احتساب ِذوالنّونی ہی فقط علاج ہے

پیر 20 اپریل 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملک مصرمیں اس درجہ قحط سالی ہوئی کہ دریائے نیل بھی خشک ہوگیاانسان وحیوان پانی کی بوندکوترس گئے چنانچہ مصرکے باشندے اکٹھے ہوکرپہاڑوں پرچلے گئے اوروہاں نمازاستسقاء کے بعد خوب گڑگڑاکردعائیں کیں، بچے ،بوڑھے ،مردوخواتین سبھی نے اس درجہ آہ وزاری کی کہ گویاآنسوؤں کی ندیاں بہادیں لیکن اس سب کے باوجودآسمان سے بارش کاایک قطرہ نہ ٹپکا،اورلوگ نامرادگھروں کولوٹ آئے ،کسی کوکچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ کون سی تدبیراختیارکی جائے ،کچھ دانالوگ آپس میں کہنے لگے کہ ملک مصرکے ایک درویش وفرشتہ صفت عابدحضرت ذوالنون مصری  کی خدمت میں جاکران سے دعاکی اپیل کرناچاہیے ،چنانچہ انہی میں سے ایک آدمی حضرت ذوالنون مصری کی خدمت میں حاضرہوکرکہنے لگاحضرت مصرکے باشندے پیاس کی شدت سے مررہے ہیں زمین کے چشمے خشک ہوگئے آسمانوں سے بارش منقطع ہوئے عرصہ بیت گیاآپ اللہ تعالی کے مقرب بندے ہیں باران رحمت کے لئے دعافرمادیں تاکہ ہم سے یہ عذاب ٹل جائے اورملک مصرسیراب ہویہ سننا تھاکہ حضرت ذوالنّون مصری  نے اپنی ُگدڑی اٹھائی اورملک مصرسے دورمدین میں جامقیم ہوئے اوروہاں عبادت وریاضت میں مشغول ہوگئے وہاں تقریبا بیس دن کے بعدانہیں کسی نے بتلایاکہ ملک مصرمیں بہت کثرت سے باران رحمت برسی ہے اورقحط سالی دورہوگئی چنانچہ آپ مدین سے واپس مصرتشریف لے آئے آپ کی آمدکی خبرسن کرآپ کاایک عقیدت مندحاضرخدمت ہوااورقحط سالی کے دنوں میں مصرکوچھوڑکرمدین مقیم ہونے کی وجہ پوچھی ۔

(جاری ہے)

جس کے جواب میں ذوالنون مصری  نے فرمایاکہ میں نے سناہے کہ گناہوں کی کثرت کے سبب صرف انسانوں ہی کونہیں بلکہ پرندوچرنداوردرندوں تک کورزق میں تنگی درپیش ہوجاتی ہے میں نے اپنے اعما ل کامحاسبہ ومراقبہ کیاتواس نتیجہ پرپہنچاکہ میں توتمام لوگوں سے زیادہ خطاکاروگنہگارہوں چنانچہ میں نے مناسب سمجھاکہ ملک مصرسے نکل جاؤں تاکہ خدانخواستہ میری شامت اعما ل سے اہل مصر مزید قحط سالی وتباہی میں مبتلانہ ہوں،
آج بعینہ وہی نقشہ دنیا بھرمیں دکھائی دے رہاہے covid-19صرف قحط الرجال ہی نہیں بلکہ معاشی قحط سے بھی اقوام عالم کومتاثرکیے ہوئے ہے انسانی آبادیاں وحشت کدوں کاروپ دھارے ہوئے ہیں بے روزگاری وافلاس کے ہاتھوں لاچارافراد اورریاستیں دوسروں کے سامنے کاسہ پھیلائے ہوئے ہیں کاروبارزندگی درہم برہم ہے ان حالات میں خدائے بزرگ وبرتر کے سامنے اسلامی ممالک کے علاوہ دنیاکے ایسے مما لک جہاں عوامی مقام پرکوئی خداکانام بلند آوازمیں نہیں پکارسکتا تھا آج چوک چوراہوں میں اذانیں دی جارہی ہیں مسجد وکلیساسے دعائیں التجائیں کی جارہی ہیں خانقاہوں میں ختم خواجگان ہورہے ہیں لیکن کوئی آنسو اس آفت کی آگ کوبجھانے میں کارگرنہیں ہورہااس کی وجہ شایدیہی ہے کہ آج کوئی ذوالنون مصری  بننے کے لئے تیارنہیں ہے کہ جواپنی ضرب المثل بزرگی وقلندری کے باوجود خود کومصرکے قحط کا ذمہ دارٹھہرائے ہوئے تھے اوراس لئے مصرسے نکل گئے کہ خدانخواستہ میری بداعمالیوں کی سزامیں حیوانات پربھی قہرخدانازل نہ ہو،آج انسانوں کی خداکی نافرمانی کی وجہ سے صرف انسانی آبادی ہی نہیں بلکہ دیگرمخلوقات بھی متاثرہیں جانور،پرندے ،درندے بلبلااٹھے ہیں ان ناگفتہ بہ حالات میں انفرادی طور پرہرکسی کواپنامحاسبہ کرنے کی ضرورت ہے یقیناہم سب اس آفت کے ذمہ دار ہیں لیکن افسوس ہرکوئی دوسرے کے ہاتھ پراپناخون تلاش کررہاہے ہرکسی کی زبان پرایک ہی نعرہ ہے یہ ذمہ دار، وہ ذمہ داراس سے لگا،اُس سے لگا،اِسے قرنطین کردو،اُسے قرنطین کردو،پوری دنیاکو قرنطینہ بنادیاگیاامیرحرم نے توحرم کوبھی قرنطینہ بنادیالیکن پھربھی باران رحمت کیوں تھمی ہوئی ہے ؟آفت کیوں نہیں ٹلتی ؟نظام جہاں کیوں معطل ہے ؟کیاکریں”مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی “ ۔

 آج ذوالنون مصری کی طرح خود کوئی مدین جانے کے لئے تیارنہیں کیونکہ ہم سب پارساو شب بیدارہیں ہمارے دامن میں کوئی داغ نہیں ،ہمارے ایمان میں کوئی شک نہیں ،ہماری عبادت وریاضت اورتعلق مع اللہ میں ریاکاشائبہ تک نہیں ،ہمیں توبہ ومعافی کی کوئی ضرورت نہیں ،قصورتوانہی کاہے لہذا مدین بھی انہی کوبھیجو وہ معافی مانگیں توبہ کریں کیونکہ قصوروار تو وہی ٹھہرے ہیں آج جہاں معاشی طورپراحساس کی اہمیت ہے اس سے کہیں بڑھ کرہم سب کواپنے اعمال وکردار کی بدحالی کااحساس ہوناچاہیے ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے ضرورت اس بات کی تھی کہ ہم اپنے گناہوں پراستغفارکرتے خودکوملامت کرتے آج فضول قسم کی مصروفیات اورکھیلوں میں اکثریت اپنا وقت بربادکررہی ہے ان مشکل آفت زدہ حالات میں بھی ہماری راتیں ُلڈو،تاش ،ٹک ٹاک اوردیگرسوشل میڈیاٹولزپرلغو دیکھنے اورسننے میں گذررہی ہیں اورسارادن غفلت میں لمبی تان کرسوئے رہتے ہیں ہمارایہ عمل بتلاتاہے کہ اس آفت میں بھی ہم نے اپنی روش کوتبدیل نہیں کیاحالانکہ یہ سب ہمارے برے اعمال اورنافرمانیوں کانتیجہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :