
بَدمزاجی ٹھیک نہیں صاحب
پیر 29 جون 2020

پروفیسر رفعت مظہر
اُلجھاوٴ ہے زمیں سے ، جھگڑا ہے آسماں سے
(جاری ہے)
کل کی ”قاتل لیگ“ آج کی ”قابل لیگ“۔ آسمان کے فرشتے تلاش کرتے کرتے پیپلزپارٹی، نوازلیگ اور قاف لیگ سے ایسے ”موتی“ نکال لائے جنہیں اِن سیاسی جماعتوں نے نکالایا وہ ہواوٴں کا رُخ دیکھ کر خود نکل گئے۔
پاوٴ صدی پرانی تحریکِ انصاف مفقودالخبر۔ اِس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ خانِ اعظم اصولی سیاست کرنے والے ہیں۔ ویسے بھی جو شخص اپنے ”یوٹرنوں“ پر فخر کرتاہو، اُسے بااصول کیسے کہا جا سکتا ہے؟۔کہا جاتا ہے کہ اگرخانِ اعظم کو اچھے وزیرومشیر مل جاتے تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیتے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اُنہیں سارے جہان کے افلاطون اورارسطو بھی مل جاتے تو پھر بھی اُن کے شیخ چِلّی جیسے منصوبوں پر عملدرآمد ناممکن ہوتا۔ ویسے بھی ”کند ہم جنس باہم جنس پرواز“ خانِ اعظم کی نگاہِ انتخاب اُنہی لوگوں پر پڑی جنہیں وہ اپنے جیسا یا تھوڑا کم تر سمجھتے تھے۔ شیخ رشید، فیصل واوڈا مراد سعید اورفیاض چوہان جیسے بَدلحاظ وبَدمزاج لوگ اُن کے منظورِنظر۔ یوں تو فوادچودھری اور بابراعوان بھی کسی سے کم نہیں لیکن اُن کی زبان ذرا سلجھی ہوئی۔خانِ اعظم کے ہاں ایسے وزیرومشیر بھی پائے جاتے ہیں جنہیں ”قومی انٹرٹینمنٹ“ کے لیے رکھا گیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان المعروف ماسی مصیبتے یہ فریضہ بطریقِ احسن سرانجام دیتے دیتے گھر سدھاریں۔ دروغ بَر گردنِ راوی ماسی مصیبتے ”انکشافات“ کی پوٹلی سَر پر اُٹھائے دَربدر۔ اگر کسی سیاسی جماعت نے گھاس ڈالی تو وہ انکشافات کی یہ پوٹلی کھولنے کے لیے بیقرار۔ قومی انٹرٹینمنٹ کے لیے ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر زرتاج گُل بھی کسی سے کم نہیں۔ کچھ لوگ اُنہیں وزیرِماحولیات کی بجائے ”وزیرِمخولیات“ بھی کہتے ہیں۔ زرتاج گل کی یہ خوبی تو ہمیں بہت پسند ہے کہ وہ چاچا غالب کی طرح قنوطیت میں بھی رجائیت کا پہلو نکال لیتی ہے۔ چاچا غالب نے کہا
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر
زرتاج گل نے کہا ”اِس دفعہ زیادہ مقدار میں برف باری اور زیادہ بارشوں کا کریڈٹ بھی عمران خاں کو جاتا ہے۔وہ چونکہ طبقہٴ نسواں سے تعلق رکھتی ہے اِس لیے ہمیں اُس سے ہمدردی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کلاں اگر سیلاب آجائے تو وہ رواروی میں اُس کی تباہ کاریوں کا کریڈٹ بھی عمران خاں کو دے دے اور ماسی مصیبتے کی طرح اُس کی بھی چھٹی ہو جائے، اِس لیے ذرا بچ کے۔خان کی ”کلرسمائل“ (قاتل مسکراہٹ) پر فِدا زرتاج گل نے کہا ”عین بحران میں جس انداز سے وہ چل کر آتے ہیں، اُن کی کلرسمائل سے ہم اپنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں“۔ زرتاج گل کے خیال میں کورونا بھی ڈینگی کی طرح اب ہر سال آیا کرے گا۔ پچھلے سال جب ڈینگی پھیلا تو بزرجمہروں نے کہا ”جب سردیاں آئیں گی تو ڈینگی خودبخود ختم ہو جائے گا“۔ غالباََ کورونا وائرس کے بارے میں بھی حکمران یہی سوچ رہے ہیں کہ بالآخر کورونا نے ختم تو ہونا ہی ہے البتہ جب کورونا ختم ہو جائے گا تو مرادسعیدکہے گا ”کورونا آئی، ہم نے بھگائی“۔ بزرجمہر اور بھی کئی مگر فی الحال وزیرِاعظم کا پارلیمنٹ میں خطاب۔
قوم کو نوید ہو کہ بالآخر خانِ اعظم کو پارلیمنٹ کا خیال آہی گیا۔ وہ 25 جون کو پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور بھرپور خطاب کے بعدغائب ہوگئے جس کا اپوزیشن نے بہت بُرا منایا۔ شاید وہ اپوزیشن کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں یا پھر وہ اپوزیشن کو اِس قابل ہی نہیں سمجھتے۔ قومی اسمبلی میں اُنہوں نے ایک دفعہ پھر یوٹرن لے لیا، صرف ایک دن پہلے اُنہوں نے اپنی کابینہ کو کارکردگی بہتر بنانے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیاجبکہ اگلے ہی دن قومی اسمبلی کے فلور پر وزراء کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کر دیا۔ اُن کا دوسرا یوٹرن اسامہ بن لادن پر تھا جس پر اپوزیشن کی طرف سے تابڑتوڑ حملے بھی ہوئے۔ اُنہوں نے پہلے کہاکہ امریکیوں نے اسامہ بن لادن کو ماردیا لیکن پھر ساتھ ہی کہہ دیا ”شہید کردیا“۔ خانِ اعظم جب اقتدار میں نہیں تھے تو ہمیشہ اسامہ بن لادن کو شہید کہنے سے گریزاں رہے البتہ اِس قتل کو بے رحمانہ ضرور کہتے رہے۔ اُن کا اعتراض یہ بھی تھا کہ امریکہ کو اپنے اتحادی (پاکستان) کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔قائم مقام قائدِحزبِ اختلاف خواجہ آصف نے بھی دھواں دار تقریر کی اور اُس سے پہلے بلاول زرداری نے بار بار وزیرِاعظم کو ”سلیکٹڈ“ کہا۔ بلاول نے کہا کہ اگر یہ ”الیکٹڈ“ ہوتے تو کورونا سے مرنے والوں کا درد محسوس کرتے۔ خواجہ آصف کا زور اسامہ بن لادن کو شہید کہنے پر تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن مسلمہ دہشت گردتھا جس نے پاکستان کو خونم خون کر دیا۔ بلاول اور خواجہ آصف، دونوں نے وزیرِاعظم کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ ظاہرہے کہ یہ چیلنج کبھی پورا نہیں ہوگا البتہ اپنی تقریر کے دوران وزیرِاعظم نے جو چیلنج دیااُس کے بخیے اُدھیڑے جارہے ہیں۔ اُنہوں نے چیلنج کیا کہ کوئی 13 مارچ سے اب تک اُن کے بیانات میں تضادڈھونڈ کے دکھادے۔ عرض ہے کہ پاکستان میں پہلا لاک ڈاوٴن 23 مارچ کو ہوا جسے وہ باربار 13 مارچ کہہ رہے ہیں۔ ویسے 10 سے زائد تضادات تو ہم جیسے کج فہم بھی ڈھونڈلائے لیکن اِس کے لیے بھرپورکالم کی ضرورت۔
اسامہ بن لادن کو شہید کہہ کر خان نے تبصروں اور تجزیوں کا دَر وا کردیا ہے۔ بلاول کے ترجمان مصطفےٰ نوازکھوکھر نے کہا ”اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے کر عمران خاں سکیورٹی تھریٹ بن گئے ہیں۔ اگر اسامہ بن لادن شہیدہے تو پھر القائدہ کے حملوں میں مارے جانے والے عوام کیاہیں؟۔ فورسزکے شیہید ہونے والے جوانوں کے لواحقین کو کیا جواب دیں“۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی یہی شور سنائی دے رہاہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجی جوانوں کو شہید کہنے کی بجائے اُن کے خلاف لڑنے والوں کو شہید کہنے سے دِل تو دُکھتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.