
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- محمد وقاص بن الیاس ڈوگر
- واہگہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ:عمران خان مودی کا یار؟؟
واہگہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ:عمران خان مودی کا یار؟؟
بدھ 22 جولائی 2020

محمد وقاص بن الیاس ڈوگر
سماجی طور پہ متحرک، فعال سیاسی کارکن اور ہمارے دوست ملک عامر نے خان سرکار کی اب تک کی کارکردگی کے بخیے ادھیڑتے ہوئے روایتی الزام کا سہارا لیا کہ خان سرکار "مودی کے یار" کا کردار نبھانے چلی ہے۔
(جاری ہے)
غصے سے پھنکارتے ہوئے مزید گویا ہوئے کہ بھارت کشمیریوں پر نہ صرف مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہا ہے بلکہ ان کی شناخت بھی چھیننے کے درپے ہے جبکہ خان سرکار بھارتی مظالم سے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے پاکستان کے راستے افغانستان سے تجارت کی اجازت دے رہی ہے۔؟؟
جھاگ اُگلتے ہوئے کہنے لگے کہ گر یہی سب کچھ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ہوا ہوتا تو ان پر غداری اور مودی کے یار کے ٹھپے لگ چکے ہوتے اب جبکہ لاڈلے کی حکومت ہے تو وہ سب کچھ جو میاں کی حکومت میں شجر ممنوعہ کی حثیت رکھتا تھا کیونکر لاڈلے کی حکومت میں جائز ہو چلا ہے؟سانس پُھلاتے ہوئے پنڈی کے جواں مرگ شاعر محمد صدیق کے شعر کو بدل کر کچھ اس انداز سے پڑھنے لگے کہ:
وہ تیرگی جو "میاں کے" نامہ سیاہ میں تھی
سنہ دو ہزار دس اور مہینہ اکتوبر کا تھا جب پاکستان پر آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی اور افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی۔دونوں ممالک کے بگڑے باہمی تعلقات کو سنوارنے واسطے امریکہ نہ صرف کوشاں تھا بلکہ اس کی خواہش تھی کہ پاکستان بذریعہ واہگہ بارڈر افغانستان کو بھارت سے تجارت کی اجازت دے۔بھارت افغانستان میں اپنے پنجے گاڑ کر پاکستان کو کمزور کرنے کا ہدف طے کیے بیٹھا تھا۔اس سلسلے میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔امریکی آشیر آباد سے بلآخر پاکستانی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم اور افغانی وزیر تجارت ڈاکٹر انوار الحق احدی کے درمیان "افغان-پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ" (APTTA) نامی معاہدہ طے پا گیا۔
اسی معاہدے کے تحت گزرے دس برسوں سے واہگہ بارڈر کے راستے افغانستان بھارت سے تجارتی لین دین کر رہا ہے۔
اب اُن لگائے گئے الزامات کا منطقی جائزہ لیتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ افغانستان کو واہگہ کے راستے بھارت سے تجارت کی اجازت خان سرکار نے نہیں بلکہ سنہ دو ہزار دس میں پیپلز پارٹی حکومت میں ہوئے معاہدہ کے تحت دی گئی ہے۔واہگہ بارڈر سنہ دو ہزار دس سے دو فریقی معاہدے کے تحت افغانستان کے لیے کھلا ہوا ہے۔
دوسری بات یہ کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت صرف افغانستان ہی اپنا مالِ تجارت بھارت کو واہگہ کے راستے بھیج سکے گا۔معاہدے کو من مرضی کے معنی پہناتے ہوئے بھارت نے موقف بھی اختیار کیا کہ اس معاہدے کی رو سے بھارت بھی اپنا مالِ تجارت افغانستان بھیج سکتا ہے۔ بھارتی سرکار کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے افغانستان نے بھی بھارت کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت بھارت کو بھی اجازت دی جائے کہ وہ اپنا مالِ تجارت بذریعہ واہگہ افغانستان بھیج سکے۔لیکن پاکستان نے بھارتی و افغانی موقف کو مسترد کرتے ہوئے باہمی تجارت کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ دو فریقی معاہدہ تھا نہ کہ سہہ فریقی۔
تیسری بات یہ کہ اس غلط فہمی کو دور کرلیجیے کہ پاکستان نے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت کے جبراً خاتمے پر بطور احتجاج واہگہ باردڑ بند کیا گیا تھا۔جسے اب بلا مشروط کھولا جا رہا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ اس برس مارچ کے وسط میں کرونا وبا کے ہنگام جب پاکستان نے اپنے سرحدی راستے ہمہ قسمی سرگرمیوں کے لیے بند کر دیے تھے تب واہگہ بارڈر کا تجارتی راستہ بھی بند کر دیا گیا تھا۔ اب جبکہ تجارتی سرگرمیاں احتیاطی تدابیر کے تحت دوبارہ شروع ہو رہی ہیں اور سرحدی راستے کھولے جا رہے ہیں، افغانستان کی خصوصی درخواست پر پاکستان نے افغانستان کو مال تجارت بھارت برآمد کرنے کی اجازت دیتے ہوئے واہگہ بارڈر کھولنے کا اعلان کیا ہے۔یہ اعلان پہلے سے جاری تجارتی تسلسل کی بحالی ہے، جس سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مزید بہتری آنے کے امکان ہیں۔
چوتھی بات یہ کہ واہگہ کے راستے افغانستان کو تجارت کی اجازت دینے کے بدلے پاکستان کو بھی تو وسط ایشیا کے ممالک تک افغانستان کے راستے اجازت مل رہی ہے۔وسط ایشیا کے ممالک سے تجارت کے باعث پاکستان کی برآمدات بڑھ رہی ہیں۔جس کے معاشی ثمرات سے ملکی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔
پانچویں اور آخری بات یہ کہ خارجہ پالیسی ہو چاہے معاشی معاملات اس باب میں سطحیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ معروضی حقائق کی بنیاد پر فیصلے لیے جاتے ہیں۔پاکستان کے افغان امن سے مفادات جڑے ہیں۔افغانستان کی معیشت مضبوط ہو گی تبھی وہاں امن کی فصل لہلہائے گی۔اسی لیے پاکستان نے افغانستان کے معاشی فائدے کے لیے واہگہ بارڈر سے تجارت کی اجازت دے رکھی ہے۔اس فیصلے کو جذباتیت و سطحی ردِ عمل کی نذر کرنے کی بجائے بلکہ حقائق کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
تمام تر حقائق کا جائزہ لینے کے بعد واہگہ بارڈر کھولنے کے اعلان پر تنقید درست ہے؟؟ آیا خان اس تناظرمیں مودی کا یار کہلایا جا سکتا ہے؟؟ سادہ سا جواب ہے کہ: بالکل بھی نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد وقاص بن الیاس ڈوگر کے کالمز
-
آہ! حیات بلوچ کی ماورائے عدالت "حیاتی" چھین لی گئی
ہفتہ 22 اگست 2020
-
توہین رسالت کے ملزم کا ماورائےعدالت قتل:مغالطوں کا جائزہ
بدھ 5 اگست 2020
-
واہگہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ:عمران خان مودی کا یار؟؟
بدھ 22 جولائی 2020
-
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر:مغالطوں کا جائزہ اور تجاویز
جمعہ 17 جولائی 2020
-
پانچ جولائی۔بھٹو کی "جمہوریت" سے ضیاء کی" آمریت" تک کا سفر
جمعہ 10 جولائی 2020
-
سید منور حسن۔۔۔ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے!
جمعرات 2 جولائی 2020
-
بڑی تمکنت سے اہل دل اٹھ کے جا رہے ہیں!
اتوار 28 جون 2020
محمد وقاص بن الیاس ڈوگر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.