ترکی،اردگان اورارطغرل ۔(قسط نمبر1)

منگل 9 جون 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

ترک قوم ایک تابناک ماضی کی امین ہے جوجرات مندی ،سخاوت ،اخوت ،وفاداری اورجوانمردی وجہان بانی جیسی بیسیوں صفات کی حامل ہے خلافت عثمانیہ(1517ء تا 1924ء)ترک قوم کے عروج کاوہ سنہری دورکہ جس کادائرہ اختیارتین براعظم تک پھیلاہواتھااوریہ عالم اسلام کے لئے ایک آئیڈیل سٹیٹ تھی لیکن مرورزمانہ کے ساتھ خلافت عثمانیہ کے جانشین علمبرداروں نے اپنے شاندارماضی کی حسین اقداروروایات سے چشم پوشی اختیارکی حکیم الامت شاعرمشرق ڈاکٹرعلامہ اقبال نے اپنی نظم ”طلوع اسلام “میں سلطنت عثمانیہ کے عروج وزوال کابڑے دردکے ساتھ نقشہ کھینچاہے جوکہ پڑھنے والوں کے لیے دعوت فکرہے اس نظم کے تین اشعار عروج وزوال کاگویاخلاصہ ہیں فرماتے ہیں۔


جہاں بانی سے ہے دشوارترکارِجہاں بینی
جگرخوں ہوتوچشم ِدل میں ہوتی ہے نظرپیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ ِغم ٹوٹاتوکیا غم ہے
کہ خون صدہزارانجم سے ہوتی ہے سحرپیدا
سبق پھرپڑھ صداقت کا عدالت کاشجاعت کا
لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبال  نے فرمایاکہ ملکوں کوفتح کرنے سے مشکل دلوں کوفتح کرناہے مفتوحہ سرزمین کے باسیوں کے مسائل کوسلجھاناایک دیرومشقت طلب کام ہے اس کے لئے بنیادوں کوخون جگردینا پڑتاہے مزید فرمایاکہ اس آزمائش پرآنسو بہانے اورملامت کرنے کی بجائے صدق وعدل اورشجاعت کوسینے سے لگالویہ تین کام تمہیں پھرسے دنیاکا امام بنادیں گے ۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال  کی ان نصائح پرآج دوبارہ ترک قوم عمل پیراہونیکی کوشش کررہی ہے خاص طور پرترکی ایک انقلاب کی جانب رواں دواں ہے لیکن یہ انقلاب پل بھرمیں نہیں آئے گا اس کے لئے مسلسل محنت درکار ہے عالم اسلام ایک مرتبہ پھرترکی کی طرف نظرجمائے ہوئے ہے اس کی وجہ ترکی کی عوام کی اسلام اورشعائراسلام سے والہانہ محبت ہے 2018ء میں عمرہ کے سفرکے دوران مجھے ترکی کے لوگوں کوبہت قریب سے دیکھنے کااتفاق ہوا جہاں ہزاروں کی تعداد میں ترک حرمین شریفین کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے جن میں اکثریت نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی تھی مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران طواف کعبہ اورزیارات مکہ میں بھرپورگرمجوشی دیکھی ،اسی طرح مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ اورجنت البقیع میں ترکوں کی عقیدت واحترام نے مجھے بہت متاثر کیاایک دن جب مکہ مکرمہ میں غارحراء کی زیارت کے لئے میں اورمیری اہلیہ صبح سویرے روانہ ہوئے تو وہاں پہنچ کریہ دیکھ کرہمیں بہت تعجب ہواکہ جب ہم غارحراء کی طرف جارہے تھے توایک بہت بڑی تعدادمیں نوجوانوں کے ساتھ ادھیڑ عمر ترک واپس لوٹ رہے تھے جس سے معلوم ہوتاتھا کہ یہ لوگ یہاں رات کے آخری پہر میں آئے تھے اورنماز فجربھی اوپرہی اداکی جبکہ ایک خاصی تعداد اس وقت بھی غارحراء میں نوافل پڑھنے کے لئے بے چین تھی ۔

مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران ہی میں نے ترک عمر رسیدہ جوڑے کے ایک دلچسپ اورایمان افروزواقعہ کامشاہدہ کیاجسے میں آپ سے شئیرکرنا چاہوں گامکہ مکرمہ میں مروہ پہاڑی کی دائیں جانب ابو جھل کے حماموں سے کچھ آگے مکتبہ مکہ مکرمہ نامی ایک دومنزلہ لائبریری ہے جس سے متعلق یہ کہا جاتاہے کہ یہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا وہ مبارک گھر ہے جہاں پر حضرت محمد ﷺکی ولادت باسعاد ت ہوئی۔

ترک کثیر تعدادمیں ہروقت اس مبارک مکان کے اردگردجمع رہتے ہیں اور مختلف ٹولیوں کی شکلوں میں اس کی بائیں جانب جمع ہوکراپنی زبان میں نبی کریم ﷺکی شان میں انتہائی سوزاور ردھم کے ساتھ قصائد پڑھ رہے ہوتے ہیں میں کچھ دیر تک ان دیوانوں کی ان دیوانگی اداوٴں کا مشاہدہ کرتا رہا۔
میں یہ حسین منظر دیکھنے کے بعد جونہی حضورﷺکی جائے پیدائش (مکتبہ مکہ مکرمہ )کی طرف بڑھا تو میں نے وہاں پر ایک ترک بوڑھے میاں بیوی کی محبت رسول ﷺکاا نتہائی جذباتی انداز دیکھا جس کا میں جب بھی اپنے ذہن میں خیال لاتا ہوں تو مجھے اس بوڑھے ترک جوڑے کی محبت پر رشک آتا ہے یہ نماز عصر کے بعد کا وقت تھا اورحضور ﷺکی جائے پیدائش پر بنائی گئی لائبریری کا مرکزی دروازہ کھلا ہواتھا تاہم اندرونی شیشے والا دروازہ بند تھا جس سے فقط لائیبریری کے اندرونی مناظر دکھائی د ے رہے تھے میں نے دیکھا کہ یہ بڑھیا بارباراندرجھانکتی اورفرط محبت میں آنسو بہاتی اوراپنے منہ میں اپنی زبان میں کچھ پڑھتی جاتی۔

اس کے بعد اچانک اس کے ذہن میں کوئی بات آئی اوراس نے اپنا موبائل نکالا اور دروازے پر بیٹھے دربانوں میں سے ایک کو کہا کہ مجھے اس مبارک جگہ کی اندر کی جانب سے تصویر بنادو جس پر اس دربان نے اس کی بات کو ٹال دیا لیکن وہ بڑھیا بہت جذباتی ہوچکی تھی اور کسی طرح نہ ٹلتی تھی آخر جب اس نے دوتین مرتبہ اصرار کیا تو اس دربان کا دل بھی نرم پڑگیا اور اس نے اس بڑھیا کا موبائل پکڑکر اندرونی حصہ کی جانب سے کچھ تصاویر بنادیں اس کے بعداس دربان نے جب بڑھیاکو موبائل واپس کیا تواس وقت وہ بڑھیا اتنی زیادہ خوش اور گرمجوش تھی کہ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اورمیں نے دیکھا کہ فرط محبت میں اس کی آنکھوں سے آنسووٴں کا ایک سمند ربیکراں جاری تھا۔

اس نے اس دربان کا اپنی زبان میں شکریہ اداکیا مجھے اس بڑھیا کی غیر معمولی خوشی کو دیکھ کر ایسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اسے کائنات کی سب سے عظیم نعمت مل گئی ہو جس کے لئے وہ برسوں سے بے تاب تھی دراصل وہ اس بابرکت مکان کی اندر جاکر زیارت کرنا چاہتی تھی مگر لوگوں کی خرافات کی وجہ سے کچھ عرصہ سے سعودی حکومت نے اندر جانے کی ممانعت کردی ہے اور چند اوقات میں اس کے دروازے کھولے جاتے ہیں باقی فقط باہر سے زیارت کی جازت ہے۔

اس لئے وہ بچاری باہر سے ہی زیارت کر کے اپنی اآنکھوں کوٹھنڈا کررہی تھی ۔میں ابھی دروازے کے آگے ہی کھڑا تھا کہ وہ بڑھیا خوشی سے سرشاروہاں سے تیزی سے نکلی اور چند ہی لمحوں میں وہ اپنے ساتھ ایک بوڑھے میاں کو لے آئی اوراسکو بھی دروازے کے سامنے لاکھڑا کیا اوراس کے بعداس بزرگ نے بھی اپنی جیب سے اپنا موبائل نکالااوراس دربان کو کہا کہ اس کو بھی تصویربنا دو خیر اس دربان کی وسعت ظرفی اور اس سے بڑھ کی ان کی غیر معمولی محبت تھی کہ اس دربان نے بغیر چوں چرا کئے اس کو بھی تصویر بنادی جس پر یہ دونوں بہت زیادہ خوش تھے میں ان کی خوشی کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

اس کے بعد اس بوڑھے میاں نے اپنی بڑھیا سے کہا کہ میری اس مکان کے سامنے تصویر بناوٴلیکن اچانک اس نے اپنا یہ ارادہ اس وجہ سے ملتوی کردیا کہ اس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی لہذا وہ بوڑھے میاں اپنے لباس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی حسرت بھرے لہجے میں کہنے لگے ہائے افسوس اے کاش میں حالت احرام میں ہوتا تو میں اس مقام پر تصویر بناتا لیکن اب اس لباس میں مناسب نہیں۔

چنانچہ یہ دونوں ہنسی خوشی ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہو گئے۔
وہ دونوں تو رخصت ہو گئے لیکن میرے دل کی چنگاری کو سلگا گئے چنانچہ میں مزید کچھ دیر کے لئیوہاں ٹھہر گیا اوراپنی پیاس کوسیراب کرنے لگا تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ یہ دونون دربان عربی زبان میں آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے میں نے کان لگایا تو ان میں سے ایک دوسرے سے اس مبارک جگہ سے متعلق زائرین کی کچھ غیر مناسب خرافات کا ذکر کررہا تھاجو کہ مجھے بھی مناسب نہ لگیں محبت اگرشریعت کی حدود میں رہ کر کی جائے تو وہ مستحسن ہوتی ہے وگرنہ وہ بے ادبی کے زمرے میں چلی جاتی ہے۔


خیر اب میں ٹکٹکی باندھے شیشے کے دروازوں کے اند رسے اس مبارک جگہ کو دیکھے جارہا تھا اور میرا ذہن آج سے چودہ سوسال پہلے اس مبارک جگہ پر ہونے والی اس عظیم ہستی کی ولادت باسعادت میں گم تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اس کائنات کی وہ سب سے قیمتی گھڑی تھی جب دوجہاں کے سردار حضرت محمد ﷺکی آمد سے ساری دنیا سے جہالت و گمراہی کے اندھیرے جھٹ گئے تھے اور ہر سونورہی نور تھا اورآپکی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ولادت مصطفی ﷺکے وقت ایک نور مجھ سے جدا ہواجس کی روشنی سے پوری زمین روشن ہوگئی۔


دروازے پر کھڑے کھڑے بارہا میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں کسی طرح اس مبارک جگہ کی زیارت کر سکوں میں دل ہی دل میں اللہ تعالی سے دعا بھی کررہاتھاکہ مجھے کسی طرح اندر جانے کی اجازت مل جائے میں نے دروازے پر آتے ہی ان دربانوں سے اند رجانے کی اجازت چاہی تھی لیکن انہوں نے کہا کی فقط باہر سے زیارت کی اجازت ہے۔میں ابھی عمرہ کرکے مروہ پہاڑی سے باہر نکلا تھا اور حالت احرام میں تھا دربان کے انکار سے مجھے تکلیف ہوئی لیکن میں نے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور فقط باہر سے زیارت کو ہی غنیمت جا نا لیکن اس کے باوجو دایک تشنگی اور بے چینی تھی اور دل کو سکون نہیں آرہا تھا میں تقریبا پندرہ ،بیس منٹ کھڑارہا اس کے بعد میں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک دربان دروازے سے اٹھ کر باہر کی جانب مڑا تو میرے دل میں یہ خواہش پیداہوئی کہ ایک مرتبہ اس سے کیوں نا درخواست کی جائے اگراجازت مل گئی تو ذہے نصیب وگرنہ جو اللہ کو منظور خیر میں دبے پاوٴں آگے بڑھا اور اس دربان کے بالکل قریب جا کر عرض کی کہ میں پاکستان سے ہوں اورالحمدللہ شریعت کے احکام سے واقفیت رکھتا ہوں میں لائبریری سے استفادہ کے لئے اندر جانا چاہتا ہوں اس پر اس نے مجھ سے استفسار کیا کہ آپ کی تعلیم کیاہے ؟ اور کیا کرتے ہو؟جس پر میں نے جوابا عرض کیا کہ میں پاکستان کی ایک ممتازدینی درسگاہ کا فاضل ہوں اور ایک عصری ادارے میں عربی کا معلم ہوں اس پر اس نے دروازے پر بیٹھے ہوئے دربان سے کہا کہ یہ معلم ہے اور عربی جانتا ہے اسے اندر جانے دوچنانچہ اللہ تعالی نے میری محبت وفکر پرفیصلہ فرمایا اور مجھے اس مبارک مکان کے اندرجا کر اس کی زیارت کرنے اور وہاں پر موجودہ انتہائی قیمتی اورنایاب کتب کے مطالعے اور درودوسلام پڑھنے کی توفیق نصیب ہوئی میں اللہ تعالی کا آج تک اس پر شکر اداکرتا ہوں یہ محض اللہ تعالی کی توفیق اورعربی زبان کی برکت سے ہوا۔

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :