فلسطین ِکربلاکے نہتے مسلمان

ہفتہ 22 مئی 2021

Mumtaz Abbas Shigri

ممتاز عباس شگری

میں ہمیشہ رسک پرکھڑی ہوں میں کچھ بھی نہیں کرسکتی،آپ یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں آپ مجھ سے کیاکرنے کی توقع کرسکتے ہیں یہ سب کچھ ٹھیک کردوں؟میں صرف دس سال کی ہوں میں یہاں موجودکسی چیزسے نمٹ نہیں سکتی،میں ڈاکٹربنناچاہتی ہوں تاکہ میں اپنے لوگوں کی خدمت کرسکوں لیکن میں کیاکروں میں ایک چھوٹی بچی ہوں میں نہیں جانتی مجھے کیاکرناچاہیے میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوں لیکن لیکن اتناکافی نہیں میں اپنے لوگوں کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکتی،میں نہیں جانتی مجھے کیاکرناچاہیے ،میں صرف دس سال کی ہوں ہاں صرف دس سال کی،جب میں اس دردناک منظرکودیکھتی ہوں توہرروزچیخ چیخ کرروتی ہوں میں اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ میں ان سب کامستحق کیسے ہوسکتی ہوں؟لیکن کربھی کیاسکتے ہیں ۔

میراباپ کہتاہے کہ وہ صرف ہم سے اس لیے نفرت کرتاہے کہ ہم مسلمان ہے ،لیکن مسلمان کبھی بھی تم لوگوں کے ساتھ ایسارویہ نہیں رکھیں گے آپ میرے اردگردان چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کودیکھ سکتے ہیں آخران کومیزائل سے ختم کرناکیوں چاہتے ہو،یہ قطعادرست نہیں ہاں یہ بالکل بھی درست نہیں۔

(جاری ہے)

یہ الفاظ تھے فلسطین کے دس سالہ چھوٹی معصوم بچی کی،جس کی ویڈیواب تک دنیابھرمیں لاکھوں کروڑوں مرتبہ دیکھی جاچکی ہے،یہ ویڈیواقوام متحدہ سمیت ستاون اسلامی ممالک کی اتحادکے منہ پرطمانچہ ہے، میں فلسطین کی لڑائی کی اصل حقائق کوسامنے رکھنے سے پہلے ایک ماں کی فریادکوآپ کے سامنے رکھناچاہتاہوں۔

یہ خیال کہ اگلامیزائل آکرمیرے گھرپرگرے گا،اس خوف کے الفاظ کولفظوں میں بیان کرنامشکل ہے ،ایک ہی لمحے میں آپ بمباری کے درمیان ہوسکتے ہیں جوجگہ آپ کیلئے محفوظ ترین ہے وہ کروٹ بدلتے ہی آپ کاقبربن سکتی ہے میں اپنے بچوں کواردگردہونے والی پرتشددواقعات کے بارے میں کیسے بتاوں ،میں پانچ بچوں کی ماں ہوں میں پچھلے کئی سالوں سے غزہ کی پٹی کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں رہتی ہوں اس انتہائی گنجان آبادغزہ کی پٹی میں 18لاکھ لوگ رہائش پذیرہے،میں نے اپنے بچوں کوکچھ بھی کہنابندکردیاہے مگرہماراخوف چھپانااتناآسان نہیں ،ہمیں نہیں معلوم کہ یہ جگہ محفوظ ہے کہ نہیں۔

اگرمیں بچوں کونہ بھی بتاوں تب بھی وہ سوشل میڈیاپرمختلف ویڈیوزاورتصویریں دیکھتے ہیں کہ ہرجگہ تباہی ہی تباہی ہے،مجھے نہیں معلوم کہ ان روزروزکی لڑائیوں سے میرے بچوں کی ذہنی صحت پرکیااثرپڑرہاہے لیکن میں مجبورہوں میں کچھ بھی نہیں کرسکتی ہے ،یہ ایک فلسطینی ماں نجوہ کی فریادہے ۔
آپ کومعلوم ہوگاکہ پچھلے کئی دنوں سے اسرائیل اورفلسطین کے درمیان لڑائی جاری ہے جس کی وجہ سے اب تک 61بچوں اور36خواتین سمیت 212فلسطینی شہیدہوچکے ہیں اور1300سوسے زائدزخمی حالت میں ہے جبکہ میڈیاہاوس سمیت کئی عمارتیں دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈربن چکی ہے ،لیکن یہ تنازعہ کافی پرانی ہے پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعدبرطانیہ نے فلسطینی خطے کاکنڑول سنبھال لیاتھااس وقت وہاں پرایک عرب اکثریت میں جبکہ یہودی اقلیت میں موجودتھے،دونوں برادریوں میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگادی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں ’قومی گھر‘ کی تشکیل کریں۔

یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی،1920 کی دہائی سے لے کر 1940 کی دہائی کے دوران یہاں آنے والے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے،مگر اس دوران یہودیوں اور عربوں کے درمیان اور برطانوی حکومت کے خلاف پُرتشدد واقعات بڑھنے لگے۔

سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔اس تجویز کو یہودی رہنماؤں نے تسلیم کر لیا جبکہ عربوں نے بکثرت مسترد کر دیا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔سنہ 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گیے۔

ادھر یہودی رہنماؤں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔بہت سے فلسطینیوں نے اس کی مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی۔ ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اس جنگ میں حصہ لی۔لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا اور انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑایہ سلسلہ یوں ہی جاری وساری تھا، لیکن گزشتہ دنوں متعددفلسطینیوں کومقبوضہ بیت المقدس میں ان کے گھروں سے بے دخل کئے جانے سے حالات نہایت ہی سنگین ہوگئی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیاکی توجہ ایک بارپھرفلسطین اوراسرائیل کی جانب مڑگئی ہے ،موجودہ حالات کے تناظرمیں یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ لاکھوں پناہ گزیزفلسطینیوں کااصل مستقبل کیاہوگا، عرب اردن میں یہودی بستیاں رہے گی یانہیں رہے گی،کیایہ دنوں فریق بیت المقدس میں اکھٹے رہ سکیں گے جوکہ تقریباناممکن ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کاقبلہ اول ہے اورمسلمان کسی بھی صورت قبلہ اول سے دستبرداری یاکسی کی شراکت داری نہیں چاہتے،اورکیااسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بن سکتی ہے جوکہ بالکل ناممکن ہے مسلمان کسی بھی صورت ایک یہودونصاری کے ساتھ ایک ہی ریاست میں اکھٹارہنے کوترجیح نہیں دیں گے ۔

گزشتہ پچیس سالوں سے اس معاملے کوسلجھانے کیلئے امن مذاکرات ہوتے رہے ہیں تاہم اب تک کوئی بھی حل نہیں نکل سکا۔
ہماراالمیہ ہے ہماری حکومتوں نے اب تک مذمت کے علاوہ کچھ نہیں کیاہم نے گزشتہ دنوں ایک بارپھرلفظی مذمت کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے ،اس آگ کوسلجھانے کیلئے اقوام متحدہ نے بھی اجلاس طلب کیاجس میں جنگ بندی پرزوردیاگیالیکن بغیرکسی نتیجے کے ختم ہوگیا،امریکہ جوکہ ایک طرف سے اسرائیل کوسپورٹ کرتاہے ا نہوں نے حال ہی میں اسرائیل کو735ملین ڈالرکے اسلحے کی فروخت کی منظوری بھی دی ہے امریکہ کبھی نہیں چاہتاکہ جنگ بندی ہو،ادھراسلامی ریاستوں کے ٹھیکداروں کاحال بھی کسی سے کم نہیں اوآئی سی کااجلاس بھی بغیرکسی نتیجے کے ختم ہوگیا،ترک صدرطیب اردگان جس کواسلامی ممالک کاسب سے طاقتورصدرماناجاتاہے وہ بھی فلسطینیوں کی نسل کشی پرخاموشی کے سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں ،آخروہ چاہتے کیاہے ،وہ ایک طرف اسرائیل کوتسلیم کرکے تجارت کی فروغ کیلئے کام کرتاہے تودوسری طرف مسلمان ہونے کادعوی کرتاہے، آخر57اسلامی ملکوں کی باہمی فوج کہاں سوئی ہوئی ہے اس فوج کے کمانڈرکونظرنہیں آرہی کہہ فلسطین کے نہکتے شہری انہیں ہل من الناس کی صدادے رہی ہے،آخریہ باہمی فوج کس بلاکانام ہے کیاسعودیہ کی دفاع کیلئے بنائی ہے جوکہ امریکہ کے ساتھ مل کراسرائیل کوسپورٹ کررہاہے۔


آپ یقین کرلیں فلسطینیو ں کی نظرایک بارپھرپاکستان ،ایران سمیت اسلامی ملکوں پرمرکوزہے انہیں بخوبی علم ہے بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح نے اسرائیل کی ناپاک وجودکوتسلیم کرنے سے انکارکیاتھااوریہ قوم اب بھی اسی فیصلے پربرسرپیکارہے ، فلسطین کے نہتے شہری پاکستان سے آس لگائے بیٹھے ہوئے ہیں،آج پھرسے ایک اورکربلاہمیں ہل من الناس کی صدادے رہی ہے سرزمین الگ ہے لیکن صداحق بلندہورہی ہے اب ہم پرمنحصرہے کہ ہم کیاکریں گے،ہماری حکومت کم ازکم عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف کیس توکرسکتاہے کم زکم اسلامی ممالک سمیت امریکہ جس کواپناحامی سمجھتے ہیں ان سے فلسطین کی نسل کشی روکنے کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیے جاسکتے ہیں،اگرہم آج بھی ان کی آوازپرلبیک نہیں کہیں گے توفلسطین ِکربلاکے معصوموں کی بدعائیں لگنے میں دیرنہیں لگے گی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :