جبری تبدیلی مذہب مجوزہ بل پر اعتراضات

ہفتہ 25 ستمبر 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

جمعرات 23 ستمبر کی سہ پہر وزارت مذہبی امور کی جانب سے بیان جاری ہوا جس کے مطابق  پیر نور الحق قادری، وفاقی وزیر مذہبی امورو بین المذاہب ہم آہنگی نے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کا مجوزہ بل وزارت انسانی حقوق کو اعتراضات کے ساتھ واپس بھیج دیا۔  وزارتِ انسانی حقوق کے مجوزہ بل میں موجود 18 سال عمر کی شرط، جج کے سامنے پیشی اور 90 دن انتظار کو غیر شرعی، غیر قانونی اور بنیادی آئینی حقوق کے منافی قرار دیا گیا ہے۔

پیرنورالحق قادری نے مزید کہا ہے کہ مجوزہ بل پر وزارتِ مذہبی امور میں علماء کرام کے ساتھ متعدد مشاورتی اجلاسوں کی صدارت اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے بعد مجوزہ بل متعدد اعتراضات کے ساتھ وزارت انسانی حقوق کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

مجوزہ قانون اپنی موجودہ کیفیت میں شریعت اسلامی اور بنیادی انسانی و آئینی حقوق سے متصادم ہے۔

اس بل کو اسلام قبول کرنے کی ممانعت کیلئے استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔ مجوزہ بل مسلم اور غیر مسلم کمیونٹی میں منافرت کا باعث بنے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں اور اس کی روک تھام بہر حال ضروری ہے۔ پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات بہت کم ہیں لیکن بدنامی کا باعث ہیں۔ وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کی زیر صدارت جائزہ کمیٹی میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، علامہ عارف واحدی سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، صاحبزادہ پیرحسان حسیب الرحمان، ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، مفتی گلزار نعیمی،رکن قومی اقلیتی کمیشن سمیت وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کے شعبہ تحقیق و حوالہ جات کے افسران شامل تھے۔

یاد رہے وزرات انسانی حقوق کی جانب سے جبری تبدیلی مذہب کے نام سے اک بل متعارف کروایا گیا جس کے مطابق پاکستان کے کسی شہری خصوصا غیر مسلم فرد کو مذہب اسلام اختیار کرنے لئے کم از کم 18 سال کا ہونا ضروری ہے۔اور مذہب اختیار کرنے کے لئے جج کے سامنے پیش ہونا ہوگا اور 90 دن تک انتظار کرنا ہوگا اور اسکے بعد پھر جج کے سامنے پیش ہوکردوبارہ یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ وہ واقعی اپنی مرضی سے دوسرا مذہب قبول کررہا ہے۔

یہ مجوزہ بل میڈیا پرمنظر عام آنے کی دیر تھی پورے ملک میں اک ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر طوفان بھرپا ہوگیا۔سماجی، مذہبی حلقوں میں اس مجوزہ بل کے خلاف بہت کچھ پڑھنے دیکھنے سننے کو ملا۔ پاکستان کے تمام مکاتب فکر خصوصا مذہبی حلقوں کی جانب سے اس مجوزہ بل کے خلاف شدید ترین ردعمل دیکھنے کو ملا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان جسکے آئین کے آرٹیکل نمبر 2 میں واضح طور پر درج ہے کہ   ”اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا“، مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ وقتافوقتا انجانے یا نہ انجانے میں بار بار پاکستان کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور عقائد کے برخلاف الٹے سیدھے قوانین لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

رہی بات جبری تبدیلی مذہب کی تو آئین پاکستان میں درج ذیل آرٹیکلز بہت واضح ہیں۔ جن میں بلاامتیاز اور بلا تفریق پاکستان میں بسنے والے تمام افراد کو مذہبی آزادی حاصل ہے، چاہے وہ مسلم ہو یا پھر غیر مسلم۔: آرٹیکل نمبر20۔ قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کے تابع:  (a) ہر شہری کو اپنے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق حاصل ہوگا۔

اور (b) ہر مذہبی فرقہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی اداروں کے قیام، دیکھ بھال اور انتظام کا حق حاصل ہوگا۔ آرٹیکل نمبر21۔ کوئی شخص کسی خاص ٹیکس کی ادائیگی پر مجبور نہیں ہوگا جس کی آمدنی اپنے مذہب کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ یا دیکھ بھال پر خرچ کی جائے۔آرٹیکل نمبر 22۔  (1) کسی بھی تعلیمی ادارے میں شرکت کرنے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے، یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے، یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، اگر ایسی ہدایات، تقریب یا عبادت کا تعلق اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔

(2) کسی بھی مذہبی ادارے کے حوالے سے، ٹیکس کے سلسلے میں چھوٹ یا رعایت دینے میں کسی بھی کمیونٹی کے خلاف کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوگا۔ آئین پاکستان میں درج بالا واضح آرٹیکلز کی موجودگی میں مزید کسی قانون کی گنجائش باقی نہیں بچتی۔ یاد رہے درج بالا آرٹیکلز میں مسلم اور غیر مسلم کو مکمل طور پر اپنے مذہبی عقائد، عبادات اور تبلیغ کی اجازت ہے۔

اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اسلام دین حق اور عین دین فطرت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید باقی آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ محفوظ اور ترامیم کے بغیر ہے۔ اگر دین اسلام کی حقانیت کو جاننے کے بعد کوئی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہے تو پاکستان کا آئین اور مذہب اسلام اس غیر مسلم فرد پر کوئی قدغن نہیں لگاتے بلکہ ایسے افراد کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

اسلام کی تاریخ میں کم عمرافراد کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی بہت سی مثالیں ہیں۔کم عمر افراد کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف قبول فرمایا بلکہ مسرت کا اظہار بھی فرمایا۔ ہمارے سامنے کم عمرا فراد کے اسلام لانے کی سب سے بڑی مثال حضرت علی کرم اللہ وجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ یہ بات بھی بر حق ہے کہ دین اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے۔

اوراگر واقعی کوئی فرد زورزبردستی کسی فرد کو اسکا مذہب بدلنے کی کوشش کرے تو اسکو قرار واقعی سزا ضرورملنی چاہئے۔ بہرحال وزارت مذہبی امور کی جانب سے مجوزہ بل کو اعتراضات لگا کر واپس کرنا واقعی خوش آئند بات ہے۔ ورنہ اس بل کے پارلیمنٹ میں پیش ہونے کی صورت میں وطن عزیز میں سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا خطرہ لاحق تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :