صحت سہولیات سے محروم عوام

جمعرات 27 فروری 2020

 Nasir Alam

ناصرعالم

جیسا کہ سوات کے عوام شروع ہی سے جہاں زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں وہاں انہیں سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات بھی میسر نہیں جس کے سبب انہیں مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا ہے،یہاں کے صاحب ثروت اور مالی طورپر مستحکم لوگ تو پرائیویٹ طورپر اپنا علاج معالجہ کراتے ہیں مگر بدقسمتی ہے غریب عوام کی جو پرائیویٹ طورپراپنی استطاعت سے باہر علاج معالجہ نہیں کراسکتے یہی وجہ ہے کہ یاتو وہ بے وقت کی موت مرجاتے ہیں اور یا ان کی بیماری اس قدرسنگین صورت اختیار کرلیتی ہے جو مریض کیلئے سوہان روح بن جاتی ہے،اگر چہ سوات میں بلنداورپرکشش عمارتوں میں ہسپتال موجود ہیں مگر یہ ہسپتال جدیدطبی سہولیات سے یکسر محروم ہیں جہاں پر مریضوں کامعائنہ تو کیا جاتاہے مگر ایکسرے اورمختلف ٹیسٹ باہر کی لیبارٹریوں سے کرانا پڑتے ہیں اسی طرح ان ہسپتالوں میں مریضوں کو سرکاری طورپر سرنج تک میسر نہیں،اس کے علاوہ یہاں کے ہسپتالوں اورخصوصاََ سیدوگروپ آف ٹیچنگ ہسپتال میں سہولیات کے ساتھ ساتھ سٹاف کی بھی کمی پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ او پی ڈی کے وقت ایک ایک ڈاکٹر کے کمرے کے سامنے سینکڑوں مریضوں کی قطاریں نظر آتی ہیں واضح رہے کہ یہاں پر دس روپے کی رسید پر مریض کاصرف معائنہ کیا جاتا ہے باقی ادویات اوریا ٹیسٹ ایکسرے وغیرہ کیلئے انہیں پرائیویٹ کلینکوں، لیبارٹریوں اورمیڈیکل سٹوروں میں جانا پڑتاہے جہاں پر ان کی فیسوں کے نام پر کھالیں ادھیڑی جاتی ہیں، اس کے علاوہ کیجولٹی سمیت پورے ہسپتال میں میڈیکل کے طلبہ مریضوں کا علاج یا معائنہ کرتے نظر آتے ہیں باالفاظ دیگر مریضوں کی زندگیوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں،ہسپتال کے ہر شعبے میں میڈیکل کے طلبہ جن میں اکثریت پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹس کے طلبہ کی ہے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں جن کا رویہ بھی مریضوں کے ساتھ نامناسب ہے،معلوم ہوا ہے کہ ہسپتال میں موجود ایم آر آئی کے ساتھ ساتھ دیگر جدید مشنری یا تو خراب پڑی ہے اور یا بند ہے جس کے سبب لوگ وہ پرائیویٹ طورپرکرانے پر مجبورہیں یا مجبور کردئے گئے ہیں،اس ہسپتال پر پورے ملاکنڈڈویژن کا بوجھ ہے ہر شعبے میں مریضوں کی بھیڑ رہتی ہے جن میں مقامی لوگ بہت کم نظر آتے ہیں مگر ڈویژن کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے بے چارے مریضوں کو مقامی سطح پر علاج معالجہ کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس ہسپتال میں آتے ہیں اوریہاں آکر بھی انہیں مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتاہے کیونکہ یہاں وہ طبی سہولیات موجود ہی نہیں جن کی امید لے کر وہ آتے ہیں،ہسپتال میں قدم قدم پر گندگی کے ڈھیر پڑے نظر آتے ہیں،ہسپتال کے بیشتر واش روم ناقابل استعمال ہو چکے ہیں جبکہ کئی واش روموں کو تو تالے لگے نظر آتے ہیں،ایسے مریض جنہیں ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے تو ان کے رشتہ داروں اور تیمارداروں کیلئے رات گزارنے کیلئے جگہ کا انتظام بھی موجود نہیں بلکہ دن کے وقت ان کے بیٹھنے کیلئے بھی کوئی جگہ نہیں جس کے باعث انہیں شدید مشکلات اور پریشانی کاسامنا رہتاہے،جو لوگ اپنے مریض کی خدمت کیلئے ہسپتال میں رات کو ٹہرتے ہیں تو وہ کرایہ پر چارپائی حاصل کرتے ہیں یہ چارپائیاں کافی خستہ حالی کا شکار ہیں مگر لوگ اس پر مجبوراََ آنکھو ں ہی آنکھوں میں رات گزارتے ہیں،ہسپتال میں نہ ادویات ہیں،نہ جدید لیبارٹری اورصحت کی دیگر جدید سہولیات موجود ہیں،حال ہی میں سیدو شریف کے پرانے ہسپتال کے آخری سرے پر ہسپتال کی نئی بلڈنگ کھولی گئی ہے جہاں پر مریضوں کا اس قدر رش ہوتا ہے کہ بعض مریض مایوس ہوکر معائنہ کرائے بغیر ہی واپس چلے جاتے ہیں،ہر حکومت نے عوام کو مقامی سطح پرصحت سہولیات کی فراہمی کے متعدد وعدے اوردعوئے کئے مگر کسی بھی حکومت نے اپنے ان وعدوں کوعملی جامہ نہیں پہنایا،اہل علاقہ کا کہناہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ملاکنڈڈویژن کی ہر تحصیل میں جدید سہولیات سے آراستہ وپیراستہ ہسپتالوں کے قیام کیلئے عملی اقدامات اٹھائے اس سے ایک تو یہاں کے اس ہسپتال پر مریضوں کا بوجھ کم ہوجائے گا تو دوسری جانب لوگوں کو ان کے متعلقہ علاقوں میں بروقت صحت کی سہولیات مسیر آئیں گی تاہم اس بات کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے کہ صرف خالی بلڈنگ کو ہسپتال کا نام نہ دے بلکہ اس میں جدید لیبارٹریوں سمیت ان تمام تر سہولیات کی موجود گی یقینی بنائے جو ایک ہسپتال کیلئے ضروری ہوتی ہیں،اس کے علاوہ ہرہسپتال میں مختلف امراض کے علاج کیلئے ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرے جبکہ ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کے نظام میں بھی بہتری لائے تو ان اقدامات سے مریضوں کونہ صرف مقامی اورسرکاری سطح پر علاج معالجہ کی سہولت میسر آئے گی بلکہ ان کی مشکلات اورپریشانیوں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :