آئین بالا دست ہے

پیر 23 دسمبر 2019

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

امیرالمومنین حضرت عمر کا قول ہے ”کسی کی وجاہت کے خوف سے اگر عدل کا پلڑا اُس کی طرف جھک جائے تو پھر قیصر وکسریٰ کی بادشاہت اور اسلامی حکومت میں کیا فرق رہ گیا“۔ اسلامی حکومت کی بنیاد ہی عدل ہے۔ رَبّ ِ لم یزل کا روزِ جزا و سزاکا فیصلہ بھی عدل پر ہوگا۔ رَبّ ِ کائنات کسی کو اُس وقت تک سزا نہیں دے گا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ وہ سزا کا مستحق ہے، اِسی لیے انسان کے اعضاء بھی گواہی دیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ دینِ مبیں میں عدل کو اوّلیت ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی وجہ سے سزا سے بچ جاتا ہے تو روزِ قیامت اُسے حساب تو دینا ہوگا۔ 
منگل 17 دسمبر 2019ء کو تین رکنی خصوصی عدالت نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دیتے ہوئے سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کو سزائے موت کا حکم سنایا جس پر فوج میں شدید غم وغصہ پایا گیا۔

(جاری ہے)

فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے تحریری بیان میں فرمایا ”خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غصّہ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ پرویزمشرف چیف آف آرمی سٹاف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدرِپاکستان رہ چکے ہیں۔ اُنہوں نے 40 سال سے زائد پاکستان کی خدمت کی اور ملکی دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔ وہ کسی صورت میں بھی غدار نہیں ہو سکتے۔

اُن کے خلاف کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور اُنہیں اپنے دفاع کا بنیادی حق بھی نہیں دیا گیا“۔
 میجرجنرل آصف غفور صاحب نے یہ بھی فرمایا ” عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی اور کیس کو اُجلت میں نپٹایا گیا، اِس لیے افواجِ پاکستان توقع کرتی ہیں کہ پرویزمشرف کو آئینِ پاکستان کے تحت انصاف دیا جائے گا“۔

یہ تو طے ہے کہ آئین کی بالا دستی کا اعتراف افواجِ پاکستان بھی کرتی ہیں، اِسی لیے فوجی ترجمان نے پرویزمشرف کو آئینِ پاکستان کے تحت انصاف دینے کا تقاضہ کیا ہے۔ یہ بھی عین حقیقت کہ کوئی بھی فانی انسان معصوم عن الخطا نہیں ہوتا۔ غلطیوں کی گنجائش بہرحال موجود ہے اِس لیے عدلیہ کے فیصلوں سے اختلاف کی گنجائش رہتی ہے۔ پرویزمشرف کیس میں سپریم کورٹ کا فورم موجود ہے جہاں اپیل کی جا سکتی ہے اور یہ بھی طے کیا جا سکتا ہے کہ 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی پلس آئین شکنی ہے یا نہیں۔

انصاف کے تقاضے بہرحال پورے ہونے چاہییں۔
لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ دینِ مبیں کے مطابق کوئی شخص خواہ کتنے بھی بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو، اُس نے اگر جرم کیا ہے تو اُس کی سزا بہرحال ملتی ہے۔ یاد رہے کہ جب حضورِ اکرمﷺ کے سامنے فاطمہ نامی عورت کی چوری کا کیس آیا تو آپﷺ نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ صحابہ اکرام رضوان علیہم نے عرض کی کہ فاطمہ انتہائی طاقتور قبیلے کی عورت ہے، سزا دینے سے انتشار کا خطرہ ہے، اِس لیے معاف کر دیا جائے۔

آپﷺ نے فرمایا ”رَبّ ِ کعبہ کی قسم اگر اِس عورت کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹنے کا بھی حکم دیتا“ (مفہوم)۔
 جب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو عدل کی مضبوط بنیادیں فراہم نہیں کی جاتیں، یہ نہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ استحکام آسکتا ہے۔ پرویز مشرف کیس میں تمام آئینی تقاضے پورے ہونے چاہییں جس کے لیے سپریم کورٹ موجود ہے ۔

بہتر یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے ورنہ صرف انتشار ہی انتشار۔ 
19 دسمبر کو خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ سامنے آیا جس میں پرویزمشرف کو پانچ بار سزائے موت کا حکم دیا گیا۔ 169 صفحات پر مشتمل تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ (چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ) اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا استغاثہ پرویزمشرف پر سنگین غداری کا الزام ثابت نہیں کر سکا۔

جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے لکھا ”پھانسی سے قبل پرویزمشرف فوت ہو جاتے ہیں تو لاش ڈی چوک لا کر تین دن تک لٹکائی جائے“۔ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اِس نقطے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ اِس مثالی سزا کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اپیل سے پہلے پرویزمشرف کو گرفتاری دینی ہوگی۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ ایمرجنسی اور آئین معطل کرنے کے الفاظ سے مارشل لاء کے اثرات کم نہیں ہوتے۔

اعلیٰ عدلیہ نے نظریہٴ ضرورت متعارف نہ کروایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ 
تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے جوپرویزمشرف کی لاش کو تین دن تک ڈی چوک میں لٹکانے جیسے الفاظ استعمال کیے، اُن سے ہمیں بھی شدید اختلاف ہے کیونکہ یہ الفاظ اسلامی اقدار اور انسانیت کی نفی کرتے ہیں۔ آئینی ماہرین بھی کہتے ہیں کہ اِن الفاظ سے تعصب کی بو آتی ہے۔

اعتزاز احسن نے کہا ”پرویزمشرف نے جو کچھ کیا اِس کے بعد اُسے سزا تو ہونی ہی تھی مگر لاش کو لٹکانے کا فیصلہ انتہائی بیہودہ ہے۔ یہ فیصلہ ایک طرح سے مشرف کے حق میں چلا گیا“۔ بابر ستار نے کہا ”فیصلے سے لگتا ہے جیسے کوئی ذاتی بغض اور عناد تھا۔ پیراگراف 66 نہ ہوتا تو باقی فیصلہ نارمل لگتا ہے۔ کوئی بھی اِس کی نفی نہیں کر سکتاکہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی“۔

 
جسٹس (ر) ناصرہ جاوید نے کہا ”مجرم کی لاش کو ڈی چوک لانے اور تین دن لٹکانے کی بات خلافِ آئین ہے“۔ دیگر نامی گرامی وکلاء کی آراء بھی لگ بھگ ایسی ہی ہیں لیکن وزیرِ قانون فروغ نسیم نے تو کمال ہی کر دیا۔ اُنہوں نے کہا ”جسٹس وقاراحمد سیٹھ نے بہت غلط آبزرویشن دی اور مِس کنڈکٹ کیا۔ اُن کا ذہنی توازن درست نہیں۔ سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ جسٹس سیٹھ وقار کو کام کرنے سے روک دیا جائے۔

آرٹیکل 209 کے تحت جج کے خلاف ریفرنس دائر کر رہے ہیں“۔ 
وزیرِاعظم عمران خان نے بھی کہا کہ فیصلہ غیرآئینی، غیرقانونی اور غیرشرعی ہے ۔ جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اُن کی مثال نہیں ملتی۔۔۔ یہ تو بجا کہ جسٹس سیٹھ وقار نے فیصلے میں جو کچھ لکھا، وہ درست نہیں لیکن پرویزمشرف کے سابق وکیل فروغ نسیم کا تبصرہ کیا درست ہے؟۔ کیا کسی بھی محترم جسٹس کے بارے میں یہ کہنا کہ اُس کا ذہنی توازن درست نہیں، مناسب ہے؟۔

کیا یہ صریحاََ توہینِ عدالت کا کیس نہیں؟۔ جو شخص یہ بھی نہیں جانتا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے تقاضے کیا ہیں، باعثِ شرم ہے کہ وہ ہمارا وزیرِ قانون ہے۔ یہاں یہ امر بھی مدّ ِ نظر رہے کہ پرویزمشرف کیس میں استغاثہ حکومت تھی اور شاید تاریخِ عالم میں یہ واحد مثال ہوگی کہ استغاثہ اپنے حق میں آئے ہوئے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے جا رہا ہے، ”جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے“۔

 
پرویزمشرف کیس میں مختلف آراء کو سامنے رکھتے ہوئے یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ہر شخص آئین کی بالادستی اور آئینی تقاضے پورے کیے جانے کے حق میں ہے۔ آئینِ پاکستان میں آرٹیکل 6 کا لاگو کیا جانا پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کا اہم موڑ ہے جس کے بعد یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عدلیہ نے اُس نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا جو ہمیشہ عدل کے ماتھے پر کلنک تھا۔

اگر سپریم کورٹ پرویزمشرف کی سزا بحال رکھتی ہے تو پھر بھی صدرِ پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سزائے موت کو عمرقید میں بدل دیں یا معاف کر دیں لیکن یہ تو بہرحال ہوا کہ خود عدلیہ نے ہی آئین کے زخم بھرنے کی کوشش کی۔ 
یہ عین حقیقت ہے کہ آئین توڑنے والوں کو ہمیشہ عدلیہ نے ہی تحفظ فراہم کیا لیکن 17 دسمبر کو عدل کی تاریخ میں پہلی بار کسی آئین شکن کو سزا دی گئی۔

آئین کے آرٹیکل 6 کے مطابق جو شخص طاقت کے استعمال کے خلاف یا کسی اور غیرآئینی طریقے سے آئین منسوخ کرے یا معطل کرے یا منسوخ کرنے کی سازش کرے، وہ سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔ تین رکنی بنچ کے فیصلے سے پہلے یہ الزام صرف ”سویلینز“ پر دھرا جاتا رہا۔ اب پرویزمشرف بھی اِس کی زد میں آگئے۔ یہ تو تاریخ ہے کہ 3 نومبر 2007ء کو پرویزمشرف نے آئین معطل کیا اور پارلیمنٹ نے اُنہیں آئین کی اِس معطلی پر تحفظ بھی فراہم نہیں کیا، اِسی لیے سپریم کورٹ نے 2009ء میں اُنہیں غاصب قرار دے کر آئین سے بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

 اُس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی جس نے مفاہمت کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے معاملے کو لٹکائے رکھا اور مقدمہ درج نہیں کیا۔ یہی نہیں بلکہ پرویزمشرف کے ملک سے باہر جانے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے پرویزمشرف واپس آگئے اور میاں نوازشریف وزیرِاعظم بن گئے جنہوں نے سپریم کورٹ کے 2009ء کے حکم کے مطابق پرویزمشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔

پرویزمشرف پر مقدمہ چلا لیکن شدید دباوٴ اور اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے خوف کی وجہ سے میاں نوازشریف نے بھی پرویزمشرف کو باہر جانے دیا مگر مقدمہ چلتا رہا ۔مقدمے کی 5 سالوں میں 125 پیشیاں ہوئیں اور عدالت بار بار پرویزمشرف کو پاکستان واپس آکر اپنا بیان ریکارڈ کروانے کا حکم دیتی رہی حتیٰ کہ اُنہیں ویڈیو لنکس پر بھی بیان ریکارڈ کروانے کی سہولت دی گئی لیکن وہ پاکستان آئے نہ ویڈیولنک پر بیان دیا۔ اب تین رکنی بنچ کے فیصلے کے مطابق پرویزمشرف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن اِس شرط کے ساتھ کہ وہ پہلے پاکستان آکر گرفتاری دیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پرویزمشرف پاکستان واپس بھی آتے ہیں یا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :