نئی وکلاء تحریک کے لئے صف بندی

پیر 30 اگست 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

صدر مشرف اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کے درمیان کچھ معاملات پرپائے جانے والے اختلافات حکومت وقت  اور پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کا پیشہ خیمہ ثابت ہوئے۔ محاذ آرائی کا نہ رکنے والا یہ سلسہ پاکستان بھر میں وکلاء تحریک کا باعث بنا۔ 3نومبر 2007 کے دن اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل مشرف کی جانب سے نافذ کی گئی ایمرجنسی جس کو بہت سے آئینی ماہرین جنرل مشرف کا مارشل لاء ٹو قرار دیتے ہیں؛ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعدپی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرنے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 60 سے زائد ججز کو گھروں میں نظربند کر دیا گیا اور ہر طرح کے اجتماعات، جلسے اور جلوسوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔

اس غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کے خلاف وکلاء، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی نے احتجاج شروع کردیا۔

(جاری ہے)

پرویز مشرف نے الیکٹرانک میڈیا پر بھی متعدد پابندیاں عائد کردیں اور کئی ٹی وی چینلز کئی روز تک بند رہے۔ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ اور ججوں کی معزولی ایسے موقع پر کی گئی تھی جب سپریم کورٹ اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کے دوبارہ صدر کے انتخاب کی قانونی حیثیت کے بارے میں فیصلہ دینے والی تھی۔

تاہم وکلاء، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی تحریک کامیاب ہوئی، چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز بحال ہوئے۔31 جولائی 2009 کو سپریم کورٹ نے 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو پرویز مشرف کا غیر آئینی اقدام قرار دے دیا اور پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز کو بھی گھر بھیج دیا گیا۔نواز شریف دور حکومت میں پرویز مشرف کے خلاف 3 نومبر 2007 کو آئین توڑنے کے الزام میں آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ فروری 2014 میں شروع کیا گیا، مشرف سنگین غداری مقدمہ کا فیصلہ اور پھر آنکھ جھپکتے ہی مقدمہ سننے والی عدالت کو کالعدم قرار دیا جانا، یہ ماضی قریب ہی کی بات ہے۔

اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ مشرف کے اقتدارکے سورج کو غروب ہونے میں جہاں بہت سے عوامل شامل حال تھے وہیں پروکلاء تحریک نے مشرف کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا کردار ادا کیا۔ ججز بحالی میں وکلاء تحریک کا کردار پاکستانی آزاد عدلیہ اور سیاسی تاریخ کے سنہرے الفاظ میں قلمبند ہوچکا ہے۔یہ  وکلاء تحریک ہی تھی جس نے پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں، سماجی تنظیموں اور ہر مکتبہ فکر کو اس وقت کے طاقتور ترین صدر کے خلاف اکٹھا ہونے پر مجبور کردیااور بالآخر اس وقت کے طاقتورترین صدر مشرف کو مسند اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کردیا۔

موجودہ حالات میں بہت سے آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ اعلی ترین عدلیہ میں واضح تقسیم نظر آرہی ہے۔پچھلے ہفتے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے تحت آل پاکستان لائرز کنونشن نے 9 ستمبر کو سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے اور ملک گیر عدالتی بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ دھرنا جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے موقع پر دیا جائے گا۔

کنونشن میں پاکستان بھر سے وکلا رہنماؤں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن کے موجودہ اور سابق صدور شریک ہوئے۔ممبر پاکستان بار کونسل قلب حسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا آج کے اجلاس کی صرف ایک بات ہے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری۔ممبر بار کونسل امجد شاہ نے کہا ملک بھر میں سینیارٹی کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک جج کو حلف کیلئے بلایا گیا اور کرسی خالی ملی۔

اب سپریم کورٹ کی عزت بچانے کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کو عہدہ سے ہٹ جانا چاہئے۔ ممبر جوڈیشل کمیشن اختر حسین نے کہا کہ اس ملک میں جمہوری ادارہ ہے تو صرف وکلاء کا ہے۔ تمام بار کونسلز ایک نقطہ پر متفق ہیں کہ سینیارٹی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہر ڈکٹیٹر کو زندگی دی۔ دنیا ترقی اور اچھائی کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم خرابیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ہمارے سپریم کورٹ میں گروہ بندی ہے۔ (جس کی واضح مثالیں صحافی برادری کے لئے گئے سوموٹو ایکشن پر دو مختلف عدالتی بنیچوں کی کاروائیاں ہیں اور جونیئر ججوں کی سپریم کورٹ تعیناتی کے معاملات ہیں)۔انکے علاوہ اور بھی بہت سے سنیئر ترین وکلاء نے بہت ہی زیادہ سخت، تلخ اور کڑوی باتیں کہیں۔جب سے عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف مسند اقتدار پر براجمان ہوئی ہے، دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت وقت نے پاکستان کی اعلی ترین عدلیہ کے سینئر ترین ججز کے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں۔

اور ان محاذوں میں حکومت وقت کو خاطر خواہ شکست اور شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یاد رہے موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان صاحب مشرف کے خلاف چلنے والی ججز بحالی کے لئے وکلاء تحریک میں اس وقت کی سیاسی قیادت میں صف اول کے لیڈروں میں تھے۔ پاکستانیوں کی اکثریت نہ صرف حیران ہے بلکہ پریشان بھی ہے کہ کیا یہ وہی عمران خان صاحب ہیں جو ججز بحالی تحریک میں صف اول کے لیڈر تھے مگرانکی اپنی حکومت میں آئے روزاعلی ترین عدلیہ کے ججز کے خلاف نئے نئے محاذ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

یکے بعد دیگرججزکے خلاف ریفرنس دائر کئے گئے۔عمران خان کا شمار پاکستان کے ان چند خوش قسمت ترین حکمرانوں میں کیا جاسکتا ہے کہ جن کو کرونا زدہ اپوزیشن ملی ہے۔ حالانکہ پی ٹی آئی حکومت پارلیمنٹ میں چند سیٹوں کی برتری کی حامل حکومت ہے۔عمران خان  (سوائے صوبہ سندھ)  پورے پاکستان کے بالاشرکت غیر حکمران بن چکے ہیں۔گذشتہ تین سالوں میں کرونا زدہ اپوزیشن عمران خان حکومت کا بال بھی بھی بیکا نہ کرسکی اور شائد آنے والے مزید دوسالوں میں بھی کچھ نہ کرپائے گی۔

حکومتی ترجمانوں کے مطابق پاکستان کے تمام ریاستی ادارے اس وقت حکومت وقت کیساتھ کھڑے ہیں۔ایسی سہولیات شائد ہی پاکستان کے کسی سابقہ حکمران کے حصہ میں ہونگی۔ حکومت وقت کو جنرل مشرف کی حکومت سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔جنرل مشرف جن کا شمار پاکستان کے طاقتور ترین صدر کے طور پرکیا جاسکتا ہے اور جنکی حکومت ختم ہونے کے دُور دُور تک بھی کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے مگر عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے نتیجہ میں نہ صرف جنرل مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا بلکہ اپنے خلاف سنگین غداری کے مقدمہ (جسکی سزا موت ہے) سے بچنے کے لئے بیرون ملک خود ساختہ جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑی۔

بہرحال حکومت وقت کے لئے یہ انتہائی مفید مشورہ ہے کہ وہ عدلیہ کے معاملات میں اپنے آپکو بالکل علیحدہ کرلے اور کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کا حصہ نہ بنے۔ورنہ بہت سے دور اندیش لوگوں کو یہ خدشات لاحق ہورہے ہیں، کہیں موجودہ حالات اک نئی وکلاء تحریک کا پیشہ خیمہ ثابت نہ ہوجائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :