مٹھا مٹھا ہپ

بدھ 18 نومبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

پنجابی زبان جو کہ میری ماں بولی بھی ہے اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ بولنے اور سننے میں میٹھی و شیریں تو ہے ہی،سمجھنے میں بھی سہل اور آسان ہے۔میرا ایک مرحوم دوست ڈاکٹر عنائت کہا کرتا تھا کہ جو مزا ”سواد“کا پنجابی زبان میں ادا کرنے میں آتا ہے کسی اور زبان میں کہاں؟اسی زبان کا ایک مشہور اکھان ہے کہ ”مٹھا مٹھا ہپ تے کڑوا کڑوا تھو“۔

یعنی جہاں سے فائدہ مل رہا ہو وہاں سے فائدہ اٹھالے اور جس گلی سے گزرنے میں نقصان ہونے کا اندیشہ ہو وہاں کہ راہ کبھی اختیار نہ کرو۔مجھے یہ اکھان بی بی مریم نواز شریف کے اس بیانیہ سے یاد آگیا جس میں انہوں نے اظہار فرمایا ہے کہ ہم افوج پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے یا تعاون کرنے کو تیار ہیں لیکن عمران خان کو نکال کر۔

(جاری ہے)

یعنی اگرعمران کی حکومت گرا کر انہیں حکومت عطا کر دی جائے تو پھر افواج پاکستان بھی درست ہے اور ان کے کئے گئے فیصلے بھی صحیح،گویا بنئے کا بیٹا بن کر حکومت فوج کا ساتھ دیا جائے۔

بنئے کے بیٹے کا قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ
بازار میں بنئے کا بیٹا ہاتھ میں تیل کا مرتبان اٹھائے جا رہا تھا کہ ایسے میں اسے زمین پر ایک درہم کا سکہ دکھائی دیا۔ظاہر ہے بنئے کا بیٹا تھا اس نے سوچا کہ اس سکہ کو کس طرح سے زمین سے اٹھاؤں کہ راہ گیروں کو بھی پتہ نہ چل سکے ،اس نے سکے کے اوپر پاؤں رکھا اور سوچنے لگا کہ اسے کس طرح سے اس سکہ کو حاصل کرنا ہے لہذا،بنئے کے بیٹے نے حساب لگایا کہ اس کے پاس جو تیل کا مرتبان ہے وہ اور تیل دونوں کو ملا کر بھی کل قیمت آدھے درہم کے برابر بھی نہیں بنتی ،تو کیوں نہ خود کو گرا کر مرتبان کی ٹھیکریاں اٹھانے کے بہانے درہم کو بھی اٹھا لیا جائے۔

اس نے ایسا ہی کیا خود کوزمین پر گرا لیا اور مرتبان کے ٹوٹنے پر اس کی ٹھیکریاں اٹھانے کے بہانے اس درہم کو بھی انہیں ٹھیکریوں میں شامل کر کے گھر کی راہ لینے لگا۔یہ صورت حال دیکھ کر ایک راہ گیر نے جلدی سے اس کے باپ کو جا کر بتایا کہ تمہارے بیٹے نے تیل کا مرتبان گرا کر تمہارا بہت نقصان کیا ہے ،جس پر بنئے نے جواب دیا کہ میرا بیٹا ہے کچھ دیکھ کر ہی گرا ہوگا۔

وہی ہوا جب بنئے کا بیٹا گھر آیا تو باپ کے پوچھنے پر اس نے سارا ماجرا سنا ڈالا۔جب بنئے نے بیٹے کی بات سنی تو اس راہگیر کو جو شکائت لے کر آیاتھا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نا کہتا تھا کہ بنئے کا بیٹا ہے کچھ دیکھ کر ہی گرا ہوگا“
ظاہر ہے مریم بی بی بھی ایک سیاستدان کی بیٹی ہے اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کچھ دیکھ کر ہی گری ہو گی۔

کیونکہ نواز شریف بھی اسی فوج کی گود میں بیٹھ کر عملی سیاست میں آیا تھا۔آج جب کسی کام کا نہیں رہا تو اپنی بیٹی کے مستقبل کی خاطر اسی فوج کے خلاف طرح طرح کے بیانات سے ادارہ کو بدنام کرنے کی گھناؤننی سازشیں کرتا پھر رہا ہے۔شائد وہ یہ بات بھول گیا کہ سمندر میں رہ کر مگرمچھ سے بیر نہیں رکھا جاتا۔مریم کے اس بیان سے لگتا ہے کہ اس نے مذکور دونوں ضرب الامثال کی حقیقت کو پالیا ہے اسی لئے تو اس نے اپنا بیانیہ تبدیل کر لیا ہے کہ وہ بھی افواج کا ساتھ دے سکتی ہے اگر عمران خان حکومت سے الگ ہو جائیں۔

گویا مریم بی بی نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ مجھے بکنا تو ہے لیکن اپنی قیمت پر۔بی بی جی پاکستانی سیاست میں ایسا نہیں ہوتا ۔یہاں اگر بکنا ہے تو دوسروں کی مرضی کی قیمت پر ہی بکنا ہے۔تاہم مریم کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے کہیں نا کہیں یہ سوچ لیا ہے کہ اگر پاکستانی سیاست میں رہنا ہے تو اداروں کی مخالفت مول نہیں لی جائی جا سکتی۔


ویسے کیا عجب سیاست اور خاندان ہے کہ باپ کچھ بیان دیتا ہے،مریم کچھ اور،بیٹے جن کے پاس پاکستان کی قومیت بھی اب نہیں ہے وہ بھی اپنا بیانیہ جاری فرماتے رہتے ہیں،زبیر عمر کی ملاقاتوں کا مطلب کچھ اور لیا جاتا ہے۔پارٹی ترجمان کا بیانیہ سب سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔لہذا میری بی بی مریم اور اس کی پارٹی سے درخواست ہے کہ پہلے مل بیٹھ کرفائنل کر لیں کہ کس نے کیا بیان جاری کرنا ہے۔

پہلے ووٹ کو عزت دینا ہے یا کورٹ کا احترام کرنا ہے۔یا پھر بوٹ کو پالش کرنا ہے کیونکہ یہ بات بھی مریم بی بی نے ہی ایک انٹرویو میں کہی تھی کہ ان سے بہتر کوئی بوٹ پالش نہیں کر سکتا۔اس مین کوئی دو رائے ہونی بھی نہیں چاہئے کیونکہ میاں صاحب بھی تو اس ادارے کے ذریعے سے حکومت میں آئے تھے،گویا یہ تو ان کا خاندانی کام پھر ہو گیا ۔ظاہر ہے مریم بی بی پھر ٹھیک ہی کہتی ہے کہ ان سے بہتر یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔

مگر کون سی ایسی بات ہے جو مانع ہے۔یا پھر آپ بوٹ پالش کرنا چاہتے تو ہیں لیکن اپنی مرضی کی پالش کے ساتھ،نہیں بی بی ایسا پالش کرنے میں نہیں بلکہ مالش کرنے میں ہوتا ہے۔اگر ایسا کرنا ہی ہے تو پھر ڈر کس بات کا۔کھل کر سامنے آجائیں جیسا کہ آپ عمران خان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں کہ یہ سلیکٹڈ ہے۔لیکن تھوڑی دیر کے لئے سوچنا ضرور کہ اگر آپ بھی عمران خان کی طرح ہی حکومت میں آئیں گی تو کیا آپ کی حکومت جمہوری ہوگی؟اس لئے بی بی ذہن میں رکھیں کہ
مرحلہ بیچ کا نہیں ہوتا
پیار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :