سودی نظام، اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے

جمعرات 11 مارچ 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

اللہ کی حرام کی چیزوں اور معاملات میں ”سود“  ناصرف حرام ہے بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔مگر افسوس آج پوری دنیا بشمول اسلامی جمہوریہ پاکستان اس سودی نظام کے پنجوں میں ناصرف جکڑا ہوا ہے بلکہ اس نظام نے پاکستان میں بسنے والے اس مسلمان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، جسکی وجہ سے عوام الناسن نہ چاہتے ہوئے بھی اس کبیرہ گناہ کی زد میں آ رہی ہے۔

کیونکہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قریبا تمام بینکنگ کا نظام سود کے اردگرد ہی گھوم رہا ہے،کہیں پر Profit & Loss Sharing  کیساتھ عوام الناس کو مطمعن کرنے کی ناکام کوشش کی جارہے ہے تو کہیں پر اسلامی بینکاری کا جھانسہ دے کر موٹر گاریوں کو لیز پر دیا جارہا ہے۔کہیں پر گھر بنانے کے لئے سود پر قرضے دیئے اور لئے جارہے ہیں، کہیں پر قومی بچت پروگراموں کے نام پر سود لیا اور دیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

کہیں پر ماہانہ اور سالانہ منافع کے نام پر سودی لین دین ہورہا ہے۔مطلب یہ کہ ہم نے سود ی کاروبار سے جان چھڑانے کی بجائے نت نئے پروگرام، بہانے اور حجتیں  تراش لیں ہیں۔حد تو یہ ہے کہ بینکوں کے پاس بہت سے مفتی کرام حضرات کے فتواوے بھی عوام الناس کو مطمعن کرنے کے لئے دستیاب ہوتے ہیں۔ آیئے سود کی حرمت، اسکی تباہ کاریوں اور روز آخرت میں سودی لین دین کرنے والوں کے بارے میں وعیدوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

قرآن مجید و فرقان حمید میں سود کے متعلق اللہ کریم کی واضح ترین ہدایات جن کا تذکرہ سورہ البقرہ میں درج ہے، اردو ترجمہ:
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے)  ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے (کاروبار)  کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔

تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا۔ اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے  (آیت نمبر275)۔اللہ سود کو نابود (یعنی بے برکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا (آیت نمبر 276)۔

جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوا اور نہ وہ غمناک ہوں گے  (آیت نمبر277). مومنو ں!اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو  (آیت نمبر278)۔پھراگر ایسا نہ کرو گے توتم اللہ اور اسکے رسول  ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ سن لو اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور تمہارا نقصان  (آیت نمبر279)۔

اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو توتمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو (آیت نمبر 280)۔اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم اللہ کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا (آیت نمبر281)۔
درج ذیل منتخب احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی کریم  ﷺ سود کی حرمت کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں۔


ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے، کہا کہ ہم سے ابورجاء بصریٰ نے بیان کیا، ان سے سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، رات (خواب میں) میں نے دو آدمی دیکھے، وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس میں لے گئے، پھر ہم سب وہاں سے چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر آئے، وہاں (نہر کے کنارے) ایک شخص کھڑا ہوا تھا، اور نہر کے بیچ میں بھی ایک شخص کھڑا تھا۔

(نہر کے کنارے پر) کھڑے ہونے والے کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ بیچ نہر والا آدمی آتا اور جونہی وہ چاہتا کہ باہر نکل جائے فوراً ہی باہر والا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ کر مارتا جو اسے وہیں لوٹا دیتا تھا جہاں وہ پہلے تھا۔ اسی طرح جب بھی وہ نکلنا چاہتا کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا اور وہ جہاں تھا وہیں پھر لوٹ جاتا۔

میں نے (اپنے ساتھیوں سے جو فرشتے تھے) پوچھا کہ یہ کیا ہے، تو انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ نہر میں تم نے جس شخص کو دیکھا وہ سود کھانے والا انسان ہے۔(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2005)
ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ عمرو بن دینار ان سے بیان کرتے تھے، اور ان سے زہری نے، ان سے مالک بن اوس نے، کہ انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں میں سے کوئی بیع صرف (یعنی دینار، درہم، اشرفی وغیرہ بدلنے کا کام) کرتا ہے۔

طلحہ نے کہا کہ میں کرتا ہوں، لیکن اس وقت کرسکوں گا جب کہ ہمارا خزانچی غابہ سے آجائے گا۔ سفیان نے بیان کیا کہ زہری سے ہم نے اسی طرح حدیث یاد کی تھی۔ اس میں کوئی زیادتی نہیں تھی۔ پھر انہوں نے کہا کہ مجھے مالک بن اوس نے خبر دی کہ انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، سونا سونے کے بدلے میں (خریدنا) سود میں داخل ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو۔

گیہوں، گیہوں کے بدلے میں (خریدنا بیچنا) سود میں داخل ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو، کھجور، کھجور کے بدلے میں سود ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو اور جَو، جَو کے بدلے میں سود ہے مگر یہ کہ نقدا نقد ہو۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2052)
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہ میں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور (کھجور کی ایک عمدہ قسم) لے کر آئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کے دو صاع اس کے ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (خراب) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خریدا کر۔

(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2215)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:”سات تباہ کن گناہوں سے بچو۔“ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون سے ہیں؟ فرمایا:”اللہ کے ساتھ شرک، جادو، جس جان کا قتل اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، لڑائی کے دن دشمن کو پشت دکھانا (بھاگ جانا) اور پاک دامن، بیخبر مومن عورتوں پر الزام تراشی کرنا۔

“(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 263)
 اسماعیل بن مسلم عبدی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابومتوکل ناجی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ”سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی، گندم کے عوض گندم، جو کے عوض جو، کھجور کے عوض کھجور اور نمک کے عوض نمک (کی بیع) مثل بمثل (ایک جیسی) ہاتھوں ہاتھ ہو۔

جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا لین دین کیا، اس میں لینے والا اور دینے والا برابر ہیں۔“(صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1571)
ابن ابی نعیم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ”سونے کے عوض سونے کی بیع ہم وزن اور مثل بمثل (ایک جیسی) ہے اور چاندی کے عوض چاندی ہم وزن اور مثل بمثل ہے۔

جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو وہ سود ہے۔“(صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 1575)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔

(مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 238)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، سودخور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی عورتوں پر۔(مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 601)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے سود خور، سود کھلانے والا، سودی معاملات لکھنے والا، سودی معاملات کے گواہ، حلالہ کرنے والا، حلالہ کروانے والا، زکوٰۃ روکنے والا، جسم گودنے والی اور جسم گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوحہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔

(مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 1294)
ابوہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”معراج کی رات میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے، ان میں باہر سے سانپ دکھائی دیتے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں“۔(سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 431)
ابوہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سود ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے, وضاحت:  ستر کی تعداد سے مراد گناہ کی زیادتی اور اس فعل کی شناعت و قباحت کا اظہار ہے۔

(سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 432)
عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سود کے تہتر دروازے ہیں“۔(سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 433)
عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھی سود سے مال بڑھایا، اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال گھٹ جاتا ہے ”(سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 437) وضاحت: سودی کاروبار کرنے والا اپنا مال بڑھانے کے لئے زیادہ سود لیتا ہے، لیکن غیب سے ایسی آفتیں اترتی ہیں کہ مال میں برکت نہیں رہتی، سب تباہ و برباد ہوجاتا ہے، اور آدمی مفلس بن جاتا ہے۔

اس امر کا تجربہ ہوچکا ہے، مسلمان کو کبھی سودی کاروبار سے ترقی نہیں ہوتی، البتہ کفار و مشرکین کا مال سود سے بڑھتا ہے، وہ کافر ہیں ان کو سود کی حرمت سے کیا غرض، ان کو تو پہلے ایمان لانے کا حکم ہے۔ اور چونکہ ان کی آخرت تباہ کن ہے، اس لیے دنیا میں ان کو ڈھیل دے دی گئی ہے۔
درج بالا سطور میں سود یعنی ربا کے بارے میں احکام الہی اور احادیث نبوی  ﷺ کا تذکرہ کیا گیا ہے اب کوشش کرتے ہیں کہ سودی نظام کے ذریعہ سے پوری دنیا میں چھائے ہوئے غیر مسلم ممالک جن میں اکثریت مذہب عیسائیت کے ماننے والوں کی ہے انکی کتابوں اور انکے مذہبی پیشواؤں کے سود کے متعلق بیانات کو قلم بند کیا جائے:
ربا یعنی سود کے ذیل میں پروٹسٹنٹ نصاری کی ایزی ٹو ریڈ ورژن بائبل کے چند حوالہ جات:
خروج  22:23-27
23  اگر تم لوگ ان بیواؤں یا یتیم بچوں کا کچھ بھی بُرا کرو گے تو وہ میرے سامنے رو ئیں گے اور میں اُن کی مصیبتوں کو سنوں گا۔


24  اور مجھے بہت غصہ آئے گا۔ میں تمہیں تلوار سے مار ڈا لوں گا۔ تب تمہا ری بیویاں بیوہ ہو جا ئیں گی اور تمہا رے بچے یتیم ہو جا ئیں گے۔
25  اگر میرے لوگوں میں سے کو ئی غریب ہو اور تم اُسے قرض دو تو اُس رقم کے لئے تمہیں سود نہیں لینا چاہئے
26  اگر تم کسی شخص کا جبّہ قرض پر گروی رکھتے ہو تو اسے اس کا جبّہ سورج ڈوبنے سے پہلے وا پس کر دو۔


27 کیو نکہ اگر وہ آدمی اپنا جبّہ نہیں پا ئے تو اُس کے پاس تن ڈھانکنے کو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ جب وہ سوئے گا تو اُسے سردی لگے گی۔ اگر وہ مجھے رو رو کر پکا ریگا تو میں اُس کی سنوں گا۔ میں اُس کی فریا د سنوں گا کیوں کہ میں رحم دل ہوں۔
احبار:2535-38
35  ممکن ہے تمہارے ملک کا کو ئی شخص اتنا زیادہ غریب ہو جا ئے کہ اپنے آپ کی مدد نہ کر سکے تو تم اس کی مدد کرنا اور وہ تیرے ساتھ غیر ملکی یا عارضی با شندے کی طرح رہیگا۔


36کسی شخص کے اس قرض پر جو کہ وہ تم سے لیا ہے کسی بھی طرح کا سود مت لو۔ یہ دکھانا کہ تم اپنے خدا کا خوف کر تے ہو۔ اور اپنے بھا ئی کو اپنے ساتھ جینے دو۔
اسی طرح عیسائیت مذہب کے مذہبی پیشواؤں کے نزدیک بھی سود کو بہت ہی بڑا گناہ تصور کیا جاتا رہاہے۔ سود کے متعلق چند مشہور  Christian Saints کے درج ذیل قول ملاحظہ فرمائیں۔
جو بھی واجب الادا رقم سے زیادہ ہے وہ سود ہے۔

“ - سینٹ ایمبروز آف میلان
‘کیا یہ تعزیر تھا، ڈکیتی تھی یا چوری؟ کس سے؟ اور یہ کھلم کھلا تھا یا خفیہ؟ کیا یہ سود تھا؟ کس طرح سے؟ ''پرنسپل سے زیادہ اور زیادہ واپسی کرنے کے لئے سود کہلاتا ہے۔''۔ پڈوا کے سینٹ انتھونی
اگر آپ نے سود پر انسان کو قرض دیا ہے، یعنی اگر آپ نے اپنے پیسے کا قرض کسی کو دے دیا ہے، جس سے آپ توقع کرتے ہیں کہ آپ نے جو کچھ دیا ہے اس سے زیادہ رقم وصول کریں گے، صرف رقم میں نہیں، بلکہ کچھ بھی، چاہے وہ یہ گندم، شراب، یا تیل، یا آپ جو کچھ بھی خوش کریں، اگر آپ اپنے دیئے ہوئے سے زیادہ وصول کرنے کی توقع کرتے ہیں تو، آپ سود خور ہیں، اور اس خاص طور پر تعریف کے مستحق نہیں، بلکہ سنسر ہیں۔

'- سینٹ۔ اگسٹین
‘میں آپ سے پہلے بھی پوچھتا ہوں، کیا آپ خدا کی شریعت پر یقین رکھتے ہیں؟ جی ہاں. آگے میں آپ سے کہتا ہوں، کہ اگر آپ اس عقیدے سے روگردانی کرتے ہیں تو آپ عالم دین ہیں۔ خدا نے حکم دیا ہے کہ آپ سود پر عمل نہ کریں۔“ - سینٹ کا سینٹ برنارڈائن‘
‘سود پر قرض نہیں دینا۔ آپ کلام پاک پر الزام لگاتے ہیں جس میں کہا گیا ہے، جس نے سود پر اپنا پیسہ نہیں دیا ہے۔

میں نے یہ نہیں لکھا: یہ میرے منہ سے پہلے نہیں نکلا: سنو خدا۔“ - سینٹ آگسٹین
‘سود پر قرض دینا، آپ کے خیال میں یہ کیا ہے؟ یہ چوری ہے، اور اس کے علاوہ بھی بدتر ہے۔ ’- سینٹ کا سینٹ برنارڈائن
سود پر قرضے دینا ایک فانی گناہ ہے۔ اور یہ کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ اس کی ممانعت ہے، بلکہ ممنوع ہے کیونکہ یہ ایسا ہی گناہ ہے۔ ’- سینٹ تھامس ایکناس
‘سودی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

’- سینٹ ایڈورڈ دی کنفیوسر، انگلینڈ کا بادشاہ
‘کچھ کا خیال ہے کہ سود نہیں بلکہ رقم میں ہے۔ یہ مقدس صحیفوں کا پیش نظارہ ہے، اور اس وجہ سے کسی بھی طرح سے اضافے یا فوقیت کو دور کرتا ہے، اور مطالبہ کرتا ہے کہ جو کچھ آپ نے دیا اس سے زیادہ وصول نہ کریں۔“ - سینٹ جیروم
بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح جنکو مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے بعد اس دینا فانی میں زیادہ دیر تک رہنے کا موقع میسر نہ آسکا وہ محمد علی جناح کہ جنہوں میں اپنی جوانی یورپ میں گزاری اور وہیں سے قانون کی اعلی تعلیم حاصل کی، ان کے نزدیک پوری دنیا میں چھائے ہوئے سودی نظام کی تباہ کاریاں کیسی ہیں،کاش قائداعظم محمد علی جناح کو آزادی کے بعد کچھ زیادہ عرصہ زندہ رہنے کا موقع مل جاتا تو پاکستان کے بہت سے آئینی، قانونی اور معاشی مسائل بہت شروع ہی میں حل ہوچکے ہوتے۔

آئیے انکے اس بیان سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
یکم جولائی 1948 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے موقع پرقائد اعظم محمد علی جناح کی تقریرکا حصہ:
''میں معاشی اور معاشی زندگی کے اسلامی نظریات کے ساتھ مطابقت پذیر بینکاری طریقوں کو تیار کرنے میں آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن کے کام کو شدت سے دیکھوں گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے ناقابل حل مسائل پیدا کردیئے ہیں اور ہم میں سے بہت سوں کے لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک معجزہ ہی اس تباہی سے بچاسکتا ہے جو دنیا کو درپیش نہیں ہے۔

یہ انسان اور انسان کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان سے رگڑ کو مٹانے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے برعکس، یہ گذشتہ نصف صدی میں دو عالمی جنگوں کے لئے بڑی حد تک ذمہ دار تھی۔ مغربی دنیا، اس کے فوائد کے باوجود، mechanization اور صنعتی کارکردگی کے باوجود، آج کی تاریخ کے مقابلے میں بدترین گڑبڑ میں ہے۔ مغربی معاشی نظریہ اور عمل کو اپنانا ہمیں خوشحال اور متنازع افراد پیدا کرنے کے اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔

ہمیں اپنی تقدیر کو اپنے طور پر کام کرنا چاہئے اور مردانگی کی مساوات اور معاشرتی انصاف کے حقیقی اسلامی تصور پر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ اس طرح ہم بحیثیت مسلمان اپنے مشن کو پورا کریں گے اور انسانیت کو امن کا پیغام دیں گے جو اکیلا ہی اسے بچا سکتا ہے اور بنی نوع انسان کی فلاح، خوشحالی اور خوشحالی کو محفوظ بناسکتا ہے۔


اللہ کریم مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جلد از جلد اس لعنتی سودی نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین
بشرط زندگی  اگلی تحریر میں ”سودی نظام کے خاتمہ کے لئے پاکستان میں کی جانے والی کوششوں“ کا تذکرہ کرنے کی کوشش کی جائے گی، ان شاء اللہ عزیز
اللہ کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آپ  ﷺ پر اور آپکی آل پاک رضوان اللہ علیھم اجمعین پر اور آپ  ﷺ کے اصحاب پاک  رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پر۔

آمین ثم آمین
نوٹ: اس تحریر میں کسی بھی قسم کی غلطی بشمول قرآنی آیت، حدیث مبارکہ کے ترجمہ،معنی،املاء، لفظی یا پرنٹنگ کی غلطی پر اللہ کریم کے ہاں معافی کا طلبگار ہوں، اور اگر کسی مسلمان بھائی کو اس تحریر میں کسی بھی قسم کا اعتراض یا غلطی نظر آئے تو براہ کرم معاف کرتے ہوئے اصلاح کی خاطر نشان دہی ضرور فرمادیجئے گا۔ واللہ تعالی اعلم

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :