ترکی ،اردگان ،اورارطغرل۔ قسط نمبر3

جمعہ 26 جون 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

شریف مکہ کی خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں خلافت کاتختہ الٹ دیاگیابعدازاں شریف مکہ نے اپنی حکمرانی کے دوام کے لیے خلافت عثمانیہ کی کردارکشی کے لیے عالم اسلام کے ممتازعلماء ومشائخ سے ان کے خلاف فتاوی جات جاری کرنے کی استدعاکی خلافت عثمانیہ چونکہ شکست وریخت سے دوچارہوچکی تھی اس لیے دھڑادھڑ اس کی مخالفت میں فتاوی جاری کیے گئے برصغیر پاک وہند کے سرکردہ علمائے کرام کوبھی اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی گئی جس کے نتیجہ میں برصغیرپاک وہندمیں موجود تین بڑے مسالک بریلوی ،دیوبندی اوراہل حدیث مسلک کے مقتداء وراہنما علماء نے الگ الگ مئوقف اپنایایہاں کسی ایک مئوقف کی تائیدیاتنقید مقصود نہیں بلکہ تاریخی پس منظر کو بعینہ بیان کرنا ہے یہ الگ بات ہے کہ مستقبل ہرکسی کے مئوقف کی حقیقت عیاں ہوگئی ،بریلوی مسلک کی قیادت نے خلافت عثمانیہ کی بجائے شریف مکہ کی حمایت کی ان کی دلیل یہ تھی کہ خلافت وامارت سے متعلق نبی اکرم حضرت محمدﷺ کا واضح ارشاد ہے کہ ”میرے بعدامت کے حکمران قریش میں سے ہوں گے “ اب چونکہ خلافت عثمانیہ کے خلفاء کا تعلق ترک قوم سے ہے لہذاان کی خلافت درست نہیں ہے اوران کے مقابلہ میں شریف مکہ چونکہ ہاشمی وقریشی ہے لہذاوہ خلافت کے اصل حقدارہیں ۔

(جاری ہے)

دیوبندی مکتبہ فکرکے علماء نے خلافت عثمانیہ کے خلاف فتوی دینے سے انکارکردیااورکھل کرخلافت عثمانیہ کی حمایت کی جس کے نتیجہ میں ان کے ممتازعلماء ومشائخ کوشریف مکہ نے گرفتارکرواکرانگریزوں کے حوالہ کردیااورانہوں نے انہیں ساڑھے تین سال تک بدنام زمانہ مالٹاجیل کے اندرقید رکھا ،دیوبندی مشائخ نے یہ دلیل دی کہ خلافت عثمانیہ کوئی نئی خلافت نہیں بلکہ پانچ سوبرس سے امت کا اس خلافت پراعتماد واجماع ہے رہی یہ بات کہ خلافت عثمانیہ ترکوں کی حکومت ہونے کی وجہ سے شرعاناجائز ہے تواس کا جواب انہوں نے یہ دیاکہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے تو تاریخ اس بات پرگوا ہ ہے کہ خلافت راشدہ اورخلافت عباسیہ جوکہ دورنبوت ﷺ کے فوری بعدکی حکومتیں ہیں ان پر یہ پیشین گوئی اورفرمان نبوی ﷺ سوفیصدسچ ثابت ہوچکاہے اس کے بعد ترکوں کی حکومت کے شرعانا جائز ہونے کا فتوی قطعاحق بجانب نہیں ۔

اہل حدیث مکتبہ فکرکے مشائخ نے خلافت عثمانیہ کے مقابلہ میں آل سعودکی حمایت کا اعلان کردیاان کا نقطہ نظریہ تھا کہ آل سعود توحید کی علمبردارہونے کی وجہ سے اطاعت کی زیادہ مستحق ہے ،مسلم ممالک سے شریف مکہ کی حمایت کے نتیجہ میں میں ترک افواج تو حجاز سے نکل گئیں لیکن شریف مکہ کا خلافت عثمانیہ کے مقابلہ میں عالم اسلام کالیڈربننے کاخواب بھی پورانہ ہوسکالیکن درپردہ صلیبی قوتیں عالم اسلام کی طاقت کاشیراہ بکھیرنے میں کامیاب ہوگئیں عالم اسلام کی مرکزی قیادت کے منظرنامہ میں یہ ذلت آمیزتبدیلی پوری دنیاکی مسلم کمیونٹی کے لیے ایک بڑادھچکہ تھی جس نے اقوام عالم میں بسنے والے مسلمانوں کوایک مضبوط اسلامی خلافت سے محروم کردیا،نتیجتاآج مسلمان پوری دنیامیں مقہورومجبوربن کرزندگی بسرکررہے ہیں،
 ترک صدرطیب اوردگان کی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ترکی اورترک قوم ایک مرتبہ پھربرسوں بعد ابھرکرسامنے آئی ہے ترک قوم کے تابناک ماضی کی عمدہ روایات واقدارمیں دفاع واشاعت اسلام کومرکزی حیثیت حاصل ہے ،اوردگان حکومت انتہائی مشکل حالات میں ترکی کواسلامائزیشن کی طرف لوٹانے کے لیے پرعزم ہے جس کے لئے مختلف محاذوں پرپلاننگ جاری ہے 2014ء میں ترک حکومت نے ترکی اورعالم اسلام کو اسلامی ہیروزکی تاریخ سے روشناس کروانے کے لیے ایک نامورجرنیل ارطغرل غازی کے نام سے ایک ڈرامہ سیریل کا آغازکیاتو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیامیں اس کاغلغلہ مچ گیااوراسے غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی عالمی دنیانے اسے اسلام کی نشاء ة ثانیہ کاشگون سمجھتے ہوئے ترکوں کی کردارکشی شروع کردی اورصرف ترک قوم کومشرک وغیرمسلم نہیں کہابلکہ ارطغرل غازی جیسے سچے محب اسلام لیڈر کی شخصیت کو کوبھی متنازعہ بناکرغیرمسلم قراردینے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں حالانکہ یورپ اورایشیاء کے سنگم پرواقع ترکی روزاول سے اپنے غیرمعمولی اہمیت کے حامل خوبصورت محل وقوع کی وجہ سے مشرق ومغرب کے لیے کشش رکھتاہے ،ترکی کاقدیم شہرقسطنطنیہ اپنی بے مثال خوبصورتی کی وجہ سے vesileousa polisشہروں کی ملکہ کہلاتاتھایہ شہررومی ،بازنطینی اوربعدازاں خلافت عثمانیہ میں بھی دارالخلافہ رہا،ترک قوم ترکی کے علاوہ وسطی ایشیاء کے مختلف ممالک میں موجودہے،ترک قوم کے مذہب کے حوالہ سے مختلف تاریخی حوالہ جات ملتے ہیں کچھ عرصہ قبل استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردوکے صدرمحترم خلیل طوقار نے اپنی ایک تحریر میں ارطغرل غازی کے مذہب کے حوالہ سے اپنی تحریر میں ’ترک اسلامی ریاستوں کی ایک مختصرتاریخ (ماسوائے سلطنت عثمانیہ)نامی تحقیقی کتاب میں” ترکوں کے قبول اسلام “کے باب کی تحریر کومستند حوالہ کے طور پرپیش کیے جسے میں بھی قارئین کی تشفی اورشرح صدرکے لیے نقل کررہاہوں۔

۔اسلام قبول کرنے سے قبل ترکوں کا مختلف مذاہب سے رابطہ ہوا اور بوض ترک قبائل نے ان میں سے بعض مذاہب کو قبول کرلیا۔ یہودیت، عسائیت اور بدھ مت جیسے مذاہب کی طرف ترک کم ہی راغب ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترک برادریوں خاص طور پر حکمرانوں نے اپنے علاقوں میں ان مذاہب کے نفوذ کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا لیکن انھوں نے اسلام کی کوئی مخالفت نہیں کی۔


 بارہویں صدی کے نسطوری مذہبی رہنما اور مورخ مخائل نے ترکوں کے خوشی سے اسلام قبول کرنے کے اس طرز عمل کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ترک اپنے عقائد کے اعتبار سے ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے اس لیے انھیں اپنے عقائد اور عرب مسلمانوں کے اللہ پر عقیدہ میں یکسانیت نظر آئی۔ میخائل کے اس خیال کی تاریخی عقائد سے تصدیق ہوجاتی ہے کہ تیسری صدی قبل مسیح سے ترک لافانی گوک تانرے (آسمانی خدا)پر یقین رکھتے تھے ایک جو ربانی قوت ہے اور کائنات اور انسان کی تقدیر پر حکومت کرنے والا مطلق حکمران ہے۔

اس لیے ترکوں نے نہایت آسانی سے اسلام کے اللہ کو قبول کرلیا جس کے تصور اور ان کے خدا کے تصور میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ مزید بر آں ترکوں کو دنیا فتح کرنے کے اپنے تصور اور اسلام کے جہاد یعنی مذہب کی اشاعت کے لیے جنگ (مقدس جنگ )کے تصور میں بڑی اپنائیت نظر آئی۔
جہاد کے اوصاف اور اگلی دنیا میں مجاہدین اسلام کے لیے لڑنے والے سپاہی کے لیے انعام کے وعدوں میں ترکوں کو اپنا نصب العین مل گیا۔

قبل از اسلام ترکوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ دنیا میں جتنے دشمنوں کو قتل کریں گے۔ جنت میں اسی کے حساب سے ان کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا جو اسلام کے تصور جہاد کے مطابق ہے۔ اس لیے ترکوں کو اسلام قبول کرنے میں آسانی ہوئی۔ ترکوں کا احادیث میں جو تذکرہ آتا ہے اس کی وجہ سے بھی ترکوں کو اسلام سے لگاوٴ پیدا ہوا۔ تبدیلی کے بتدریج عمل میں قاموں کی سماوی خصوصیات اور کشف و کرامات کی جگہ ولیوں اور مرشدوں نے لے لی جو روحانی رہنما اور مبلغین تھے اور یہ تبدیلی اس طرح عمل میں آئی کہ اسے کسی نے محسوس نہیں کیا۔

ترکوں کے زندگی گزارنے کے طور طریقوں اور اسلام کے معاشراتی قوانین میں بڑی مماثلت پائی جاتی تھی۔ مندرجہ بالا اسباب ظاہر کرتے ہیں کہ ترکوں نے جلد ہی کیوں نئے مذہب کو قبول کرلیا۔ انھوں نے اسلامی دین اور تمدن کو اپنے عقائد اور اپنے عالمی نظریات کے عین مطابق پایا۔(جاری ہے )

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :