
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- محمد وقاص بن الیاس ڈوگر
- سید منور حسن۔۔۔ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے!
سید منور حسن۔۔۔ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے!
جمعرات 2 جولائی 2020

محمد وقاص بن الیاس ڈوگر
غضب ہوا آج تو، آفتاب ٹوٹا ہے
(جاری ہے)
ایوب خان کی آمریت کا سورج نصف النہار پر تھا جب منور حسن نے مجاہدانہ بانکپن کے ساتھ طلبہ تحریک کی قیادت کرتے ہوئے آمریت کو للکارا اور اسی پاداش میں جیل کی ہوا کھائی۔ مسلسل تین ادوار جمعیت کے ناظم اعلیٰ رہنے کے بعد سنہ سڑسٹھ میں جب ایوب خان کی آمریت کا جبر تمام ہونے کو تھا تب جماعت اسلامی کے قافلے کا حصہ بنے۔سنہ ستتر کے قبل از وقت منعقد ہونے والے انتخابات میں کراچی کے علاقہ ملیر سے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد "پاکستان نیشنل الائنس"(PNA) کی ٹکٹ پر حصہ لیا۔پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے حلقہ انتخاب سے شاعر و دانشور جمیل الدین عالی کو چالیس ہزار کے مارجن سے ہرانے والے منور حسن نے ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔بعد از الیکشن اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کا غلغلہ بلند کیا۔الیکشن میں دھاندلی کو بنیاد بنا کر بھٹو کے خلاف ملک گیر تحریک چلائی گئی۔"نظام مصطفی" نامی تحریک جو شروع تو الیکشن کے دوبارہ انعقاد واسطے ہوئی تھی لیکن انجام کے طور پر اس کے بطن سے ضیا کے مارشل لا نے جنم لیا۔شومئی قسمت کہ منور حسن انتخاب جیت کر بھی ممبر قومی اسمبلی کا حلف نہ اٹھا سکے۔
نوے کی دہائی میں پہلے جماعت اسلامی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل پھر مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔سادگی کے پیکر سید زادے نے منصورہ مرکز میں سترہ برس تک اپنے فرائض منصبی ایک کمرے پر مشتمل فلیٹ میں رہ کر نبھائے۔ تحریک کے مشن و مقصد سے مخلصانہ لگاؤ، بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر ایک خدا کی غلامی میں لانے کی تڑپ و جستجو اور بغیر کسی لگی لپٹی کے تلخ سے تلخ بات اپنے نستعلیق لہجے میں کہہ دینے والے منور حسن سنہ دو ہزار نو میں جماعت اسلامی کے چوتھے امیر منتخب ہوئے۔
قومی و سماجی ایشوز پہ سیدی دو ٹوک رائے رکھنے والے سیاستدان تھے۔سیاست کی مصلحتوں سے بے نیاز جس موقف کو درست سمجھتے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ گزرتے۔سنہ دو ہزار گیارہ میں سی آئی اے کے ریمنڈ ڈیوس نامی ایجنٹ نے لاہور کی شارع عام پر دو پاکستانی افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ریمنڈ گرفتار ہوا۔کورٹ میں مقدمہ چلا۔امریکہ نے پاکستانی حکام پہ ریمنڈ کی رہائی واسطے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ریمنڈ کے خلاف ملک بھر سے جو توانا آواز اٹھی وہ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کی تھی۔جماعت نے ملک گیر سطح پر مظلوم مقتولین کے حق میں مظاہرے کیے۔لیکن شومئی قسمت کہ ہمارے اداروں کی معاونت سے دیت کی رقم دے کر ریمنڈ ڈیوس چلتا بنا۔
سیدی دنیاوی خداؤں کی قوت و طاقت سے زندگی بھر بے نیاز رہے۔بے خوفی کی زندگی گزارنے والے سیدی طاقت کو دلیل تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔گاہے ریاستی اداروں کی پالیسز پر کڑی تنقید کرتے۔ایسی کہ بہت سے انگشت بہ دنداں رہ جاتے۔مگر کبھی پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائی۔جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ قبائل کی آواز میں آواز ملانے میں سب سے آگے رہے۔ایسے وقت میں کہ جب قومی سیاسی رہنما مصلحت کی چادر تانے خاموشی کو عافیت جانتے، سیدی آگے بڑھے، بلند آہنگ کے ساتھ ریاستی اداروں کی ماورائے عدالت جبری گمشدگیوں اور وحشیانہ سزاؤں کی ڈنکے کی چوٹ پر مخالفت کی۔
نائن الیون کے سانحہ کے بعد امریکہ پھنکارتا، دھاڑتا اور چنگھاڑتا ہوا افغانستان پر چڑھ دوڑا۔لاکھوں لوگ جس کی بربریت کا نشانہ بنے۔وطن عزیز پر مسلط آمر مشرف امریکہ سے رہ و رسم بڑھانے واسطے جنگ میں اتحادی بن کر صف اول میں جا ٹھہرا۔افعانیوں کے قتل عام میں ملوث امریکہ کی ہر حوالے سے سہولت کاری کی۔امریکہ کے صف اول کے اتحادی ہونے کے سبب افغانستان پر مسلط نیٹو افواج کو سپلائی واسطے راہداری اور ہوائی اڈے مہیا کیے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی امریکی ڈرون حملے شروع ہو گئے۔جن میں سیکڑوں معصوم پاکستانی لقمہ اجل بنتے رہے۔ڈرون حملوں پر حکومتی موقف مرعوبیت اور مصلحت پر مبنی ہوتا۔ڈرون حملوں کے خلاف اٹھنے والی توانا آوازوں میں سید کی آواز بھی گونجتی رہی۔مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کہاں سنی جاتی ہے؟؟ قبائلی علاقوں میں امریکی آشیرباد سے ہونے والے فوجی آپریشنز کی بھی سیدی نے بلاخوف وخطر مخالفت کی۔موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے تسلسل کے ساتھ حالیہ بیانات کہ ہم نے افغانستان کے خلاف امریکہ کا اتحادی بن کر غلطی کی۔ سیدی کے موقف کی تائید ہے کہ امریکی مفادات کی تکمیل کرتی جنگ کبھی ہماری تھی ہی نہیں۔بلکہ ہم "کرائے کے بدمعاش" کا کردار ادا کرتے رہے۔
سیدی عملاً اس شعر کی تجسیم تھے کہ
نہ اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزند
خدا خوفی، تقوی و للہیت اور جماعت سے قلبی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ دوران امارت جماعت اسلامی بیٹی پیا گھر سدھار گئی۔شادی کی تقریبات میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔دلہن کو بیش قیمت تحائف سے نوازا گیا۔تقریب کے اختتام پر سید منور حسن نے سید زادی کو بلا بھیجا۔پوچھا کہ تمہیں یہ تحائف تمہارے والد کی وجہ سے ملے ہیں یا جماعت اسلامی کے امیر کی بدولت؟ ۔سید زادی بات کی گہرائی سمجھ گئی۔کیوں نہ سمجھتی کہ جس کی تربیت ہی سید منور حسن جیسے والد نے کی ہو۔بیٹی نے جواب دیا کہ امیر جماعت اسلامی کی وجہ سے۔کہا کہ بیٹا پھر یہ تحائف بھی جماعت کا اثاثہ ہیں۔ہمارا ان تحائف پر کوئی حق نہیں۔سید زادی نے جھکی نظروں کے ساتھ سبھی تحائف بابا کی جھولی میں ڈال دیے۔جنہیں جماعت اسلامی کے حوالے کر دیا گیا۔کرادر کی عظمت کی ایسی مثال کیا ہمیں اپنے ارد گرد دکھائی دیتی ہے؟جب جب سید کی زندگی کے ایسے واقعات پڑھتا ہوں یقین جانیے تب تب شدت سے احساس ہوتا ہے کہ سید قرون اولی کے حسینی قافلے کا بچھڑا ہوا فرد تھے۔جسے ہمارے عہد نامراد میں زندگی بیتانا پڑی۔
جمعہ کے روز کارل مارکس کی غلامی سے محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم کی غلامی تک کا سید منور حسن کا سفر اختتام کو پہنچا۔رب کی بندگی میں زندگی بیتانے والا اپنے رب کے پاس پہنچ چکا ۔کم لوگ ہوتے ہیں جن سے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ "عجب آزاد مرد تھا" ۔سیدی واقعتاً اُنہیں میں سے ایک تھے۔خداوندسیدی کے آئندہ کے مراحل آسان کرے۔آمین
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد وقاص بن الیاس ڈوگر کے کالمز
-
آہ! حیات بلوچ کی ماورائے عدالت "حیاتی" چھین لی گئی
ہفتہ 22 اگست 2020
-
توہین رسالت کے ملزم کا ماورائےعدالت قتل:مغالطوں کا جائزہ
بدھ 5 اگست 2020
-
واہگہ بارڈر کھولنے کا فیصلہ:عمران خان مودی کا یار؟؟
بدھ 22 جولائی 2020
-
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر:مغالطوں کا جائزہ اور تجاویز
جمعہ 17 جولائی 2020
-
پانچ جولائی۔بھٹو کی "جمہوریت" سے ضیاء کی" آمریت" تک کا سفر
جمعہ 10 جولائی 2020
-
سید منور حسن۔۔۔ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے!
جمعرات 2 جولائی 2020
-
بڑی تمکنت سے اہل دل اٹھ کے جا رہے ہیں!
اتوار 28 جون 2020
محمد وقاص بن الیاس ڈوگر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.