واہ رے کاون ِ!کیاقسمت پائی

ہفتہ 5 دسمبر 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

گذشتہ دنوں اسلام آباد کے مرغزارچڑیاگھرمیں صدرپاکستان ڈاکٹرعارف علوی نے ایک الوداعی پارٹی میں شرکت کی جواپنی نوعیت کی ایک منفردالوداعی پارٹی تھی آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخریہ کون سی پارٹی ہے جوچڑیاگھرمیں منعقد ہوئی ؟یاپھرآپ کواس وجہ سے حیرت نہیں ہوئی ہوگی کہ آج کل Covid.19کے باعث بندہالزکی بجائے کشادہ مقامات پرپارٹیز کااہتمام ہورہاہے اس لئے وسیع وعریض چڑیاگھرکاانتخاب کیاگیاہو،لیکن صدرپاکستان کی خصوصی تشریف آوری سے آپ چونک سے گئے ہوں گے توسنیے یہ الوداعی پارٹی چھتیس سالہ کاون (kaavan)نامی ہاتھی کی کمبوڈیا منتقلی کے اعزازمیں رکھی گئی تھی ،کاون نامی ہاتھی 1985ء میں صدرضیاء الحق مرحوم کے دورہ سری لنکاکے دوران ان کی صاحبزادی کوسری لنکن حکومت نے تحفہ میں پیش کیاتھا،پاکستان آمد کے بعداگلامرحلہ کاون کی قیام گاہ کاتعین تھا اب کاون کی نسبت چونکہ شاہی محل سے تھی اس لئے اسے دارالخلافہ اسلام آبادکے مرغزارچڑیاگھرمیں منتقل کردیاگیاجہاں یہ اکلوتاہاتھی عام وخاص کے لئے خصوصی توجہ کامرکزٹھہرا،ناصرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک سے سیاح اسے دیکھنے آتے ،کاون کے لئے اتنے بڑے چڑیاگھرمیں اکیلے وقت گزارنامشکل تھاچڑیاگھرانتظامیہ کوبھی یہ فکردامن گیرتھی کہ کسی طرح سے کاون کاکوئی ساتھی دستیاب ہوجائے اس لیے کہ” خوب گذرے گی جومل بیٹھیں گے دیوانے دو“قدرت کاون کی قسمت پرکچھ اس طرح سے مہربان ہوئی کہ 1991ء میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم خالدہ ضیاء نے سہیلی نامی ایک ہتھنی پاکستان کو تحفہ میں بھجوائی جسے کاون کے ساتھ مرغزارچڑیاگھرمیں منتقل کردیاگیا،کاون اورسہیلی کی جوڑی خوب جچتی تھی دونوں ایک دوسرے سے مانوس تھے اورسارے چڑیاگھرمیں دونوں کی حکومت تھی ،تقریبا 21سالہ رفاقت کے بعد 2012میں سہیلی نامی ہتھنی کی موت واقع ہوگئی اب اتنے بڑے چڑیا گھرمیں کاون کاکوئی غمگسارنہیں تھا،سہیلی کے فراق میں ہرگزرتے دن کے ساتھ کاون کی صحت بگڑتی گئی ،اسی دوران اس پرمختلف قسم کے امراض بھی حملہ آورہوگئے ،چڑیاگھرانتظامیہ کی علاج معالجہ میں کوتاہی کواگرچہ نظراندازنہیں کیاجاسکتاتاہم ہاتھیوں کی اوسط عمرکے حساب سے کاون اب ادھیڑ عمرہوچکاتھا ،تنہائی ،بیماری ،اوربڑھاپاتینوں ایسے نامرادروگ ہیں کہ ان کاڈسابمشکل ہی جان بچا پاتاہے ،بہرحال کاون کی حالت دن بدن بگڑتی گئی اوراس کے دیوانہ پن کے باعث اسے ہتھکڑیوں میں بھی جھکڑدیاجاتا،روزانہ سینکڑوں لوگ کاوان کو دیکھنے آتے اس کے ساتھ سیلفیاں بناتے اوررخصت ہوجاتے لیکن کسی کواسکی اذیت کا ادراک نہ تھا،کاون کی خوش قسمتی کہ ایک دن ایک پاکستانی نژادامریکی ویٹرنری ڈاکٹر ثمرخان کا اسلام آبادمرغزارچڑیاگھرآناہواتوانہوں نے کاون کی پریشانی کوبھانپ لیااورمتعلقہ اتھارٹیز کواس کی دیکھ بھال کی طرف متوجہ کرنے کے لیے سوشل میڈیاپر#FREEKAAVANکے نام سے ایک ہیش ٹیگ کاآغازکیاجسے پوری دنیامیں پذیرائی ملی اوراس آوازکومزیدتقویت تب ملی جب جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک امریکن گلوکارہCHERنے بھی کاون کی آزادی کے لیے آوازاٹھائی اوراس سلسلہ میں 2018ء کووفاقی وزیر فوادچودھری کے نام ایک ٹویٹ کیا۔

(جاری ہے)

CHER کایہ ٹویٹ بغورپڑھنے اورسمجھنے کے قابل ہے اس نے لکھا۔۔
 @FAWADCHAUDHRY DEAR MINISTER,I AM NOT TOO PROUD 2 BEG YOU ON MY KNEES2 LET KAAVAN GO 2 FRRDOM .

HE HAS BEEN CHAINED MOST OF HIS LIFE.PLEASE HELP ME.I KNOW YOU ARE DISMISSING ME WITH A POLITICALLY CORRECT TWT .BUT CAN I NOT SOFTEN .KAAVAN DESERVES HAPPINESS BEFORE HE DIES.ٍ    
”کاون مرنے سے قبل خوشی چاہتا ہے “ CHERنے کاون کی سری لنکایاکمبوڈیامنتقلی کے تمام اخراجات کاذمہ لینے کی بھی آفرکی ،چنانچہ کاون کی آزادی کے لیے ملکی اوربیرون دباء کے سبب حکومت پاکستان نے اسے کمبوڈیامنتقل کرنے کافیصلہ کرلیا،کاون کوسفرپرروانہ کرنے سے قبل آسٹریاسے ایک سپیشل میڈیکل ٹیم بلوائی گئی جس نے کچھ عرصہ کاون کی خوب دیکھ بھال کی اوراسے سفرکے قابل بنایااسی دوران امریکی گلوکارہ وزیراعظم عمران خان کا کاون کی آزادی پرشکریہ اداکرنے کے لیے پاکستان آئیں اور30نومبرکوکمبوڈیاکے شمال میں واقع سیم ریپ ہوائی اڈے پرکاون کااستقبال کرنے والوں میں بھی وہ پیش پیش تھیں،کچھ لوگوں کایہ کہناہے کہ کاون تنہائی وعدم توجہ کے باعث ڈپریشن کاشکاررہتاتھاگھنٹوں دیوارکے ساتھ سونڈلگائے کھڑاآنسو بہاتا یادیوانوں کی طرح سر کوہلاتارہتا،یہ بات کسی حدتک درست ہے لیکن اگرکاون کاموازنہ لاہورچڑیاگھرمیں چھ سال کی عمرمیں آنے والی سوذی “نامی ہتھنی سے کیاجائے توکاون کی بنسبت سوزی نے زیادہ تنہائی برداشت کی ،اورصرف تنہائی ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کرگداگری کی اذیت بھی برداشت کی ،سوزی کے ساتھ ہمارے بچپن کی یادیں بھی وابستہ ہیں ہرسال موسم گرماکی تعطیلات میں لاہورننہال جاناہوتاتواپنے چھوٹے ماموں جان کے ساتھ لاہورچڑیاگھرکاvisitلازمی تھا،زندگی میں کسی ہاتھی پریہ پہلی اور شایدآخری سواری تھی،سوزی کولوگ مختلف کھانے کی چیزیں پیش کرتے ،اس کے علاوہ سوزی کانگہبان اس کے ذریعہ روزانہ سینکڑوں روپے کماتا،تماشائی پنجرے کے باہرسے نوٹ لہراتے اورسوزی اپنی لمبی سونڈسے نذرانے وصول کرتا،سوزی کی گداگری سے جمع شدہ ررقم میں کس کس کوحصہ ملتا اس کاعلم توہمیں نہیں بہرحال یہ انتہائی گھٹیاحرکت تھی جس پرشاید ہی کسی نے نوٹس لیاہو،2017میں چھتیس سال کی عمرمیں سوزی کی لاہورکے چڑیاگھرمیں موت واقع ہوگئی جس کے بعداب تک لاہورچڑیاگھرہاتھی سے محروم ہے ،اوراب کاون کی کمبوڈیامنتقلی کے بعد پورے پنجاب کے کسی چڑیاگھرمیں کوئی ہاتھی موجودنہیں،کاون کی آمدسے رخصت ہونے تک کی دلچسپ داستان میں ہمارے لیے غوروفکرکے بہت سارے پہلومضمرہیں ،دین اسلام چوپایوں کے ساتھ حسن سلوک کادرس دیتاہے ،ان کی ضروریات میں کسی قسم کی کوتاہی کوبرداشت نہیں کرتا،تاہم اشرف المخلوقات انسان کی آزادی وخودمختاری اس سے بھی کہیں بڑ ھ کرہے ،اورپھرکلمہ گوکے مقام ومرتبہ کاتویہ عالم ہے کہ اس کے وجود کی برکت خداکے وجودکے انکاریوں کابھی نان ونفقہ جاری ہے لہذاامت مسلمہ کے کسی ایک فرد کی آزادی کے لیے سعی کرنایہ پوری انسانیت سے بھلائی کے مترادف ہے اوران سے عدم توجہ وہ دنیاوآخرت میں خسارے کاباعث ہے ،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :