کرونا وائرس۔۔۔زندگی اور موت کی جنگ

ہفتہ 14 مارچ 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

کرونا وائرس نے دنیا کے ڈیڑھ سو سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اور پاکستان سمیت دیگر ممالک اور امریکہ نے بھی ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔یہاں تک کہ خانہ کعبہ جیسی جگہوں پر بھی دست دعا کی جگہ،وبا کا خوف پھیل گیا یا پھیلا دیا گیا ہے۔ان حالات میں چین سے شروع ہونے والا یہ عذاب یاجوج ماجوج کی طرح آگے ہی بڑھ رہا ہے۔سب سے بڑا چیلنج غریب ملکوں اور خصوصاً پاکستان کو درپیش ہے جہاں صحت کی سہولتیں اتنی غیر معمولی معیار کی نہیں ہیں۔


گزشتہ دنوں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پانچ اپریل تک تمام اجتماعی تقاریب اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے کچھ لوگ اس کی بھی مخالفت کر رہے تھے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر دنیا جس خوف اور خطرات میں مبتلا ہے اس میں نہ صرف مجبوری بلکہ حفاظت کی ضرورت ہے ۔

(جاری ہے)

لوگوں کو کرونا وائرس کے خلاف بھرپور حفاظتی جنگ لڑنی چاہیے اس سے ایک فائدہ کسی چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہونا بھی ہے اور موجودہ خطرات سے نمٹنے کا طریقہ بھی یہی ہے۔

حکومت نے نیشنل انفارمیشن سینٹر بنانے کا اعلان کیا ہے جس میں تمام صوبوں اور علاقوں کو مکمل ڈیٹا کے ذریعے مستعد رکھا جائے گا۔ایک اسپیشل ٹاسک فورس بھی مس تانیہ کی سربراہی میں بن چکی جو ڈیجیٹل ڈیٹا کے ذریعے اس مشن کو پورا کریں گی۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں سرعت تو دکھائی مگر سب سے بڑا چیلنج بلوجستان اور شمالی علاقوں کو ہے جس پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

 بلوچستان میں آبادی دور دراز علاقوں پر مشتمل ہے جہاں بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اور یہی حال سرد اور پہاڑی علاقوں کا ہے۔جہاں مریض اور ہسپتال میں بہت ''دوریاں'' ہیں۔اسی طرح چین،ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب رہنے والے بھی اس مشکل گھڑی کا زیادہ شکار ہوں گے اب تک پاکستان میں جو بھی کرونا وائرس کیس آیا ہے اس کا اوریجن ایران ہی ہے جہاں زائرین اکثر آتے جاتے رہتے ہیں ۔

ایک افسوس ناک صورت حال یہ بھی کہ لوگ چھپ چھپا کر گھسنے کی کوشش بھی کرتے ہیں حالانکہ وہ تعاون کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگی محفوظ بنا سکتے ہیں مگر شعوری ایمانداری کی یہاں بہت کمی ہے۔سال سال لوگ دوسروں کو تکلیف دے کر حج،عمرہ یا زیارت کر کے تسکین پا لیتے ہیں حیرت ہے کیسے؟ ہم قومی طور پر جس غفلت اور خود غرضی میں مبتلا ہیں اس میں کوئی وبا ہمارے لئے قیامت سے کم نہیں، ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی،جھوٹ،دھوکا دہی اور بد دیانتی تک تو جہ ہمارے خون میں سرایت کیے ہوئے ہے۔

پھر کیسے اس عالمی چیلنج کا مقابلہ کیا جائے گا؟ یہ بغاوت،ظلم وستم اور بد دیانتی بندے نہیں دیکھ رہے تو ان کا خالق تو دیکھ رہا ہے۔جس نے عذاب کی صورت میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کچھ تو انسان کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا! ایک اور بڑا خطرہ جعلی خبروں کا ہے اگرچہ پوری دنیا اس کا شکار ہے مگر پاکستان جیسے ملکوں میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک ہجوم ہے ایک دریا ہے جو بہتا چلا جا رہا ہے جس کے آگے بند باندھنا سب سے مشکل کام ہے۔

البتہ حکومت کو چاروں صوبوں میں فوکل پرسنز نامزد کرنے چاہیے جو مصدقہ اطلاعات دیں اور وہ اپنی قومی ذمہ داری سمجھ کر درست طریقہ سے آگے بڑھیں۔کرونا کا دنیا میں سب سے بڑا چیلنج سرد علاقوں کو ہے جہاں اس کی افزائش اور پھیلاؤ تیزی سے ہو سکتا ہے اس لئے اٹلی سمیت یورپ میں خطرات مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔ایک ہی امید ہے کہ گرمی بڑھے تو اس وائرس کا شاید قلع قمع ممکن ہے ابھی تک ایک لاکھ سے افراد اس کا شکار ہو چکے جبکہ پانچ ہزار سے اوپر لوگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

 پاکستان میں بہت کم لوگ اس کو شعوری طور پر قبول کر رہے ہیں کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں اور کچھ محض سازشی تھیوری کا شکار اور بعض مذہبی انداز سے اس کو اہم نہیں سمجھتے۔حقائق کچھ بھی ہوں خطرات صرف حقیقت پسندی سے ہی اس بحران کا مقابلہ کیا جائے تو بہتر ہو گا۔کہیں ہم غالب کی طرح وباء عام میں مرنا نہ پسند کرکے بغاوت نہ کر بیٹھیں اور بے خبری میں مارے جائیں لیکن ایک عذاب ضرور ہے وہ انسان کو انسان اور انسانیت سے بھی دور کر دیا ہے۔

ہاتھ نہیں ملانا،اجتماع شادی،جنازہ اور تقریبات سے بچنا سماجی تنہائی کا شکار کر دے گا۔ بزرگ کہتے ہیں کرونا تیرا بیڑا غرق ہو تم نے کھانسنے اور تھوکنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
پاکستان میں ایمرجنسی نافذ تو ہوگئی ہے مگر اس بحران میں مہنگائی۔ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ سمگلنگ اور ماسک اور ادویات سمیت ہر چیز میں ایک نئی بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور کچھ ہونے والی ہے۔

مرنے سے ڈرنے کا کوئی امکان نہیں ہے چونکہ موت تو لکھی ہے اس ڈھٹائی سے بد دیانتی کی جاتی ہے جب تک عذاب ہمارے سر پر نہیں آتاہم مرنے ڈرنے والے نہیں ہیں۔کیوں مریں ابھی دیکھا ہی کیا ہے؟ کرونا وائرس سے دنیا کی معیشت بیٹھ گئی ہے پاکستان میں بھی اسٹاک مارکیٹ طوفانی موجوں کی زد میں ہے۔زراعت پر ڈیڈی دل کا حملہ ہے اور انسانوں کو کرونا نے گھیر رکھا ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ پیچھے شیر،اگے سانپ اور نیچے کھائی ہے اب انہی کی مرضی کہاں جائیں گے! کیا ہم مر جائیں گے! تو دوستوں تیار ہو جاؤ مرنا ہے تو ڈرنا کیا،جنگ تو زندگی اور موت کی ہے زندگی رہی تو پھر ملیں گے نہیں تو ملتے رہے تو زندگی رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :