث نمبر 3392  سنن ابی ماجہ)
پوری دنیا میں منشیات کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں،  جن میں مشہور زمانہ  شراب، ہیروئین، چرس، افیون، سگریٹ، حشیش، کوکین  وغیرہ وغیرہ۔

کچھ منشیات بظاہر تومنشیات نہیں ہوتیں بلکہ وہ ادویات ہوتی ہیں مگر انکا حد سے زیادہ استعمال منشیات کی صورت اختیار کرجاتا ہے  جیسا کہ زخموں کی صفائی کے لئے استعمال ہونے والا  اسپرٹ،  نفسیاتی امراض اور ذہنی سکون کے لئے بنا ئی گئی ادویات (گولی اور ٹیکہ) کا حد سے زیادہ استعمال منشیات کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ نزلہ زکام، کھانسی کے لئے بنائی گئی ادویات (گولی، شربت، برشاشہ وغیرہ وغیرہ) کا حد سے زیادہ استعمال منشیات کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔

اور آجکل ان تمام ادویات کا استعمال انتہائی خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ کچھ لوگ مختلف اشیاء کو جوڑنے کے لئے استعمال ہونے والی سمد بونڈ کو بھی نشہ حاصل کرنے کے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں نشہ اک وباء کی شکل میں تب نمودار ہوا جب 70  اور 80  کی دہائی میں افغان روس جنگ ہوئی، اس جنگ نے جہاں پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو غیرمحفوظ بنایا  وہاں پر پاکستان میں دہشت گردی، کلاشنکوف کلچر، اور ہیروئن کلچر کو وہ عروج بخشا کہ جس کی تاب نہ لاتے ہوئے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں نوجوانان پاکستان نے اپنی زندگیوں کو  نشہ کی لعنت میں برباد کردیا، جن میں زیادہ تر تعداد میں لوگ زمین کے نیچے قبر میں اتر گئے اور بہت سے ابھی تک اسی سفر کے مسافر بنے ہوئے ہیں۔

ہیروئن کلچر نے پاکستان کے سماجی، خاندانی کلچر کا جنازہ نکال دیا۔ خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد ہوگئے۔
پاکستان کے کسی بھی شہر، ٹاؤن میں چلے جائیں آپ کو جگہ جگہ پر لوگ مختلف قسم کی نشہ آور ادویات استعمال کرتے ہوئے نظر آئیں گے، جن میں برشاشہ،  نشہ آور انجیکشن، نشہ آور سیرپ۔ اسکے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد گھٹکا، نشہ آور پان، چرس کے بھڑے ہوئے سیگرٹ، افیون اور ہیروئن کااستعمال کرتی ہوئی بھی نظرآئے گی۔

دور حاضر میں پاکستان میں منشیات کی نت نئی اقسام متعارف ہوچکی ہیں، جن میں شیشہ کا استعمال بظاہر تو فیشن کے طور پر کیا جارہا ہے، درحقیقت یہ بھی منشیات کا اک بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔اور کسی جگہ پر دیسی طریقہ سے کشید کی جانے والے شراب پینے والے بھی باکثرت دیکھنے کو ملیں گے۔
نشہ کرنے والا نوجوان گھریلو، سماجی، معاشی، اخلاقی  اور معاشرتی رویوں سے کوسوں دورجا چکا ہوتا ہے، سب سے پہلے وہ اپنے گھر سے کنارہ کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے ہم نوالہ اور ہم پیالہ دوستوں کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد اور غم خوار سمجھتا ہے، اپنی تعلیمی یا معاشی سرگرمیوں کو محدود کردیتا ہے یا پھر ان سرگرمیوں میں دلچسپی کم کردیتا ہے، جب معاشی طور پر کمزور ہوتا ہے تو منشیات حاصل کرنے کے لئے اپنے ذریعہ معاش سے رقم کو خرچ کرتا ہے پھرجب معاشی طور پر کمزور ہوتا ہے تو گھر، دفتر، کاروبار سے چوری کرکے اپنی نشہ کی دوزخ کا پیٹ بھرنے کی کوششیں شروع کردیتا ہے، پھر جب گھر والے، دفتر والے اور کاروباری دوست احباب اس سے کنارہ کشی کرتے ہیں تو تو نشہ کر پورا کرنے کے لئے دوسروں کے مال پر نظر رکھتے ہوئے چوری، راہزنی کرتا ہے۔

پھر اک وقت آتا ہے کہ وہ اپنے گھر، دفتر، یار دوست، رشتہ داروں سے بالکل کٹ چکا ہوتا ہے، ہر بندہ اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اسکو اپنے سے دور سے دور کردیتا ہے۔ تاکہ اسکے برے اثرات انکے اپنے بال بچوں، یار دوستوں، محلہ داروں اور سوسائٹی پر نہ پڑیں۔ پھر یہی نوجوان ان تاریک راہوں پر چلتا ہوں سماج دشمن قوتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنتا چلا جاتا ہے۔

اور بالآخر اللہ کریم کی دی ہوئی زندگی جیسی سب سے بڑی نعمت کا خاتمہ کرکے منوں وزنی مٹی میں چلا جاتا ہے۔
حکومت پاکستان کو  روائیتی منشیات جیسا کہ ہیروئین، چرس، افیون وغیرہ کے انسداد کے ساتھ ساتھ غیرروائیتی منشیات جیسا کہ نشہ آور انجیکشن اور نشہ آور سیرپ کے انسداد کے لئے ملک میں مروجہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا چاہئے تاکہ ملک و ملت کا سرمایہ نوجوان وطن نشہ کی دوزخ سے نکل کر بہترین اور کارآمد شہری بن سکیں۔


علماء کرام کو بھی چاہئے کہ وہ ہفتہ میں اک دن خصوصا جمعہ کے خطبہ میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نشہ کے انسداد کے لئے اپنا بھرپور حصہ ڈالیں۔ سول سوسائٹی، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا او ر سوشل میڈیا پر بھی انسداد منشیات کے لئے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔وزارت تعلیم کو بچوں کی نصابی کتب میں نشہ جیسی لعنت کے حوالہ سے خصوصی مضامین شامل کرنے چاہئے تاکہ پرائمری جماعت کے زمانہ طالب علمی سے ہی قوم کے مستقبل کے معمار پاکستانیوں کو نشہ کے مضمرات سے آگاہی ملنی شروع ہوجائے۔


پاکستان میں نشہ کرنے والے کو عام زبان میں نشئی، چرسی، کوکینی یا جہاز وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے، بظاہر تو یہ قابل نفرت لوگ ہیں لیکن حقیقت میں یہ قابل رحم اور قابل توجہ لوگ ہیں، جن کونشہ کی دلدل سے نکالنے کے لئے پوری سوسائٹی کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔  
اللہ کریم ہماری نوجوان نسل کو  نشہ جیسی لعنت سے محفوظ رکھے،تاکہ یہی نوجوان نسل آنے والے دنوں میں پاکستان کی ترقی کے لئے اپنا بھرپور حصہ ڈال سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :