محمدعلی جناح سے قائداعظم تک کا سفر

منگل 25 دسمبر 2018

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

25دسمبر1876ء کووزیرمینشن کراچی میں واقع ایک کرائے کے مکان کی دوسری منزل میں رہائش پذیرجوڑے کے ہاں ایک چاندسے بچے کی پیدائش ہوئی اپناپرایاجواس کودیکھتا اس کی بلائیں لیتا اوربے اختیاراس کی طرف مائل ہوتاچلاجاتا۔اگرچہ جسمانی طورپریہ بچہ بہت زیادہ صحتمند نہ تھا تاہم خوش بختی کے آثاراس کی پیشانی میں عیاں تھے۔ماں پاپ نے اپنے اس سعادت مندبچے کانام "محمدعلی "تجویز کیا۔

جوں جوں ماہ وسال گذرتے جاتے اس کی غیرمعمولی ذہانت وفطانت بھی دن بدن نکھرتی جاتی۔
لکھنے پڑھنے کی عمرکوپہنچاتووالدین نے اپنے نورنظرکو مکتب کی راہ دکھلائی ۔اورسندھ مدرسة الاسلام جیسی عظیم درسگاہ میں داخل کروادیامکتب میں پہنچنا تھا کہ محنت وفرما نبرداری کے سبب اساتذہ کی توجہ کا مرکزٹھہرا گوہرشناس اساتذہ پہلی نظر ہی میں اس گوہرنایاب کی صلاحیتوں کوبھانپ گئے۔

(جاری ہے)

قلم وکتاب کارسیایہ بچہ اپنے دامن میں علم وحکمت کے موتی سمیٹتا رہا اوراپنی قابلیتوں کا لوہا منواتا رہا۔ساراشہرخواب خرگوش کے مزے لے رہاہوتا لیکن محمد علی کی آنکھوں میں نیندنہ آتی وہ رات دیرتک پڑھائی میں مصروف رہتا اس لئے کہ اسے پڑھ لکھ کراپنی قوم کو خواب غفلت سے بیدارکرنا تھا ۔
علم سے والہانہ لگاوٴ اورغیرمعمولی دلچسپی کے باعث اس مستقبل کے درخشندہ ستارے نے لندن کی مشہورزمانہ ”لنکزان“یونیورسٹی میں قانون کے شعبہ میں داخلہ لے لیا اورجب اس سے لنکزان یونیورسٹی کو دوسری یونیورسٹیوں پرترجیح دینے کی وجہ پوچھی گئی تو اس کاجواب قابل رشک تھا اس کا کہنا تھا کہ اس ادارہ میں دنیا کے عظیم قانون سازوں( Law givers)کے اسمائے گرامی میں میرے آقاومولی نبی کریم ﷺکا اسم گرامی سب سے پہلے نمبرپرموجودہے۔

اس سے محمد علی کی اپنے دین ومذہب سے سچی محبت کا پتہ ملتا ہے۔یورپ کے مادرپدرآزادماحول میں اس نے کبھی اپنی مشرقی اقداروروایات سے بغاوت نہیں کی۔بلکہ۔اپنے اخلاق وہمدردی کے جذبات کی وجہ سے دوسروں کو اسلام سے متاثرکرنیکاذریعہ بنا۔قابلیت کے لحاظ سے اس کاکوئی ثانی نہ تھا یہ یونیورسٹی میں بھی ایک لیڈرکے روپ میں نظرآیا ہرکوئی اسی کے گن گاتا 1896 ء میں وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعدمحمد علی حب الوطنی کے جذبے سے سرشارہوکرواپس برصغیر پہنچا۔

اوروکالت کا شعبہ اختیارکیا19سال کی عمرمیں برطانیہ میں سب سے کم عمربریسٹرکہلانے والایہ پہلانوجوان جب واپس اپنے وطن پہنچا تواس نے اپنی قابلیت اورمہارت کے ذریعہ سب کو حیرت میں ڈال دیا۔وکالت میں اس کوئی ثانی نہ تھا انتہائی دقیق اورگنجلک مقدمات کی گھتیوں کو سلجھانا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
وہ دور سلطنت برطانیہ کے برصغیرپرتسلط کا تھا اورمسلمان اورہندودونوں کو اس نے غلام بنا رکھا تھا جس کی وجہ سے بے چینی اوربدامنی کی فضا تھی۔

ان حالا ت وواقعات نے محمد علی کوسیاست میں دلچسپی لینے پرمجبورکردیا اوروہ ایک پڑھا لکھا باشعور کڑیل جوان تھاوہ گوروں کے ہتک آمیزاورامتیازی سلوک کی وجہ سے بہت دلبراداشتہ تھا۔بطوربہترین وکیل اس کا چرچاسب سے زیادہ اس وقت ہو اجب سرفیروزشاہ کے سیاسی مقدمے میں اس نے فتح حاصل کی تھی۔محمدعلی کی اس فتح سے مسلمان اورہندوبہت متاثر تھے اورانہیں اس باہمت جوان میں امید کی کرن نظرآئی۔

چنانچہ آپ کی سیاسی بصیرت کو بھانپتے ہوئے ہندوستان کے معروف رہنما بال گنگا دھر نے محمد علی کو سلطنت برطانیہ کی جانب سے دائر کئے نقص امن کے مقدمے کی پیروی کے لئے دفاعی مشیرقانون مقررکردیا۔
اس مقدمہ میں محمد علی نے دلائل کے انبارلگا دیے اورحاضرین کو اس بات کا پورا یقین ہوگیا کہ فتح انہی کی ہوگی لیکن انگریزجج نے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بال گنگا دھر کو قید بامشقت کی سزاسنادی۔

لیکن ان حالات نے محمد علی کے جذبہ کوپست ہونے کی بجائے مزید جلا بخشی اوربرطانیہ سے نجات حاصل کرنے کے لئے 1913میں اس وقت کی بڑی جماعت کانگریس میں شمولیت کی اورمسلمانوں اورہندوٴوں کے حق آزادی کے لئے آوازبلندکی لیکن کا نگریس کی درپردہ برطانیہ کے ساتھ وابستگی اورمسلمانوں سے نفرت بارے جب ان کو ادراک ہوگیا تو انہوں نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے 1913 میں باقاعدہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکرلی۔

آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث 1916ء میں لکھنو میں ہونے والے اجلاس میں آپ کو مسلم لیگ کا صدرنامزدکردیا گیا۔اوریوں برصغیر کے شکستہ دل مسلمانوں کو آپ کی شکل میں ایک قائدورہبر مل گیاآپ کی زیرقیادت مسلمانوں نے دن رات ایک کرکے محنت کی اورپھر 1940ء تک محمد علی کو اس بات کاپختہ یقین ہوگیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ وطن حاصل کئے بغیر کوئی چارہ کارنہیں۔

چنانچہ 23مارچ 1940 ء کولاہورکے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پروہ تاریخی قرارداد منظور کرلی گئی جس کی بنیاد پرمسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے حصول کے لئے تحریک شروع کی اورسات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
اوربلآخر14اگست 1947ء کو برصغیر کے مسلمانوں کو محمدعلی کی قیادت میں پاکستان جیسی پاک سرزمین ملنے کا خواب شرمندہ تعبیرہوا۔

آزادی کی اس لازوال نعمت کے حصول میں محنت کرتے کرتے محمد علی کی جوانی اگرچہ ڈھل چکی تھی اوروہ انتہائی نحیف ہوچکے تھے مگر ان کاجذبہ کووہ ہمالیہ سے بھی بلندترتھا۔اس لئے کہ اب وہ صرف محمدعلی نہیں بلکہ قائداعظم محمدعلی جناح تھے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے بعدبرصغیر نے قائداعظم سے عظیم مسلمان لیڈر پیدانہیں کیا۔قائداعظم محمد علی جناح اپنے مقصدحیات کی تکمیل کے بعد 11ستمبر1948ء کو اس دارفانی سے مفارقت دے کراپنے خالق حقیقی سے جاملے۔لیکن جب تک پاکستان باقی ہے قائداعظم کا نام زندہ وجاوید رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :