موقف اور زبان

بدھ 10 فروری 2021

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

بزرگ کہا کرتے تھے کہ میں نے جو زبان دے دی ہے اب یہ کٹ تو سکتی ہے لیکن زبان سے پھرا نہیں جا سکتا۔اور ان بزرگوں کے منہ سے ادا کئے گئے الفاظ ہی ان کا وعدہ،یقین اور موقف ہوا کرتا تھا۔گویا جو وعدہ زبان سے ادا ہو گیا ،جو کلمات زبان سے ادا کر دئے گئے ان پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا۔اسی لئے وہ زبان سے مکرنے پر سر کٹوانے کو ترجیح دیتے،کہ اب جان تو جا سکتی ہے لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔

زمانہ بدلا تو زمانے کے انداز،طور اطوار اور انسانی نفسیات بھی تبدیل ہو گئی۔ہم نے موقف اور زبان کو الگ الگ معنوں میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔گویا زبان کچھ اور،موقف کچھ اور اور وعدہ کی تو خیر کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔یہ انداز ہمارے لوگوں نے خاص کر سیاستدانوں نے اس وقت اپنایا جب انہوں نے اپنے مفادات کی خاطرلفظوں کو بھی انسانوں کی طرح غلام بنا لیا۔

(جاری ہے)

یعنی یہ میرا اخلاقی موقف ہے،یہ آئینی اور یہ سیاسی موقف ہے۔گویا ایک ہی بات اگر ان کے حق میں ہو تو اخلاقی اور اگر خدانخواستہ ان کے خلاف چلی جائے تو ان کا سیاسی موقف قرار پاتا ہے۔بھائی صاحب سچ تو سچ ہی ہوتا ہے اور جھوٹ تو جھوٹ ہی ہے۔آپ بائیس کروڑ عوام کے سامنے اپنا کوئی موقف پیش کر کے اپنے اس جھوٹ کو کیسے سچا ثابت کر سکتے ہیں،جبکہ آپ اسلامی شعار اور اسلام کے پرچارک ہوں۔

جھوٹ کیا سیاسی بیان بن کر سچ ہو جاتا ہے۔خدا کے لئے عوام کو ایسے مسائل میں نہ الجھائیں کہ وہ آپ کے جھوٹ کو سیاسی موقف سمجھ کر سچ ماننا شروع کر دیں۔جھوٹ بالآخر جھوٹ ہے خواہ سیاست میں ہو یا مسجد میں بیٹھ کر بولا جائے۔
اس تمہید کا مقصد حزب اختلاف کے اس موقف کو عوام کے سامنے رکھنا ہے جس میں انہوں نے اپنا موقف کہتے ہوئے عوام کے سامنے پیش کیا کہ ہم افواج پاکستان یعنی ان لوگوں کے خلاف ہیں جو عمران خان کولائے ہیں۔

لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ عوام اس موقف کو جھوٹ سمجھ رہے ہیں اور اس کے پیچھے چھپے ہوئے عزائم کو پسندیدگی سے نہیں دیکھ رہے۔لہذا لاہور جلسہ کے بعد ہی حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں یا الائنس کو اپنے اس موقف کو یہ کہہ کر بدلنا پڑا کہ ہم ادارے کے تمام ملازمین کے نہیں بس دو لوگوں کے ہی خلاف ہیں۔گویا پوری فوج سے موقف بدل کر دو افسران تک محدود ہوگیا۔

پھر اچانک سے کیا ہوا کہ ایک نیا موقف سامنے آگیا کہ اگر عمران خان حکومت کو گھر نہ بھیجا گیا تو راولپنڈی کا رخ کیا جائے گا۔جو اس بات کا کھلا اشارہ تھا کہ ہیڈ کوارٹر کا گھیراؤ کیا جائے گا۔لیکن حزب مخالف کو ایک بار پھر سے اپنی زبان سے مرنا پڑا کہ ہمارا مقصد قطعی طور پر ہیڈ کوارٹر نہیں تھا بلکہ راولپنڈی میں اور بھی کئی مقامات ہیں جہاں دھرنا دیا جا سکتا ہے جیسے کہ لیاقت باغ وغیرہ۔


لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی آئین اور قانون کو ایک بار پھر سے بیانات کی بھینٹ چڑھا کر موقف پیش کیا گیا کہ ہمارا مقصد صرف اور صرف عمران حکومت کو ہی گرانا تھا کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ یہ قبضہ حکومت ہے۔عوام کا مینڈیٹ اس نے چرایا ہے۔لہذا ہمیں عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئیآئین کی پاسداری اور عوام کی خاطر لانگ مارچ کا لائحہ عمل اپنانا پڑ رہا ہے۔

اگر عمران خان حکومت مستعفٰی نہیں ہوتی تو پھر اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا جا ئے گا۔گویا ہر لحاظ سے حکومت کو گھر بھیجنا ہی بھینا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل جتنے دعوے اور وعدے کئے تھے وہ ان کی پہنچ اور طاقت سے کہیں زیاد تھے۔یوں دکھائی دیتا تھا جیسے کہ جادو کی چھڑی گھمائی جائے گی،الف لیلی داستان کا سا ماحول پیدا ہوگا،لوگ رات کو سوئیں گے جب صبح دم بیدار ہوں گے تو ہر سو دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔

لیکن ایسا نہیں ہوا،مہنگائی ہوئی،افرا تفری کا ماحول پیدا ہوا،پٹرول مہنگا ہوا،لا قانونیت ویسی ہی ہے جیسی سابقہ حکومتوں یں دیکھنے میں آتی تھی۔لیکن پھر کیا ہوا کہ قدرت کی طرف کچھ ایسا ہوا کہ حکومت کو اللہ کی مدد شامل ہوئی اوراشیا واپس اپنی اصل کی طرف آنا دکھائی دے رہی ہے۔عمران خان نے جو زبان قوم کو دی تھی اس کی پاسداری کے لئے اسے الٹے قدموں چلنا پڑا اور اب حالات بہتر دکھائی دینے لگے ہیں۔

جو موقف عمران خان کا دو سال قبل تھا اب بھی وہی ہے لیکن کیا ہے کہ اسے اب اپنے موقف کی بنا پر قوم کو زبان دیتے ہوئے ذرا سوچنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اب جان گیا ہے کہ ہاتھوں سے دی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔
اب ایک موقف اور زبان ہماری پی ڈی ایم نے بھی دی تھی۔اور پھر کئی بار کوقف تبدیل ہوا اور کتنی بار زبان سے پھرنا پڑا۔جس کا تذکرہ اوپر کر چکا ہوں۔

ایسا کرنے سے حکومت کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔حزب اختلاف نے اپنے ہی موقف کو کمزور کیا ہے۔اگر شروع دن سے ہی اپنے موقف کو اپنی ضمیر کی دی ہوئی زبان بنا کر قوم کے سامنے پیش کرتے اور پھر اس پر ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے تو مستقبل میں تاریخ ہو جاتی کہ کسی مرد آہن نے ملک اور قوم کو بچانے کے لئے جو کہا وہ کر کے دکھایا۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔اپنی زبان سے مکرنے اور بار بار موقف تبدیل کرنے کی بنا پر اتحادیوں نے اپنا وقاراور عوام کا اعتماد کھو دیا ہے۔یاد رکھئے کھویا ہوا اعتبار کبھی واپس نہیں آیا کرتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :