شیخ رشید کے نام

جمعرات 18 فروری 2021

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

دو بچوں کے درمیان ریس کا مقابلہ ہونے والا تھا۔جن میں سے ایک مضبوط و توانا جبکہ دوسرا بچہ تھوڑا کمزور تھا۔اختتام پر دونوں کے والدین اپنے اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کھڑے تھے۔تماشائیوں کو حیرت اس وقت ہوئی جب توانا بچہ نے ایک دم سے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ریفری نے جب اس بچہ سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ سر میرے ساتھ جو ریس لگانا والا بچہ ہے وہ شیخوں کا بچہ ہے اور اس کا والد اختتامی لائن پر دس روپے کا نوٹ لئے کھڑا ہے تو میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میں جتنی بھی کوشش کرلوں،میرا مقابل شیخ بچہ دس روپے کے لئے جان کی بازی لگا کر بھی یہ ریس جیت جائے گا۔


اس تمہید کا مقصد صرف یہ تھا کہ شیخ رشید جن کا دعویٰ ہے کہ وہ سولہویں وزارت کا منصب سنبھال چکے ہیں اورجب سے انہوں نے یہ وزارت سنبھالی ہے حسب سابق دبنگ دعوے اور اعلانات کی بھرمار نے ایک بار پھر عوام کو دھوکے میں مبتلا کردیا۔

(جاری ہے)

عوام اب بھی سمجھ رہی ہے کہ شیخ صاحب سچ بول رہے ہیں،اور جو اعلانات انہوں نے کئے ہیں ان پر عمل پیرائی جادوئی چھڑی کی طرح فورا سے قبل ہو جائے گی۔

لیکن کیا کہا جائے پی ٹی آئی حکومت نے تو لگتا ہے اب وطیرہ ہی بنا لیا ہے کہ دعوی کریں ،عوام کا اعتماد جیتیں اور جب کام نہ بن پائے تو دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہہ دیں کہ ہمارے پاس کون سے جادو کی چھڑی ہے کہ رات بھر میں نظام درست کر دیں۔اب اگر شیخ صاحب سے بھی یہ سوال کیا جائے کہ جناب من آپ نے تو کہا تھا کہ جتنے بھی اوور سیز مذل ایسٹ میں مسکن پذیر ہیں ان سب کے لئے خوش خبری ہے کہ یکم جنوری سے ان کے پاسپورٹ پرانی فیس کے ساتھ دس سال کے لئے بنائے جائیں گے۔

لیکن عملا ایسا نہیں ہوا تو ان کا جواب بھی شائد ایسا ہی ہو گا کہ جناب ابھی تک وزارت کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہو سکا۔دنیا بھر میں یہ نوٹیفیکیشن جانا ہے تو وقت تو درکار ہوگا۔لیکن شیخ صاحب یہ بات نہ بھولئے گا کہ اب جدید ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔آئی ٹی اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ محض ایک کلک سے آپ پوری دنیا سے رابطہ میں جا سکتے ہیں تو پھر یہ نوٹیفیکیشن کس بلا کا نام ہے۔


میں مذکور تمام باتیں سنی سنائی باتوں پرنہیں کر رہا ہوں بلکہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔کہ مجھے پچھلے دنوں سفارت خانہ پاکستان دوحہ قطر میں اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں پر عملہ کا عوام کے ساتھ برتاؤکیا تھا وہ ان شااللہ اپنے اگلے کالم میں ضرور بیان کروں گا،فی الوقت عرض یہ ہے کہ تاحال آپ کے بیان کی عملی شکل کا کہیں دور دور نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیتا۔

جب میں نے عملہ سے عرض کیا کہ جناب شیخ صاحب نے تو کہا تھا کہ یکم جنوری سے وہی پرانی فیس پر پاسپورٹ دس سال کے لئے بنایا جائے گا تو آپ تو دس سالہ تجدید کے لئے اضافی چارجز وصول کر رہے ہیں تو وہ صاحب جو مسند نشین تھے فرمانے لگے کہ پھر ان کے اگلے بیان کا انتظار فرمائیں،ابھی 266 ریال دیں اور دوسروں کے لئے جگہ چھوڑیں۔کیا کہنے جناب کے۔
تو شیخ صاحب اگر دنیا داری کی بات کی جائے تو مجھے کیا لینا دینا کہ اب میری بلا سے دو صد چھیاسٹھ ہوں ہا ایک صد،کیونکہ میں نے تو فیس جمع کروا دی ہے۔

لیکن ایسے کئی لوگ جو اس انتظار میں تھے کہ چلو اب پرانی فیس کے ساتھ ہی پاسپورٹ کی تجدید دس سال کے لئے ادا کر کے سکون مل جائے گا یعنی آئندہ دس سال تجدید کی کوئی فکر نہیں ہوگی۔میرا مقصد صرف آپ کے توجہ دلا کر ایسے کئی لوگوں کا بھلا کرنا ہے جو ایک صد ریال بچانے کے چکر میں انتظار میں ہوں گے، کہ کب نوٹیفیکیشن جاری ہو اور ان کا پاسپورٹ دس سال کے لئے تجدید بھی ہو جائے اور پیسے بھی بچ جائیں۔

جن میں لیبر،ڈرائیور،درجہ چہارم اور کئی کم آمدنی والے پاکستانی شامل ہیں۔
لیکن حکومت تو بس حکم کے لئے ہے کام ہوا کہ نہیں یہ ان کا کام نہیں ہے۔اگر یہی اندازِ حکومت رہے تو پھر آپ میں اور سابقہ حکومتوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔وہ بھی عوام کو خالی نعروں سے بے وقوف بناتے اور قرض کی مے پیتے رہے،اب یہی وطیرہ حالیہ حکومت نے بھی اپنا لیا ہے۔

گویا حکومت کا مزہ تو اب آیا کہ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔شیخ صاحب حکم صادر کیا ہے تو اس کا پالن بھی کریں۔کیونکہ وعدہ کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا کہ وعدہ وفا کرنا۔سچ بولنا اتنا مشکل نہیں جتنا سچ پہ کام رہنا۔لہذا اپنے بیان پر عمل پیرائی کے لئے میدانِ عمل میں آئیں اور فوری طور پر ایک اور حکم نامہ جاری کریں کہ جلد سے جلد پاسپورٹ کی مدت معیاد پرانی فیس میں دس سال کر دی جائے۔

آپ تو کل کلاں پارٹی بدل کر کسی اور حکومت کا حصہ بن جائیں گے لیکن اوورسیز آپ کے اس قدم کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔اور اگر یہ اچھائی کو یاد رکھیں گے تو آپ کی برائی کو یاد کرنا بھی اوورسیز پاکستانیوں کا حق ہوگا۔اب یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ اچھے کا حصہ بننا ہے یا اس حکم کو بھی ہوا کی نذر کر کے سابقہ حکومتوں کے کھاتے میں ڈال دینا ہے۔کہ ان کی غلط حکمت عملی اور پالیسیوں کی وجہ سے پاسپورٹ دس سال کا کرناممکن نہیں ہے۔

کیونکہ فارن ایکسچینج کی مد میں مدت وسیع کرنے سے خاطر خواہ نقصان ہوگا۔
اسی لئے مجھے لگتا ہے کہ شیخ صاحب نے اپنی دوکانداری چمکانے کے لئے بیان تو دے دیا لیکن اب جمع تفریق سے نقصان ملک کو برداشت کرنا ہوگا۔وہ اس لئے کہ اگر ایک پاسپورٹ پانچ سال میں مدت پوری کرتا ہے اور اس پر ایک سو پچاس ریال یا درہم لگتے ہیں تو اسی پاسپورٹ حامل کا پاسپورٹ اگر دس سال کی معیاد رکھے گا تو ملک کو اس مد میں جانے والا سرمایہ نصف رہ جائے گا۔جو حکومت کسی طور برداشت نہیں کرے گی۔شائد اسی بنا پر شیخ صاحب اس حکم پر عمل پیرائی سے گریزاں دکھائی دے رہے ہیں۔شیخ صاحب ہمت کریں اور اوورسیز کے لئے کارِ خیر سمجھتے ہوئے یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :