سوات کے عوام کو ریلیف ملے گا؟

جمعہ 6 مارچ 2020

 Nasir Alam

ناصرعالم

 سوات کے عوام کو ہر دورمیں سیاسی پارٹیوں نے سبز باغ دکھا کر مسائل کے دلدل میں دھکیل دیا ہے اورالیکشن کے دوران توان کے ساتھ مختلف وعدے کرکرکے ان سے ووٹ بٹو رلیاگیا اور اقتدارملنے کے بعد تمام تر وعدوں کو بھلا دیا گیا ،ہرحکومت سے عوام نے جتنی امیدیں وابستہ کی تھیں کسی نے بھی ان کی امیدوں کو پورا نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ سوات کے عوام میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے تاہم ہر نئی حکومت انہیں دوبارہ امید دلاتی ہے۔

یہ الگ بات کہ ان کی یہ امید بھی دیگر امیدوں کی طرح دم توڑ دیتی ہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے سال عوام کو گھر دلانے کا جھانسہ دیا اور ان سے نادرا کے ذریعے دوسو پچاس روپے وصول کئے جس کی رسید پر تاریخ ،ٹائم ،وصول کنندہ کے شناختی کارڈ کا نمبراورفارم نمبر بھی درج ہیں،سوات کے لاکھوں لوگوں نے دوسوپچاس روپے کے عوض گھر حاصل کرنے کی امیدپریہ رسید وصول کئے ہیں جن کی مجموعی مالیت کروڑوں روپے بنتی ہے ،وہ رقم کہاں گئی؟ اس کا تاحال کسی کو پتہ نہیں چلا ، ایک سال قبل حکومت نے سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں موجود گراسی گراؤنڈ میں نادرا کے ذریعے لوگوں سے گھردلانے کیلئے دوسو پچاس روپے فی کس وصول کئے اور ان کی باقاعدہ رسید بھی دی جس پر وصول کنندہ کے شناختی کارڈکا نمبر اورتاریخ بھی درج ہے اس مد میں اکھٹی کی جانے والی رقم کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔

(جاری ہے)

 سوات کے عوام نے سوال اٹھایا کہ وہ رقم کہاں گئی؟جس وقت لوگوں سے دوسو پچاس روپے فی کس وصول کئے جاتے تھے اس وقت انتہائی رش رہتاتھا جس کی وجہ سے گراسی گراؤنڈ میں نادرا کی ایک کی بجائے کئی گاڑیاں کھڑی کی گئی تھیں جہاں پر لوگوں سے دوسوپچاس روپے لے کر انہیں کمپیوٹرائزڈ رسید دی جاتی تھی مگر ایک سال گزرنے کے باجود بھی کسی کو پتہ نہیں چلا کہ وہ رقم کہاں گئی اور نہ ہی کسی کو گھر دیا گیا،عوام کا کہناہے کہ یہ سب کچھ اس حکومت نے کیا جو انصاف کے نام پر قائم ہوئی ہے جس نے لوگوں کو مہنگائی بے روزگاری ٹیکسوں اورمختلف قسم کے مسائل اور مشکلات کے سوا کچھ نہیں دیا اوران سے الٹا دوسو پچا س روپے وصول کرکے کروڑوں روپے اکھٹے کئے،سماجی حلقے کہتے ہیں کہ ان دو سو پچاس روپے سے ایک غریب گھرانے کا کم ازکم ایک دن چولہا جلتاہے تو یہاں پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ حکومت نے یہاں کے غریب لوگوں سے دوسو پچاس روپے نہیں لئے بلکہ ایک ایک دن ان کے گھروں کے چولہے بجھائے رکھے،اس وقت بھی یہاں پر ایسے لوگ موجود ہیں جو غربت کی وجہ سے اس قدر کچے اورخستہ حال مکانوں میں رہتے ہیں جو معمولی بارش یا تیز ہوا کی وجہ سے کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں انسانی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے ،اسی طرح ان مکانات کی چھتیں بارش میں ٹپکتی رہتی ہیں جس کے مکین شدید پریشانی سے دوچار رہتے ہیں ،گلی کوچوں کی بدحالی،بجلی اور ٹیلی فون کی لٹکتی ہوئی تاریں،بعض مقامات پر بدحال سڑکیں،ناقص سیوریج سسٹم ،دکاندارو ں کی جانب سے خودساختہ نرخ،ناقص اشیائے خودونوش کا کاروبار ،دھواں چھوڑنے والے رکشے،من پسند کرایوں کی وصولی،کاروباریوں کی لوٹ مار اور اسی طرح کے دیگر مسائل نے مل کر عوام کا جینا محال کررکھاہے۔

 اس کے علاوہ عوامی مسائل اور مشکلات کودور کرنے اورانہیں بنیادی سہولیات دہلیز پر فراہم کرنے کے وعوئے کرنے والوں نے عوامی مشکلات میں اضافہ کیا یہی وجہ ہے کہ انہیں قدم قدم پر نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہاہے ،نہ کسی نے مثبت تبدیلی دیکھی اور نہ ہی کسی کو ریلیف ملا اور یہ سب کچھ صرف اس حکومت میں نہیں ہوابلکہ اس سے قبل جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں سب کے سب نے سوات کے عوام کواسی طرح کی مایوسی ، محرومی اورمسائل کے سوا کچھ نہیں دیا ہے ۔

آج سوات میں مہنگائی اور بے روزگاری کا دور دورہ ہے ،ہنرمند افراد اور تعلیم یافتہ نوجوان روزگار اور ملازمتوں کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھاتے نظر آرہے ہیں ،بیشتر مایوس افراد بیرون ممالک محنت مزدوری کیلئے چلے گئے اور بہت سے دیگر لوگ باہر جانے کیلئے دوڑ دھوپ کرتے نظر آرہے ہیں،سوات کے عوام کیلئے تعلیمی سہولیات کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ،ہسپتالوں کے نام پر بڑی بڑی بلڈنگ کھڑی ہیں مگر وہا ں پر مریضوں کیلئے کسی قسم کی سہولت میسر نہیں یہاں تک کہ مریض ادویات اور سرنج تک بھی بازار سے لاتے ہیں ان ہسپتالوں میں سٹاف کی کمی اور مریضوں کے رش کی وجہ سے ان کا صحیح طریقے سے معائنہ بھی نہیں ہوسکتا ، مقامی لوگ کہتے ہیں کہ پہلے تو انہیں گھر دلانے کے نام پرلئے گئے دوسو پچاس روپے کے حوالے سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کہاں گئے اورساتھ ساتھ حکومت ہمیں اپنے وعدوں کے مطابق زندگی کی بنیادی سہولیات گھرکی دہلیز پر فراہم کرکے ہماری مشکلات اور پریشانیوں کا خاتمہ کرے تاکہ ہمیں سکھ کی سانس نصیب ہواورہم بھی زندگی کا پہیہ آسانی کے ساتھ رواں دواں رکھ سکے۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :