کرتا پور کوریڈور کا افتتاح ایک اہم اقدام

منگل 12 نومبر 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

کرتارپور راہداری کی تعمیر کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف قمرجاوید باجوہ نے جو وعدہ کیا تھا وہ 9نومبر 2019کو وفا ہو گیا ہے۔ افتتاحی تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو سمیت انڈین سکھوں نے جن الفاظ میں حکومت پاکستان، عمران خان اور پاکستانیوں کی تعریف کی ہے وہ اب تاریخ کا ایک انمٹ حصہ بن چکی ہے۔ تمام عالمی دُنیا بالخصوص امریکہ ، چین اور روس نے بھی پاکستان کے اِس اقدام پر بے حد خو شی اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کرتا پور راہداری کی تعمیر کرکے سات دہاہوں کی کٹھن مسافت کو ایک سال کے مختصر عرصہ میں طے کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں ایک سنگ میل کو عبور کیا ہے۔
 دوسری جانب اپوزیشن حکومت کے اِس احسن اقدام پرکڑی تنقید کرکے فقط سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔

(جاری ہے)

حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اِس راہداری کو کھولنے کی بات چیت 1998، 2004،2008اور 2016میں ہوچکی ہے۔

سابقہ دور حکومت میں چیرمین متروکہ املاک بورڈ صدیق الفاروق نے 26اکتوبر2016کو اپنے میڈیا بیان میں کہا تھا کہ ”14 نومبر2016 سے ننکانہ صاحب میں شروع ہونے والی تقریبات سے پہلے کر تار پور میں تقریباً 70 برس سے بند گرودوارہ صاحب کو عبادت کے لیے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ اس وقت 350 برس قدیم اس گرودوارے کی تزئین و آرائش جاری ہے اور جو آئندہ چند دن میں مکمل ہو جائے گی“۔

صدیق الفاروق نے یہ بھی کہا تھا کہ ” اعلان کردہ بابا گورو نانک یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد بھی جنم دن کی تقریبات کے موقع پر رکھا جائے گا۔یہ یونیورسٹی چار سو ایکڑ پر تعمیر کی جائے گی جس میں پنجابی کے علاوہ دیگر مضامین بھی پڑھائے جائیں گے“۔ یعنی سابقہ حکومتوں کے ادھوروں کاموں کو اگر آج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پورا کیا ہے تو اُسے بلاجواز سیاسی شعبدہ بازی کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

 
پاکستانی عوام سیاست دانوں کے اِن دُہرے چہروں اور منافقانہ بیانات سے اب لاغرض ہو چکی ہے۔ کون کس مفاد کی زبان منہ میں رکھتا ہے عوام اب بے خبر نہیں۔ اِس راہد اری کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفورواضح اور دوٹوک الفاظ میں ناقدین کو بتا چکے ہیں کہ سکھ یاتریوں کی پاکستان میں انٹری قانون کے مطابق ہوگی،کرتار پور میں ملکی سکیورٹی یا خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا،کرتار پور بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے یکطرفہ راستہ ہے،بھارت سے آنے والے سکھ یاتری صرف کرتارپور تک محدود رہیں گے۔

اِس بیان کے بعد تمام ملکی سلامتی کے خدشات اپوزیشن کے ذہنوں سے دور ہو جانے چاہیں۔ کیونکہ گذشتہ 72سالوں سے جب بھی کوئی مثبت پیش رفت ہونے لگتی ہے تو پاکستان مخالف قوتوں کو پریشانی لاحق شروع ہو جاتی ہے۔
 پاکستان کی اِس سے بڑی اور کیا کامیابی ہوگی کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کو پاکستان کی تعریف کرنی پڑی ہے جبکہ بھارتی حکومت اِس منصوبہ کی تکمیل پر سخت اضطراب کا شکار ہے اُسے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کا خوف کھائے جا رہا ہے ۔

امرتسر میں سکھوں کے گھروں پر پاکستانی پرچم لہرا رہے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں نوجوت سنگھ سدھو نے عمران خان کی تصاویر کے بڑے بڑے بل بورڈ آویزاں کرکے بھارتی شدت پسندوں کی نیند یں حرام کر دی ہیں۔ انڈین میڈیا کو ابھی تک کرتار پور راہداری کی سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب28نومبر 2018 میں جنرل باجوہ سے خالصتان تحریک سے منسلک رہنما گوپال چاولا سے ہاتھ ملا نااور وزیر اعظم عمران خان کی تقریر میں کشمیر کا ذکر کرنا ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ 9نومبر 2019کی تقریب میں ایک بار پھر عمران خان نے کشمیر میں مظالم پر مودی سر کا رکو آئینہ دکھا دیا ہے۔

بھارتی پنجاب کا وزیر اعلیٰ کیپٹن امرنیدر سنگھ اِس وقت سخت سیاسی دباؤ اور ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ مذہبی طورپروہ اِس منصوبے کی مخالفت کر نہیں سکتا تھاجبکہ دوسری جانب سیاسی طورپر وہ پاکستانی حکومت کی جانب سے راہداری کے منصوبے کی بروقت تکمیل اور نوجوت سنگھ سدھو کی شہرت سے سخت سیاسی دباؤ کا شکا ر اور افواج پاکستان سے خوف زدہ ہے۔
بقول نوجوت سنگھ سدھو 14کروڑ سکھ قوم پاکستان کی مشکور اور انڈین مظالم کے خلاف پاکستان کی ہم نواہو چکی ہے۔

اِس وقت دُنیا بھر سے سکھ یاتریوں کی پاکستان میں آمد جاری ہے۔ امسال 12 نومبر 2019کو گرونانک دیو جی کا 550واں جنم دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان مخالف قوتیں سکھوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہر قسمی حربے استعمال کر ر ہی ہیں جن میں سے ایک پروپیگنڈہ یہ بھی کیا گیا کہ گرد وارہ کرتا پور صاحب کے تعمیراتی کاموں کے دوران گرونانک سے وابستہ مقدس چیزوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے ۔

اِس پروپیگنڈوہ کی نفی کرتے ہوئے گوبند سنگھ جوکہ گذشتہ 18 برس سے گرودوارہ کرتارپور صاحب میں ’گرنتھی‘ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ،اُن کا کہنا ہے کہ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بارڈر کبھی کھلے گا، اگست2018 میں وزیرِ اعظم عمران خان کی حلف برداری کے موقع پر پاکستان آرمی چیف جنرل باجوہ اور انڈین سیاست دان اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کا ہاتھ ملانا اور ایک دوسرے کو گلے ملناایک معجزہ تھا جس نے سرحد کے اطراف بسنے والے ہزاروں سکھ عقیدت مندوں کی تقدیر بدل دی ہے۔

 وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی خصوصی دلچسپی اورایف ڈبلیو اوکے ہزاروں مزدورں نے24 گھنٹے شفٹوں میں کام کرکے دیوان استھان (عبادت کا کمرہ)، بارہ دری، حاضری کے لیے آئے عقیدت مندوں (جنھیں سنگت کہا جاتا ہے) کے کمرے اور لنگر خانہ بھی تعمیر کیے ہیں۔گرودوارے کے مرکزی اور تاریخی سفید ڈھانچے کی مرمت کی گئی ہے ا ور اس کی قدیم شان و شوکت کو بحال کیا گیا ہے۔

اِس پروجیکٹ کا کل رقبہ تقریباً823ایکڑ زمین پر مشتمل ہے جس میں 42 ایکڑ پر احاطہ گرودوارہ صاحب ہے۔ گرودوارے کے اردگرد میوزیم، لائبریری، لاکر روم، ایمیگریشن سینٹر، دیگر عمارتیں اور دریائے روای پر پل تعمیر کیا گیاہے ۔اِس منصوبے سے قریبی دیہاتوں کے مکین بھی بہت خوش ہیں۔ یہ جگہ ایک جنگل کی مانند تھی۔اب یہاں سڑکیں، سکول، ہسپتال اور تجارتی مراکز بنیں گے اور سال بھر لوگوں کی آمد ورفت رہے گی جس ے مقامی افراد کو روز گار میسر آئے گا۔

 کرتارپور راہداری بھارت اور پاکستان کے مابین 4.12 کلومیٹر طویل مجوزہ سرحدی راہداری ہے ۔ اِس راہدای کی تعمیر سے اب بھارتی پنجاب میں واقع ڈیرہ بابا نانک صاحب (ڈیرہ بابا نانک بھارت کی ریاست پنجاب کے ضلع گرداسپور میں ایک شہر اور بلدیاتی کونسل ہے) ، پاکستان لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع ناروال تحصیل شکرگڑھ کے علاقہ کرتارپور کے چھوٹے سے گاوٴں کوٹھے پنڈمیں واقع گردوارہ دربار صاحب کی مقدس عبادت گاہ سے منسلک ہو گیا ہے۔

تقسیم ہند کے وقت یہ گردوارہ پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔گردوارہ دربار صاحب کی قدیم عمارت دریائے راوی میں آنے والی سیلاب میں تباہ ہو گئی تھی۔ موجودہ عمارت 1920 سے 1929 کے درمیان میں پٹیالہ کے مہاراجا سردار بھوپیندر سنگھ نے 1,35,600 روپے کی لاگت سے دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔ 1995 میں حکومت پاکستان نے بھی اس کے دوبارہ مرمت کا آغاز کیاجسے جولائی 2004 تک مکمل طور پر بحال کر دیا تھا۔

2000ء میں پاکستان نے بھارتی سکھ زائرین کو اِس مقبرے کی زیارت کرنے کے لیے پاسپورٹ یا ویزہ کی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا تھامگر سابقہ حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کی بنا پر یہ ممکن نہ ہو سکا۔
 گرودوارہ دربار صاحب کرتار پورپاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس یہ دریائے راوی کے مشرقی جانب خاردار تاروں والی انڈین سرحد کے قریب ترین واقع ہے۔

جس کو بھارت کی سرحد سے بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس سے قبل سکھوں کی ایک بڑی تعداد بھارتی سرحد پر قائم درشن استھان سے دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے۔گرودوارے کی عمارت کے باہر ایک کنواں ہے جسے گرو نانک دیو سے منسوب کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ ہے کہ یہ گرو نانک کے زیر استعمال رہا ہے۔

اسی مناسبت سے اسے 'سری کْھو صاحب' کہا جاتا ہے۔کنویں کے ساتھ ہی ایک بم کاٹکڑا بھی شیشے کے شو کیش میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔ اس پر درج تحریر کے مطابق یہ گولہ انڈین ایئر فور سز نے 1971 کی انڈیا پاکستان جنگ کے دوران پھینکا تھا جسے کنویں نے اپنی گود میں لے لیا تھا جس سے دربار تباہ ہونے سے محفوظ رہا۔ملک کے دیگر گردواروں کی طرح یہاں داخل ہونے کے لیے مذہبی شناخت نہیں پوچھی جاتی اور یہاں ہر عام و خاص آنے والوں کے لیے لنگر کا بھی اہتمام ہے۔

سکھوں کے بقول گرو نانک دیو جی کی پیدائش پاکستان کے شہر ننکانہ صاحب میں 15 اپریل، 1469ء کو ہوئی اور وفات 22 ستمبر، 1539ء کو شہر کرتار پور میں ہوئی۔ گرونانک سکھ مت کے بانی اور دس سکھ گرووٴں میں سے پہلے گرو تھے۔ ان کا یوم پیدائش گرو نانک گرپورب کے طور پر دنیا بھر میں ماہ کاتک (اکتوبرنومبر) میں پورے چاند کے دن، یعنی کارتک پورن ماشی کو منایا جاتا ہے۔

سکھ روایات کے مطابق 1499ء میں، 30 سال کے عمر میں انھیں ایک کشف ہوا۔ وہ غسل کرکے واپس نہ لوٹ سکے اور ان کے کپڑے کالی بین نامی مقامی چشمے کے کنارے ملے۔ قصبے کے لوگوں نے یہ خیال کیا کہ وہ دریا میں ڈوب گئے ہیں۔ دولت خان لودھی نے اپنے سپاہیوں کی مدد سے دریا کو چھان مارا، مگر ان کا نشان نہ ملا۔ گم شدگی کے تین دن بعد گرو نانک دوبارہ ظاہر ہوئے، مگر خاموشی اختیار کیے رکھی۔

جس دن وہ بولے تو انھوں نے یہ اعلان کیا”نہ کوئی ہندو ہے اور نہ کوئی مسلمان ہے، بلکہ سب صرف انسان ہیں۔ تو مجھے کس کے راستے پر چلنا چاہیے؟ مجھے خدا کے راستے پر چلنا چاہیے۔ خدا نہ ہندو ہے اور نہ مسلمان، اور میں جس راستے پر ہوں، وہ خدا کا راستہ ہی“۔سکھ مت کا بنیادی عقیدہ انتقام اور کینہ پروری کی بجائے رحم دلی اور امن کا پیغام پھیلانا ہے۔

 سکھ گرنتھ صاحب کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں۔ بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری 18برس کرتا پور میں قیام کیا اور 22 ستمبر 1539 کو یہیں وفات پائی۔ ایک روایت کہ مطابق مقامی سکھ، ہندو اور مسلمان ان کی آخری رسومات کے حوالے سے آپس میں لڑنے لگ گئے۔ دونوں اپنی اپنی مذہبی روایت کے مطابق اُن کی آخری رسومات اداکرنا چاہتے تھے۔ مسلمان اُن کی میت کو دفنانا جبکہ سکھ اُن کی ارتھی کو جلانا چاہتے تھے مگر جب لوگوں نے بابا گرو نانک کی میت دیکھی تو وہ چادر کے نیچے سے غائب ہو چکی تھی اور اس جگہ مقامی لوگوں کو پھول پڑے ملے تھے۔

بھارتی سرکار نے ہمیشہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم ڈھائے ہیں۔ 80لاکھ کشمیری 9لاکھ انڈین آرمی کے کرفیو میں قیدی بنے ہوئے ہیں۔ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک اور بھارتی ظلم کو بے نقاب کیا ہے۔ بھارتی مظالم کی روک تھام کا ایک ہی حل ہے کہ بھارت میں مظالموں کی اب مد د کی ہے اور دُنیا اِس میں اپنا کردار ادا کرے۔ منی پور ، ناگا لینڈ ، سکھ قوم اور کشمیریوں کو حق خود اداریت اور مظالم سے نجات دلائی جائے۔

کروڑوں سکھوں کے مذہبی حق کا احترام پاکستان نے خلوص نیت سے کیا ہے اب سکھوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی اپنے ہم وطن کشمیری بھائیوں کے لیے اندرون بھارت آواز بلند کریں۔ ہر مظلوم جب ظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کرئے گا تو بالا آخر ظالم کو سرنگوں ہونا پڑے گا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :