
کوئی اُمید بَر نہیں آتی
پیر 10 فروری 2014

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
ہمارے افلاطونی تجزیہ نگار مہنگائی کا تعلق کرپشن سے جوڑتے ہوئے کالموں کی بھرمار کیے ہوئے ہیں ۔
توانائی بحران پر ہمارانقطہ ٴ نظر دوسروں سے ذرا مختلف ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ قوم کے لیے بجلی ، گیس اور ڈیزل پٹرول کی وافر موجودگی سرا سَر گھاٹے کا سَودا ہے کیونکہ اِن سہولیات نے ایک تو ہماری جیبوں میں ”کَکھ“ نہیں رہنے دیا اور دوسرا ہمیں مجبورِ محض بنا کے رکھ دیا ہے ۔کتنا اچھّا تھا وہ دَور جب دیہات کی صحت افزاء فضاوٴں میں مٹی کی ہنڈیا کے نیچے لکڑیاں جلائی جاتیں اور بُجھتی آگ کو ”پھونکنی“ سے دہکانے کے مزے لُوٹے جاتے لیکن جب سے اِس ” ٹُٹ پَینی“ گیس کا رواج ہوا ہے ، زندگی کی ساری ہلچل ہی ختم ہو کے رہ گئی ہے ۔گیس آتی نہیں اور چولہا جَلتا نہیں ۔ویسے تو گیس نہ ہونے کا ہمیں فائدہ بھی ہے کہ گھر میں کھانا پکانے کے ”وَخت“ سے آزاد ہو گئے ہیں لیکن مسلہ یہ آن پڑا ہے کہ ہمارا گیزر بھی بند ہو گیا ہے ۔اب اِس لہو جماتی سردی میں بھَلا گیزر کے بغیرنہانے کا رِسک کون لے ۔دیہاتوں کی راتیں بھی سحر انگیز ہوا کرتی تھیں ۔ رات کے وقت ، گرمیوں میں گھروں کے کَچّے کھُلے صحنوں میں پانی کا چھڑکاوٴ کرکے چار پائیاں ڈالنا، مٹی کی سوندھی سوندھی نَشہ آور خوشبو اور لالٹین کی مَدھم لَومیں نیند کی پریوں کا جھولا جھُلانا اپنا ہی مزہ دیتا تھا ۔سچ تو یہی ہے کہ گھروں میں لگے اے سی ٹھنڈک ضرور دیتے ہیں لیکن لوریاں دے کر سلاتے نہیں کیونکہ بجلی کے بِل کا خوف ہی بے چین رکھتا ہے ۔مجھے تو ابھی سے ہَول اُٹھنے لگے ہیں کہ جب اِس کَڑکڑاتی سردی میں بھی بجلی کا بِل پانچ ہزار سے کم نہیں آتا تو اُس وقت کتنا بِل آئے گا جب اے سی اور پنکھے چلنے لگیں گے ۔
دہشت گردی کا مسلہ بھی حل ہوا ہی سمجھیں کیونکہ حکومت اور طالبان کی کمیٹیوں کا پہلا اجلاس ہو چکا ہے اور میڈیا بریفنگ میں ہمارے کو آرڈینیٹر محترم عرفان صدیقی کی خوشی دیدنی تھی ۔اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اجلاس میں افہام و تفہیم کی ایسی فضاء قائم تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ایک ہی کمیٹی ہو ۔ کمیٹی تو ویسے ایک ہی تھی کیونکہ دونوں طرف ہی ”اپنے لوگ“ بیٹھے ہوئے تھے اور طالبان فی الحال ”پردے“میں ہیں۔ لیکن اُمید ہے کہ جلد ہی یہ پردہ چاک ہو جائے گا اور ہم بھی ”دیدارِ طالبان“ سے مستفید ہو سکیں گے ۔ہمارے وزیرِ اطلاعات جناب پرویز رشید صاحب تو اتنے بے تاب ہیں کہ جب طالبان نے یہ تقاضہ کیا کہ کمیٹی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے شمالی وزیرستان بھیجا جائے تو اُنہوں نے کہا ”ہیلی کاپٹر تو کیا کمیٹی کو اپنے کندھوں پر لے جانے کو تیار ہوں “۔جب سے جنابِ پرویز رشید کا یہ بیان آیا ہے تب سے ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر ہمارے وزیرِ اطلاعات واقعی جنابِ عرفان صدیقی کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر جانبِ منزل رواں دواں ہو جائیں تو وہ کتنے سالوں میں شمالی وزیرستان پہنچ سکیں گے؟۔پرویز رشید صاحب کو ایسا کرنے سے پہلے جنابِ نواز شریف سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیے کیونکہ اُنہیں اِس کا تجربہ ہے اور وہ ایک دفعہ مولانا طاہر القادری کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر غارِ حرا تک لے جا چکے ہیں ۔
طالبان سے معاملات تو افہام و تفہیم سے آگے بڑھ ہی رہے تھے لیکن لال مسجد کے مولانا عبد العزیز کو بیٹھے بٹھائے جوش آ گیا اور اُنہوں نے یہ دھماکہ کر دیا کہ وہ نفاذِ شریعت کی یقین دہانی تک مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کے آئین کو نہیں بلکہ قُرآن و سُنعت کو مانتے ہیں اور آئینی حدود کی شرط سے مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گا ۔مولانا صاحب کی دیکھا دیکھی طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بھی یہ کہہ دیا ” مذاکرات قُرآن و سُنعت کے تحت ہوں گے ، وہ کوئی اور قانون نہیں مانتے ۔طالبان کو شریعت کے علاوہ کوئی اور قانون منظور ہوتا تو جنگ ہی نہ کرتے ۔ ہماری جنگ نفاذِ شریعت کے لیے ہے “۔ہم سمجھتے ہیں کہ نفاذِ شریعت ہر مسلمان کی آرزو ہے اور ہمارا آئین بھی اِس کی تصدیق کرتا ہے اوراسلامی نظریاتی کونسل بھی تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ہی بنائی گئی تھی ۔ اِس لیے طالبان کا یہ مطالبہ ناجائز نہیں۔سوال مگر یہ ہے کہ پاکستان میں شریعت ِ محمدی ﷺکا نفاذ اُس کی اصل روح کے مطابق کیا جائے یا اُن ”شریعتوں“ کے مطابق جو ہمیں علمائے اکرام کے ہاں وافر مقدار میں ملتی ہیں ؟۔بہرحال اگر نیت میں خلوص ہو تو یہ مسلہ بھی حل ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارا اللہ ، رسول ﷺ اور قُرآن ایک ہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو ”خلوص“ نامی جِنس نایاب ہے شاید اسی لیے لوگ مذاکرات کی کامیابی سے مایوس ہیں البتہ ہم رَبّ کی رحمت سے مایوس نہیں اور ہمیں یقین ہے کہ آج نہیں تو کل صحنِ چمن میں بہار ضرور آئے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.