اک روئی سی دھی پنجاب دی

جمعرات 9 اپریل 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

تقسیم برصغیر کے تناظر میں اگر پنجابی ادب کاجائزہ لیا جائے تو دونام اور دو نظموں کا تذکرہ نہ کرنا ادب اور شخصیات کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب ہوگا۔سرفہرست امرتا پریتم کی اج آکھاں وارث شاہ نوں،جو کہ 1947 کی تقسیم کے تناظر میں لکھی گئی تھی۔
اج آکھا وارث شاہ نوں کتو ں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقا بھول
اک روئی سے دھی پنجاب دی تو لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کیہن
دوسرانام استاد دامن کا ہے جنہوں نے 1947 کے بعد پہلے پاک ہند مشاعرہ میں نہرو کے سامنے یہ نظم سنا کر مجمع کو آبدیدہ کردیا کہ
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او،تروئے اسی وی آں
مذکور دونوں نظموں کو قارئین تک پہنچانے کا مقصد یہ تھا کہ کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،اس کے ثمرات کا تو پتہ نہیں البتہ اثرات خصوصاً ترقی پذیر اور غریب ممالک میں تو ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)

دو عشروں کے لاک ڈاؤن نے غریب کے گھر کا چولہا ٹھنڈا تو کیا ہی ہے،بھوک افلاس نے سفید پوشوں کے بھرم کو برہنہ تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ حکومت کی پالیسیوں اور حکمت عملی کو بھی دنیا کے سامنے ظاہر کردیا ہے۔مثلا کرونا وائرس کوئی ایک ماہ سے پاکستان میں اپنے پنجے مضبوط کئے جا رہا ہے لیکن ابھی تک حزب اقتدار اور مخالف اس بحث وتمحیص میں ہیں کہ راشن کیسے دیا جائے غربا تک رقم کیسے پہنچائی جائے۔

اگرچہ آئے روز حکومت کا کوئی نہ کوئی نمائندہ ٹی وی پر پریس کانفرنس کر کے بتا رہا ہوتا ہے کہ عنقریب جو وزیراعظم نے آٹھ ارب رقم مختص کی ہے غریبوں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائے گا۔دیکھئے اونٹ کس کروٹ اور کب بیٹھتا ہے۔
وزیراعظم نے رقم مختص کردی،ٹرانسفر کا بھی حکم جاری کردیا،ٹائیگر فورس کا بھی بتا دیا کہ کوئی آٹھ لاکھ نوجوان اس فورس کا حصہ بننے جا رہے ہیں،عثمان ڈار اور وزیراعظم کی اس سلسلہ میں ملاقات بھی ہو چکی ہے،وزیراعظم صاحب کو اس بات کا یقین بھی دلا دیا ہوگا کہ سر بہت جلد ہم یہ رقم اور راشن تقسیم کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں گے۔

اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو،کیونکہ وزیراعظم کی ایمانداری،محنت اور یقین پر مجھے یقین کامل ہے کہ وہ جو بھی کریں گے شفاف اور اخلاص کے ساتھ کریں گے۔لیکن سوال یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ڈاٹا لے کر اب تک حکومت کیا کررہی تھی کم از کم ان غربا تک تو بارہ ہزار روپے ٹرانسفر کئے جا سکتے تھے،ہرمحلہ سے سابق کونسلر کی مدد سے علاقہ کے غربا تک راشن تقسیم کیا جا سکتا تھا،اساتذہ اور سرکاری ملازمیں کے ذریعے سے یونین کونسلز تک پہنچا جا سکتا تھا۔

کیونکہ خان صاحب خود پنچائت سسٹم اور یونین کونسلز کی بات کرتے رہے ہیں کہ جب تک ہم مقامی حکومتوں کو پاورفل نہیں بنائیں گے ترقی نہیں کرپائیں گے،اب جب کہ قدرت نے موقع فراہم کیا ہے تو پھر سب سے پہلے ان غریب عوام کا سوچنا چاہئے تھا جو آپ سے پہلے دن ہی سے امید جوڑے بیٹھے تھے۔چلئے دیر آئد ہمیشہ درست آئد ہی ہوتا ہے،کل ہی ثانیہ نشتر نے اعلان فرما دیا ہے کہ جمعرات سے رقم ٹرانسفر کا سلسہ شروع کردیا جائے گا،راشن بھی تقسیم کرنا شروع کردیا ہے،مگر مجھے خدشہ صرف یہ ہے کہ نظام میں شفافیت اور اخلاص کو کیسے شامل حال اور چیک کیا جائے گا۔

اصل مسئلہ مسائل کی جانکاری نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لئے جڑوں تک پہنچنا ہوتا ہے،ظاہر ہے ہمیشہ کہ طرح یہ کام بھی سرکاری ملازمین ہی کریں گے،اور سرکاری ملازمین سے میری یہاں مراد خالصتا بیوروکریسی ہے اور افسر شاہی کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں کہ شاہ تو شاہ ہی ہوتا ہے جن کے بارے میں چانکیہ نے اپنی مشہورزمانہ کتاب ارتھ شاستر میں لکھا ہے کہ
”جس طرح شہد کو زبان کی نوک پر رکھ کر چکھے بغیر چھوڑ دینا ناممکن ہے اسی طرح سرکاری ملازم کے لئے ناممکن ہے کہ وہ سرکاری مال سے تھوڑا سا نہ چکھے،جس طرح مچھلی پانی میں ہو تو اس کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ پانی پی رہی ہے کہ نہیں۔


کیونکہ شرفا،امرا اور حکمران وہ طبقہ ہوتے ہیں جو غریبوں کی قدر صرف الیکشن کے دنوں میں کرتے ہیں،زمانہ الیکشن میں جس غریب کو غفار صاحب کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے نتیجہ آتے ہی وہ غفار صاحب سے سیدھا ،فارا ہو جاتا ہے۔ویسے منٹو نے ان کے بارے میں بجا ہی لکھا تھا کہ
”حکمران جن کے سر پر مکھی بھی نہیں بیٹھتی وہ معاشرے کے بھوکے ننگے ،غلاظت کے ڈھیر پہ بیٹھے لوگوں کا درد کسیے سمجھ سکیں گے“
بات تو سچ ہے کہ ایک امیر کیوں غریب کی فلاح کی بات کرے گا،فیوڈل اپنے ہاری کے بچے کو تعلیم کے شعور اور آگہی سے کیوں نوازے گا،سرمایہ دار ایک مزدور کی ترقی کو کیسے برداشت کرپائیگا،سڑک پر کام کرنے والے کو سیٹھ اپنے گھر کی چار دیواری میں کیوں داخل ہونے کی اجازت دے گا،شیش محل میں مسکن پذیر انا پرست پتھر توڑنے والنے کو اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت کس لئے مرحمت فرمائے گا۔

اسی لئے میرا خیال ہے جو تن لاگے سو تن جانے۔یہی وقت ہے وزیراعظم کے امتحان کا کہ وہ اپنے جاری کردہ فنڈ اور قائم کردہ ریلیف فنڈ کی تقسیم کے عمل کو کیسے شفاف اور کرپشن سے پاک بناتے ہیں۔یہ ان کے لئے کڑا امتحان ہے،اس لئے کہ ماضی میں جب کبھی ایسا کوئی پروگرام بنا میں نے تو احمد ندیم قاسمی کے ان اشعار کی عملی تفسیر ہی دیکھی ہے۔
مال چوری کا جو تقسیم کیا چوروں نے
نصف تو بٹ گیا بستی کے نگہبانوں میں
کون تاریخ کے اس صدق کو جھٹلائے گا
خیر وشر مقید ہیں زندانوں میں
لیکن میں قنوطیت پرست نہیں ہوں بلکہ ہمیشہ رجائیت پسند رہا ہوں تو مجھے اس حکومت سے ضرور توقع ہے کہ تقسیم کے اس عمل میں شفافیت اور اخلاص کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور سابق حکومتوں کی طرح اپنوں کو نوازنے یا اقربا پروری سے احتیاط برتیں گے،انشا اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :