بابا میں تھک گئی ہوں

جمعرات 4 مارچ 2021

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

احمدآباد بھارت کی 23سالہ نوبیاہتی عائشہ خود کشی سے قبل اپنے والدین سے بات کرتے ہوئے بے قرارو بے چین دل کے ساتھ بارہا یہ جملہ دہراتی ہے ”بابا میں تھک گئی ہوں“بابامیں تھک گئی ہوں“ عائشہ کا بابا اسے قرآن کا واسطہ دیتا ہے تو کبھی اسے عائشہ نام کی عظمت کا واسطہ دیتا ہے ،لیکن جب عائشہ کسی طور پر خودکشی کے فیصلہ سے نہیں ٹلتی تو پہاڑ جیسے دل کا حامل باپ پگھل جاتا ہے اور روتے ہوئے عائشہ سے کہتا ہے کہ بیٹی دیکھ تو ایسا نہ کیجیو تو ہمارے اس احمد آباد آجا اگر تو واپس نہ لوٹی تو میں اپنے سمیت سب کی جان لے لوں گا ، بحث و تکرار ، ترلے منت سماجت،یقین دہانی کیبعد بھی عائشہ اپنے خود کشی کے فیصلہ پر مْصر رہتی ہے اور پھر وہ خود کو دریا کی لہروں کے سپردکر دیتی ہے۔

عائشہ کے بقول خود کشی سے قبل ویڈیو بیان ریکارڈ کرنے کا مقصد اپنے خاوند کی اس بات کو پورا کرنا تھا کہ اگر وہ خود کشی کرنا چاہتی ہے تووہ اس سے قبل اسے ویڈیو بھیج دے ،
لڑکی کے والد کا کہنا تھا کہ شادی کے فقط 2ماہ بعد عائشہ کو اس کے خاوند کے موبائل سے کسی دوسری لڑکی سے ناجائزتعلقات کا علم ہوا جس کی اطلاع اس نے اپنے سسروساس کو کی جس کے بعد معاملہ خراب ہونا شروع ہو گیا، سوشل میڈیا پر عائشہ کی خودکشی کو ٹاپ ٹرینڈ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اس کی ویڈیو دیکھنے اور سننے کے بعد پتھر بھی موم ہوئے بغیر نہیں رہتا ، اس کی گفتگو پتہ دیتی ہے کہ وہ ایک پڑھی لکھی سمجھدار لڑکی تھی لیکن اس کے باوجود اس نے یہ قدم آخر کیوں اٹھایا ؟
اس سوال کا جواب ہر کوئی اپنی فہم و فراست سے دے رہا ہے لیکن خودکشی کرنے والی لڑکی کے والد کے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہرحال اس واقعہ کے محرکات میں سب سے بڑا محرک لڑکی کے خاوند کی اپنی بیوی سے بیوفائی ہے۔

(جاری ہے)

روز اول سے ارباب فکر ودانش اس بات پر شدت سے زور دے رہے ہیں کہ شادی بیاہ سے قبل لڑکی اور لڑکے کو شادی کے بعد پیش آمدہ متوقع گھریلو مسائل کے حوالہ سے مکمل بریفنگ دیے بغیر نکاح کے بندھن کی پائیداری و بقا ادھوری ہے۔
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مغرب کے گرل فرینڈ و بوائے فرینڈ کلچر کو اس تیزی سے adopt کر رہے ہیں کہ رفتہ رفتہ اس مرض کے متاثرین کی تعداد بڑھتی ہی چلی جارہی ہے ،
 نوجوانی کے نشے میں مخمور ناعاقبت اندیش نئی نسل اس مغربی بیہودہ کلچر کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے انجوائے کرتی ہے لیکن بہت جلد وہ اس بائی پاس ناجائزتعلق کی قباحتوں سے ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں ، ارشاد نبوی ﷺہے ” الاثم ماحاک فی قلبک“ گناہ وہ جو تیر ے دل میں کھٹکے۔

یہ کھٹکا نوجوانوں کو کالج و یونیورسٹی کی زندگی سے متاثر کرنا شروع کرتا ہے اور ان کے دلوں میں ہر لمحہ خوف و ہراس کی پرورش کرتا رہتا ہے انفرادی و اجتماعی زندگی میں یہ لڑکے اور لڑکیاں اپنا قدرتی اعتماد و حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں، اس ایک غلط تعلق کی وجہ سے وہ اپنے ہم جماعت ساتھیوں اوردوستوں سے بھی خوف زدہ و بلیک میل رہتے ہیں انہیں ہر وقت یہ فکر ستاتی رہتی ہے کہ اگر کہیں کسی نے ہمارا راز کھول دیا تو پھر کیا بنے گا ؟
ازدواجی زندگی کو سبوتاژکرنے میں بلیک میلرگروہ کا کردار سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے خود کو فرشتہ سمجھ کر دوسروں کی لغزشوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے رحمان کے نہیں بلکہ شیطان کے بندے ہوتے ہیں اس لیے کہ خود رحمان کا فرمان ہے کہ جو کسی بندہ کے عیب و خطا پر پردہ ڈالتا ہے میں اس کے عیب و خطا پر پردہ ڈالتا ہوں اور جو دوسروں کے عیبوں و خطاؤں کو اچھالتا ہے میں اسے ذلیل و رسوا کرتا ہوں۔

معاشرے میں ایسے سینکڑوں واقعات ہیں کہ چغلی خور شیطانی اذہان نے ہنستے بستے گھروں اوررشتوں میں شکوک و شبہات ، نفرتیں اور عداوتیں پیدا کر دیں۔
نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس غلط تعلق کو محض وقت گزارنے اور خواہش کی تکمیل کے لیے نبھاتی ہے ، ایسے لڑکے اور لڑکیاں جب شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو ان کے جسموں میں تو قربت ہوتی لیکن دل کوسوں دور ہوتے ہیں ، وہ نکاح کے مبارک و حسین رشتہ کو محض ایک معاہدہ کے طور پر پورا کر رہے ہوتے ہیں جبکہ اس رشتہ کی بقا کے لیے معاہدہ نہیں بلکہ معاشقہ ضروری ہوتا ہے۔


معاہدہ و معاشقہ میں یہ فرق ہے کہ معاہدہ معمولی سے انتشار کے باعث ٹوٹ جاتا ہے لیکن معاشقہ انتشار و رنجش کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے
شادی کے بعد جو لڑکے اور لڑکیاں ماضی کو بھلا کر مستقبل کی بقا کے لیے کمربستہ و سرگرداں رہتے ہیں وہ تو کامیاب ہو جاتے ہیں ، لیکن جو کسی طرح سابقہ تعلق کی بحالی یا نئی نئی راہیں تلاش کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں وہ موجود سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔

انسان کے خالق نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے اب کوئی نادان یہ سمجھے کہ میرا لباس میرے بدن سے بے خبرہے تویہ حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے یہ لباس اگر کسی دوسرے بدن کی زینت بننے کی کوشش کرے گا تو پھٹ جائے گا۔یقیناایک عورت اپنے خاوند کی محبت و توجہ کے معاملہ میں بہت ہی حساس ہوتی ہے کچھ عرصہ قبل ایک قریبی دوست نے اس حوالہ سے اپنی آپ بیتی شئیر کرتے ہوئے ایک واقعہ ذکرکیا کہ میرا اپنے آفس سٹاف کے ہمراہ کسی سیاحتی مقام پر سیروتفریح کے لیے جانا ہوا سفر سے واپسی پر رات کو جب میں اپنی بیوی کو Trip کی تصاویر دکھلا رہا تھا تو تصاویر دیکھتے دیکھتے ایک تصویر پر بیگم صاحبہ کی نگاہ جم گئی اس تصویر میں اپنے Boss کے ہمراہ میں سیڑھیوں پر کھڑا تھا جبکہ ہمارے کچھ میل و فی میل سٹاف ممبرز نیچے ہمارے سامنے کھڑے تھے اور انہی میں سے ایک محترمہ ہماری طرف دیکھ رہی تھیں ،تھوڑی دیر اس تصویر کو دیکھنے کے بعد بیگم مجھ سے کہنے لگی کہ آپ کے سٹاف میں موجود یہ محترمہ آپ کو like کرتی ہیں ، یہ بات سن کر مجھے بہت عجیب سالگا میں نے اس سے کہا کہ آپ خواتین کی فطرت میں شک کا عنصر بہت غالب ہوتا ہے معمولی سی بات کا خوامخواہ بتنگڑ بنا لیتی ہو وہ مجھ سے کہنے لگی کہ آپ مانیں یا نہ مانیں اس تصویر میں جس انداز سے یہ لڑکی آپ کو دیکھ رہی ہے پکی بات ہے کہ اس کے ذہن میں آپ کے متعلق کچھ ضرور ہے
وہ دوست کہنے لگے کہ مجھے اپنی بیگم کی اس سوچ پر حیرت و تشویش ہوئی تاہم میں نے اس کوسنجیدہ نہیں لیا، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد جب اسی لڑکی نے براہ راست مجھے اپنی جانب متوجہ کرنیکی کوشش کی تو میرے ذہن میں ایک دم سے میری بیگم کی اس دن والی بات گردش کرنے لگی ، میں اپنی بیگم کی اس بات کوجب کبھی سوچتا ہوں تو ورطہ حیرت میں پڑ جاتاہوں کہ ایک عورت کس قدر دقیق النظر و حساس ہوتی ہے کہ خاوند کسی غیر سے تعلقات تو درکنار معمولی التفات بھی انہیں گورا نہیں۔


احمد آباد کی عائشہ کا خاوندلمبے عرصہ سے اس کی نفسیات سے کھیل رہاتھابیوی کی غربت نے اسے مزید حوصلہ بخشااوروہ ہٹ دھرمی میں تمام حدیں کراس کرگیا،آخراس کی بیوی ناامید ہوگئی ،عائشہ کا آخری ویڈیوبیان میں یہ کہناکہ محبت کرنی ہے تو دوطرفہ کروایک طرفہ میں کچھ حاصل نہیں،اس امر کی وضاحت کردیتاہے کہ وہ فقط دوطرفہ محبت کی طلب گارتھی ،لیکن اس کے خاوند نے اس کامان توڑدیا،اس نے
لباس کے ساتھ خیانت کی تو اس کا لباس پھٹ گیا، اور ساری دنیا کے سامنے بے توقیر و بے لباس ہوگیا اس لیے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میاں بیوی میں سے جو کوئی بھی اپنے لباس کے ساتھ خیانت کرے گا تو خدا اسے بے لباس کر د ے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :