بے رنگ زندگی کے بے ڈھنگ لمحے

پیر 18 فروری 2019

 Nasir Alam

ناصرعالم

اس نے آخری جملہ اداکرکے اپنی بات پوری کردی جو ذہن پر ہتھوڑے برسانے کیلئے کافی تھا،اس وقت تو کچھ دیر کیلئے میں یہ بھی بھول گیا کہ میں کس لئے یہاں آیا تھا،اصل بات یہ تھی کہ کچھ عرصہ قبل شام کے وقت شہر کے ایک میڈیکل سٹور پر گیا ابھی میں نے دوائیوں کی چھٹی بھی نہیں نکالی تھی کہ پیچھے سے ایک شخص نے ہاتھ آگے بڑھاکر سٹوروالے کو چھٹی دی, میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو ایک لاغر آدمی کھڑاتھا جس کے چہرے پرغربت،بھوک اورافلاس صاف نظرآرہی تھی۔

سٹوروالے نے مختلف الماریوں سے دوائیاں اکھٹی کرکے ان پر اوقات استعمال کیلئے مارکر سے لکیریں ماریں اور پلاسٹک کے شاپر میں بند کرکے بوڑھے شخص کو تھمادیں،چارسواسی روپے ہوگئے،سٹوروالے کی بات سُن کر اُس کے چہرے پرموجود سلوٹیں مزیدگہری ہوگئیں، جیب میں ہاتھ ڈالا،ہاتھ باہر نکالا تو اس میں چند پھٹے پرانے نوٹ تھے جو گنے بغیر اُس نے سٹوروالے کو دے دئے اور جاتے جاتے بڑی دھیمی آوازمیں بولا،پورادن ہتھ ریڑھی چلائی یہی چارسواسی روپے کمائے جو بچے کی ادویات کی نذرکرتاہوں یہ لے لو،کچھ دیر سانس لینے کو رکا اوربے ترتیب سانسوں کو یکجاکرکے ادھوری بات پوری کردی،چلو آج پھربھوکے ہی سوجائیں گے،یہی وہ آخری جملہ تھا جو ذہن پر ہتھوڑے برسانے اورخیالات کو منتشرکرنے کیلئے کافی تھا۔

(جاری ہے)

آج پھر بھوکے سوجائیں گے کا مقصد تھا کہ اس سے قبل بھی غربت کے مارے یہ لوگ بھوکے سوجانے کے تلخ تجربات سے گزرچکے ہیں، نجانے کتنے لوگ ہیں جو بچوں کی ادویات پر دن بھر کی کمائی لٹاکر کچھ کھائے پیئے بغیر بھوکے سوجاتے ہوں گے؟دریائے فرات کے کنارے کتاپیاس سے نہیں مرامگر ہمارے یہاں بھوک،غربت اورافلاس سے لوگ مررہے ہیں جس کا عیاشیوں میں مصروف حکمرانوں کو ذرہ بھر احساس نہیں،ایک طرف جیبیں بھرنے اوربنک بیلنس بڑھانے کا سلسلہ اوردوسری طرف غربت کے مارے لوگوں کی خالی پیٹ راتیں گزارنے کا سلسلہ۔

۔کیسا نظام ہے یہ؟ 
 قوم کسمپری کی حالت میں مررہی ہے،حکمران عیاشیوں میں مصروف ہیں، کئی کئی دن تک کسی کا چولہا نہیں جلتا،حکمران انواع واقسام سے لطف اٹھارہے ہیں،کسی کے پاس سرچھپانے کوجگہ نہیں،حکمران ائرکنڈیشنر دفاتر اورعالیشان محلات میں رہ رہے ہیں،کسی کے پاس بچوں کی ادویات خریدنے کیلئے پیسے نہیں،حکمرانوں کے بچے قوم کی کمائی پربیرون ممالک میں شاہانہ زندگی گزاررہے ہیں۔

آخر یہ کیسانظام ہے؟
غریب مریض زندگی کی امید لے کر جن ہسپتالوں میں جاتے ہیں انہی ہسپتالوں میں پڑے ایڑیاں رگڑرگڑ کر بے وقت کی موت مررہے ہیں،کچے مکانات کے مکین ٹپکتی چھتوں کے نیچے زندگی گزارنے اورغربت کے مارے بچے کھیل کود کا زمانہ مشقت والی جگہوں پرگزارنے پرمجبورہیں،کیا بحران،مسائل،مشکلات،پریشانیاں اورمصائب اس قوم کی قسمت میں لکھی گئی ہیں؟شائد ہمارے نصیبوں کا ٹھیکہ تو حکمرانوں اوراقتدار کے بھوکے سیاستدانوں نے لے رکھا ہے وہی حکمران اورسیاستدان جو قوم کے کاندھوں پر پاؤں رکھ رکھ کر منصب اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں اوربعدمیں عیاشیوں میں اس قدرمگن ہوجاتے ہیں کہ انہیں بھولے سے بھی قوم کا خیال تک نہیں آتا۔

 
 قوم سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے،وہ پوچھتی ہے کہ کب تک یہ سب چلتا رہے گا،حکمران کب تک اس محکوم قوم پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہیں گے؟کب تک یہ قوم شریفوں،زرداریوں،خانوں،امیروں،وڈیروں اوردیگر بااثروبااختیار و ں کے مفادات کی بھینٹ چڑھتی رہے گی؟ مریض کب تک ہسپتالوں میں دواکی امید پراورمسیحاکی راہ تکتے تکتے موت کوگلے لگائیں گے،عوام کب تک بجھے چولہوں کے سامنے بیٹھ کر گیس اور اندھیروں میں بیٹھ کربجلی کی آمد کا انتظار کرتے رہیں گے،غربت کی بجائے غریب کے خاتمے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا، شائد کوئی بھی ان سوالوں کا جواب نہیں دے گا کیونکہ جواب دینے والے تو مگن ہیں اپنی عیاشیوں میں،مصروف ہیں قوم کے خون پسینے کی کمائی کولوٹنے اورلٹانے میں،ایک طرف ایک غریب شخص دن بھر کی محنت مزدوری اورخون پسینے کی کمائی کوبچے کی ادویات پر لٹاتھاہے اور دوسری طرف حکمران مویشیوں کی طرح قوم کی کمائی کو چباچباکر پیٹ میں منتقل کرلیتے ہیں،جسے رہبرسمجھا وہی راہزن نکلا۔

کسی رسالے میں پڑھا تھاکہ ایک شخص کی عمر بھر کی جمع پونجی گم ہوگئی جس کا اُسے بڑادکھ اورملال تھا،سوچتے سوچتے اس پر ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی اوراسی کیفیت کے زیر اثر اس نے چھری اٹھا کر اپنے مویشیوں کو ذبح کرنا شروع کردیا،پہلا مویشی ذبح کیا،چیرپھاڑکردیکھا تو اس کا پیٹ خالی،دوسرا مویشی ذبح کیا چیرپھاڑکر دیکھا اس کا پیٹ بھی خالی،یہی عمل دیگر مویشیوں کیساتھ کیا مگر سب کے پیٹ خالی ہی نکلے، آخر کارآٹھواں اورآخری مویشی بھی ذبح کیا چیرپھاڑکر دیکھا تو اس کے پیٹ سے وہی جمع پونجی برآمد ہوئی جس کی مالیت اتنی تھی جس سے ذبح ہونے والے مویشیوں کی طرح آٹھ مویشی خریدے جاسکتے تھے۔

اگر آج بھی اس قوم کے لٹیروں،کرپٹ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے پیٹ کوبے رحمانہ احتساب کی چھری سے چیراپھاڑاجائے تو یقیناان کے پیٹ سے اتنی جمع پونجی برآمد ہوگی جس سے اس طرح کے آٹھ پاکستان خریدے جاسکیں گے،ہم منتظر ہیں کہ کوئی تو اس قوم کا غمخواروغمگسار اٹھے گا اور سالہا سال سے اسے لوٹنے اوراس کے خون پسینے کی کمائی کو ہڑپ کرنے والوں کے حوس کے پیٹ کوچیرپھاڑدے گا۔

جاتے جاتے چند اشعار قارئین دوراہاکی نذرکرتاچلوں۔
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے 
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے 
جو لوح ازل پہ لکھا ہے 
جب ظلم ستم کے کوہ گراں
روئی کی طر ح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے 
جب دھرتی دھڑدھڑ دھڑکے گی
اوراہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑکڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :