روشن خیالی،اسلام اور آج کا نوجوان

ہفتہ 10 اکتوبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کے سب سے بڑے ریفارمر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا کے واحد ریفارمر تھے،جنھوں نے اعتدال اور میانہ راوی کا درس دیا۔آج پاکستان جیسے اسلامی ملک میں لبرل اور نسوانیت کے علمبردار بڑے بڑے حقوق کا دعوی کرتے ہیں۔اور مغربی معاشرت کو شخصی آزادی کی بنیاد پر ملک میں نفاذ کرنا چاہتے ہیں۔

میں ان کے سامنے کچھ بنیادی اسلامی اصول رکھنا چاہتا ہوں۔اگر فیمانزام عورتوں کے حقوق کا نام ہے،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی فیمانسٹ نہیں ہو سکتا۔اگر لبرل ازم شخصی حقوق،برابری اور انفرادی آزادی کا نام تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی لبرل نہیں ہو سکتا،جس نے سب سے پہلے یتیموں،غلاموں کو ایسے معاشرے میں حقوق دلوائے جہاں غلام ابن غلام کا تصور تھا۔

(جاری ہے)

اسلام ایک چھوٹی سی ویران بستی سے نکلا اور پوری دنیا پر پھیل گیا ،جو تب تجارت،فنون اور علم کے مراکز سے کوسوں دور تھی۔جہاں اکثریت اصنام پرستوں کی تھی۔جبکہ تھوڑی بہت  عیسائیوں اور یہودیوں کی آبادی بھی موجود تھی۔اسلام کی اشاعت اور وسیع پیمانے پر پھیلاؤ کی وجہ عبادات سے زیادہ معاشرت کے اصول تھے۔اسلام نے سب سے پہلے عورت کے حقوق کی بات کی،اور ایسے معاشرے میں یہ نعرہ بلند کیا،جہاں بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا،جہاں عورت سے جانور سے بھی بدتر سلوک راوا رکھا جاتا۔

دنیا کے پہلے نسوانیت کے علمبردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف عورت کو زندگی جینے کا حق دلوایا،بلکہ عورت کو گھریلو زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر بھی آزادی دلوائی۔اور یہ حق بھی دیا کہ عورت شریعت کی حد میں رہتے ہوئے،اپنے خاندان کےلئے روزی بھی کما سکتی ہے۔اب یہاں پر کچھ لوگ جو حددود مقرر کردہ ہیں،ان پر اعتراض کرتے ہیں اور وہ مغربی عورت کی طرح مشرقی عورت کےلئے بھی ایسے حقوق کی بات کرتے ہیں،جو عریانی اور فحاشی پھیلاتے ہیں۔

حالانکہ وہ یہ نہیں جانتے عورت کی ایک حد سے زیادہ آزادی  نسل انسانی کی بقا کےلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔اس سلسلے میں ممتاز مفتی صاحب نے اپنی کتاب "تلاش" میں بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔مفتی صاحب نے لکھا ہے"میرے ایک دوست امریکہ گئے،واپس آئے تو کہنے لگے مفتی میں بیکار ہو گیا،برباد ہو گیا۔میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے۔یار،میں جب نیا نیا امریکہ گیا تو ساحل سمندر پر برہنہ عورتوں کو دیکھ کر پاگل ہو گیا،روز بیچ پر ٹہلنے جاتا۔

آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہتا۔اب یہ حال ہے کہ تحریک نہیں ہوتی۔" اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے،فحاشی اور برہنگی دینی مسئلہ سے زیادہ فزی آلوجیکل مسئلہ ہے۔یہ انسانی بقا کا مسئلہ ہے۔بلکہ یہ تو نفسیات کا مسئلہ ہے۔نفسیات کے مطابق جس چیز کو بار بار دیکھا جائے اس میں کشش ختم ہو جاتی ہے۔بے شک اسلام دین فطرت ہے۔اسلام اعتدال کا دین ہے۔اسلام ہم آہنگی کا دین ہے۔

جو حقوق اسلام نے عورت کےلئے مقرر کیے ہیں،وہ انھی میں رہ کر اپنے وقار،عزت اور تکریم کو برقرار رکھ سکتی ہے۔تو یقینا اگر فیمانیذام عورتوں کے حقوق کی تحریک ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی بڑا فیمانسٹ نہیں ہو سکتا۔جس نے عورت کو بیوی بیٹی،بہن اور ماں کی صورت میں عزت و تکریم سے نوازا اور ان کے حقوق واضح کیے۔ہاں اگر ہمارے ملک میں آج بھی عورت کو اس کے حقوق نہیں دیے جاتے،آج بھی اس کی مرضی کے بنا اس کی شادی کر دی جاتی ہے، اور اگر آج بھی اس کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تو اس کے ذمےدار ہم خود ہیں،  کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ شخصی کمزوریوں کی بنا پر اسلام کو قصوروار ٹھہرائے۔

دوسری طرف جو لبرل ہیں اور اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہیں،ان کےلئے عرض ہے کہ یورپ نے روشن خیالی اسلام سے سیکھی ہے۔تاریک دور میں پورپ دقیانوسی خیالات سے بھرا ہوا تھا،جو کوئی بھی کیتھیڈرل نظریات سے متصادم بات کرتا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔سب سے زیادہ دانشوروں اور سسائنسدانوں کا قتل یورپ نے کیا ہے ۔بڑا مشہور واقعہ ہے کہ جب فزیشنز اور سائنس دانوں نے مینڈک پر تجربات شروع کیے تو عیسائی مذہبی حلقوں میں مشہور ہو گیا کہ یہ لوگ مینڈک پر بڑا ظلم کرتے ہیں۔

اس کو چیر پھاڑ کر اس پر تجربات کرتے ہیں۔لوگوں نے سائنس دانوں کو وارننگ دی کہ مینڈک پر ظلم نہ کیا کرو۔سائنس دانوں نے سمجھایا کہ ایسا انسانیت کے فائدے کےلئے کیا جاتا ہے۔انتہاپسندوں،بنیاد پرستوں کو سمجھ نہ آئی اور انھوں نے ان سب کو قتل کر دیا جو مینڈک پر تجربات کر رہے تھے۔پھر جب یورپ روشن خیال ہوا،اور انھوں نے دیکھا کہ مسلمانوں نے ہر شعبے  طب،سائنس،ریاضی،جغرافیہ میں  خاطر خواہ ترقی کر لی ہے۔

تو یورپین علم کے راستے پر چل نکلے اور مختلف علوم پر چھا گئے۔اس کے بعد سب سے بڑھ کر اہل علم اور اہل دانش کی قدر کرنے لگے۔روشنی خیالی کسی بھی معاشرے کی ترقی کےلئے ضروری ہے۔کوئی معاشرہ بھی دقیانوسی ذہانت سے ترقی نہیں کر سکتا۔اسلام کا نعرہ  بھی روشن خیالی تھا۔جو عرب کے بدووں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آیا۔لبرل اگر بیسویں صدی میں آ کر شخصی آزادی،برابری اور انفرادی حقوق کی بات کرتے ہیں،تو اسلام نے ساتویں صدی میں یہ سارے حقوق واضح کر دیے تھے۔

ہمارے نوجوان جو آج مغرب سے متاثر نظر آتے ہیں،وہ دیکھیں اور پڑھیں کہ ہمارے اسلام نے ہمیں کیا تعلیمات دی ہیں اور اسلام کا نظریہ کیا ہے۔مجھے یقین ہے وہ اسلام کے نظریات کو سمجھنے کے بعد اسلامازم کے قائل ہو جائیں گے اس کے بعد انھیں کس" ازم"سے متاثر ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
کیوں  کہ جن کے پاس رول ماڈل ہوتے ہیں،انھیں کسی کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور ہمارے پاس سب سے بڑے رول ماڈل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا نصب العین موجود ہے۔

ان دنوں مائیکل ھارٹ کی کتاب، "سو عظیم آدمی" میرے زیر مطالعہ ہے،جس نے سب سے عظیم شخصیت کے طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شمار کیا ہے۔مائیکل ھارٹ اس کی سادہ سی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ"حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی،سیاسی،معاشی،معاشرتی،عسکری اور دنیاوی لحاظ سے برابر طور پر کامیاب ہوئی ہے۔"آپ سوچیں،دیکھیں اور جائزہ لیں،ہر لحاظ سے اسلام آپ کو ایک مکمل دین نظر آئےگا۔کیونکہ اسلام دین فطرت ہے اورفطرت سے قریب تر چیز ہی پائیدار اور انقلابی ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :