”جمہوریت اور پاکستان “

بدھ 5 جنوری 2022

Professor Iftikhar Mehmood

پروفیسر افتخار محمود

تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ انسان نے جب سے جنگلات سے نکل کر میدانی اور ساحلی علاقوں میں آباد کاری کا سلسلہ شروع کیا ہے تو لاکھوں سال کے اس عرصہ میں معاشی اعتبار سے اب تک پانچ معاشی نظاموں سے گزر چکا ہے جن میں قدیم اشتراکی نظام ، قبائلی غلام دداری نظام ، جاگیر داری نظام ، سرمایہ داری نظام اور جدید سوشلسٹ ( اشتراکی ) نظام کی اشکال شامل ہیں۔

حکمرانی کے اعتبار سے انسان اقتدار کے باب میں اب تک تین طریقے آزما سکا ہے ۔پہلا اس طرح کہ کوئی آسمانی صحیفہ لا کر اپنی سچائی ثابت کر دے اور اس کا اقتدار قائم ہوسکے دوسرا یہ کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا کلیہ یعنی جس کے پاس تلوار اور بندوق ہو اقتدار اسکا استحقاق ٹھہرا ، تیسر ا طریقہ جمہوریت جس میں عوام کی بات کی جاتی ہے کہ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کی طرف سے گئی تعریف کے مطابق ”لوگوں سے حکومت ،لوگوں کی حکومت اور لوگوں کے لیے حکومت جمہوری حکومت کہلاتی ہے“ ۔

(جاری ہے)

یعنی لوگوں کی اکثریت جس کے ساتھ کھڑی ہو جائے وہی صاحب اقتدار ٹھہر جاتا ہے ۔یہاں لفظ لوگ کے لغوی معانی اگر بیان کر دیے جائیں تو قارئین کی عقلی تربیت میں ایک بہتر نکتہ ہوگاادارہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کی طرف سے شائع کردہ لغت کے مطابق لفظ ”لوگ“ کے 31کے لگ بھگ معانی دیے گئے ہیں ان میں جمہوریت کے زمرے میں آنے والے معانی پیش کر تا ہوں شاید کچھ سمجھ میں آسکے”وہ اشخاص/افراد جن کا تعلق کسی برتر بستی یا رہنما سے ہوجیسے "The king and his people"پھر خادموں یا رفیقوں /مصاحبوں کی ایک جماعت “ان معانوں میں لفظ لوگ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ”کسی ملک کے حق رائے دہی رکھنے والے شہریوں کی جمعیت “مزید یہ کہ ”انسانی بستیاں جانوروں کی ممیز ، کسی مبینہ قسم کے جانورجیسے"The monkey people of Brazil"اب ان بیان کردہ معنوں میں جب پاکستان کی جمہوریت کا خیال آتا ہے تو بیان کردہ لفظ ”لوگوں“ کی تعریفوں میں سے اگر کوئی تعریف بہترین انداز میں صادق آتی ہے تو و ہ ہے ۔

”انسانی بستیاں جانوروں کی ممیز “ کیونکہ انسانون کو جانوروں سے تشبیہ صرف لغت میں نہیں دی گئی بلکہ محسن انسانیت نبی مکرم ﷺ کے الفاظ بھی اس بات کو تقویت بخشتے ہیں کہ ” لوگ کیا ہیں اونٹوں جیسے سو میں ایک بھی سواری کے قابل نہیں “پاکستان میں آبادی کی اکثریت آج بھی ناخواندہ اور نا سمجھ ہے جسے اپنی حیثیت کا اندازہ تک نہیں کہ کہ لوگ اپنی زندگی کو مزید آرام دہ یا بہتر کیسے کر سکتے ہیں شاید اسی قسم کے لوگوں کے متعلق 1960ء کی دہائی میں ممتاز انقلابی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا :
دس کروڑ ہیں گدھے جن کو کہتے ہیں عوام
ان کے پاس نہ جائیو ان کو دور سے سلام
آج یہ تعداد 20کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی ہے ان جیسے لوگوں کی بنیاد پر قائم ہونے والی جمہوریت کو کہاجا سکتا ہے ؟نہیں ہر گز نہیں۔

اصل میں یہ جمہوریت مغرب کی تفویض کردہ جمہوریت ہے جس کے متعلق دانائے راز علامہ محمد اقبال کی بات کی جائے تو انہوں تو جمہوری نظام کے متعلق ایک شعر میں تشریح کر دی تھی لیکن شاید آج تک ہم اس کو سمجھے ہی نہیں شعر کچھ اس طرح ہے :
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
یعنی مغربی طرز جمہوریت کو کچھ اس طرح کا نظام کہا ہے کہ اس نظام میں بندوں کو گنا جاتا ہے فکری اعتبار سے تولا نہیں جاتا ۔

گننے اور تولنے کی وضاحت کرنا قارئین کے لیے ضروری سمجھتا ہوں ۔ مطلب یہ کہ بلا تمیز فکر و شعور و جنس انسانوں کی تعداد کو گن لینا کہ کس کی حمایت میں زیادہ افراد ہیں تو وہی اقتدار کاحق رکھتا ہے جیسا کہ پاکستان میں گزشتہ چوہتر سالوں سے مشق جاری ہے ۔ تما م استحصالی طبقات (خاندانوں)سے حکمران سامنے آتے ہیں ۔ محنت کش عوام کے استحصال سے لوٹی ہوئی دولت اور جاگیر کی بنیاد پر اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں حالانکہ کہ ان امیدواران یا جماعتوں کے پاس عوام کی فلاح و بہبود یا ترقی کے لیے کوئی منشور(پروگرام ) نام کی چیز تک موجود نہیں ہوتا صرف اور صرف معاشی مضبوطی سماجی حیثیت کی بنیاد پر یہ طبقات نمائندہ ہونے کا شرف حاصل کر لیتے ہیں پھر یہ کہ ہمارے حکمران اصل میں لوگوں میں سے ہوتے ہی نہیں ہیں وہ تو سامری جیسے جادوگر ہوتے ہیں اسی وجہ سے کہا جاتا کہ جمہوریت ہمیشہ عوامی امنگوں اور عوامی مفادات کا نام نہیں ہوتی ہمیشہ شعور کا مظہر بھی نہیں کبھی کبھی وہ سامری جادوگر کے سامنے سجدہ ریز ہو جایا کرتی ہے پاکستان جیسے معاشرے میں سیاسی جادوگر لوگوں کو انسان ہونے کا مقام تک دینے کو تیار نہیں ہوتے شاید اسی لیے محقق نے اولذکر لغوی معنوں سے جو تعریف لی ہے وہ پاکستان کے لوگوں پر واقعی صادق آتی ہے ان لوگوں کی بے شعوری سے استفادہ کرتے ہوئے منتخب ہونے والے ان کے بنیادی مسائل پر بات تک نہیں کرتے ان کا مقصد صرف اور صرف اقتدار میں آکر ایک قدیم طرز کے استحصالی نظام کو جاری و ساری رکھنا اور اسے تحفظ دینا ہوتا ہے ۔

جدید اشتراکی نظام معیشت کے بانی محقق /مفکرکارل مارکس نے آج سے ڈیڑھ سو سال لکھا تھا ” محکوموں کو ہر چند سالوں میں ایک مرتبہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ جبر کرنے والے حکمران طبقے کے کون سے مخصوص نمائندے ان کی نمائندگی کریں اور ان پر ظلم بھی ڈھائیں “۔ جمہوریت کی اصل میں کئی اقسام ہیں جن کا ذکر یہاں ضروری تصور نہیں کرتا، اس طرح کہ پاکستان میں جو جمہوری نظام رائج ہے یہ معاشرے کے بالا دست طبقات کی جمہوریت ہے جسے طبقاتی اعتبار سے بورژوا جمہوریت کہا جا تا ہے جدید انداز میں ہم ریاستی جمہوریت کہہ سکتے ہیں دوسری طرف محنت کش طبقات جب عنان اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں تو اسے پرولتاریہ جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے ۔

ممتاز مفکر اکمل ارتقائی کے مطابق جمہوریت ایسے سماج کو کہا جاتا ہے جہاں ہم فکر لوگوں کی اکثریت ایک منشور پر متفق ہو تو بنیادی طور پر جمہوری سماج معرض وجود میں آتا ہے کیونکہ جمہور کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے ہر اہل علم اور لاعلم کو برابر تصور کیا جائے اور سب کی اکثریت کو جمہوریت کہا جائے ۔ برطانوی محقق ”جے ایس مل“ کا صدا بہار نظریہ موجود ہے کہ ووٹ کا حق صرف اور صرف تعلیم یافتہ فرد کو دیا جائے بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ ایک اہل علم ہی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ جو فرد یا پارٹی نمائندگی کے لیے حمایت کی طالب ہے اس کے اہداف کیا ہیں ۔

پاکستان کے حالات پھر اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں کیونکہ یہاں نصابی تعلیم سے آراستہ فرد کو باشعور تصور کیا جاتا ہے جو حقیقت سیاسی طور پر با شعور نہیں ہوتا کیونکہ اصل سیاسی شعور کے حصول کے لیے معیشت اور سیاست دونوں کا علم ہونا ضروری ہے جس کی پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی یہاں تصورات(خیالی دنیاؤں) میں جکڑے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد معاشرے میں اہل رائے کہلاتے ہیں ۔

کسی کو اپنے بنیادی حقوق تک کا علم نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہمیں ہر نوجوان کو شہریت ، عمرانیات ، سیاسیات اور معاشیات کی تعلیم لازمی دینی چاہیے تا کہ با شعور ثابت ہو سکے اور اسے علم ہو سکے کہ معاشرے یا اقوام بڑی شاہراہوں ، میٹرو بسوں یا پھر اورنج ٹرینوں سے ترقی کرتے ہیں یا صرف اور صرف یکساں تعلیم بشمول فنی تعلیم ، اچھی اور بلا امتیاز معیاری اور مفت طبی سہولیات کی فراہمی ، روزگار کے لیے ایک جدید صنعتی معاشرہ کا قیام ، ہر شہری کو رہائش کی مفت سہولت کی ضمانت جیسے اقدامات کی ترقی سے معاشرے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں ۔

دعوے کی حد تک بات ہے کہ پاکستان جمہوری جد و جہد کے نتیجے میں قائم ہوا بعد از قیام پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ جنم کے ساتھ سے ہی کسی معاشی نظام کو ہدف نہیں بنایا گیا بلکہ جذبات اور مذہبی عقائدکا سہار الیا گیا ۔جبکہ آج تو ایک وفاقی وزیر یوم قائد اعظم کی ایک تقریب میں کھرا سچ دہرا چکے ہیں کہ ”قائد اعظم پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہر گز قائم نہیں کرنا چاہتے تھے وہ تو ایک جدید طرز کی ریاست کے قیام کے حق میں تھے “۔

پھر حکومتی دفاعی اور دیگر انتظامی اداروں کے درمیان تو اس روز ہی دراڑ پڑی گئی تھی جس روز کرنل اکبر نے گورنر جنرل پاکستان کے سامنے حکومتی سطح پر ہونے والے فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کیا تو گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے موصوف کو کھرے جواب سے مرحمت فرمایا کہ ”ملازم کا فرض ہے کہ دیے گئے احکامات پر عمل درآمد کرے نہ کہ رائے زنی کا مرتکب ہو“ ۔

اس واقع کے علم میں آنے کے بعد یہ بات اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی جمہوری دور اپنی مدت پوری کیوں پوری کیوں نہ کر سکا؟تاریخی حقیقت تو یہی سامنے آتی ہے کہ جمہوریت اور ماڈرن پاکستان کا تخلیل تو قائد اعظم کی رحلت کے ساتھ ہی دفن ہو گئے تھے ۔اس لیے یہ بات کہ پاکستان میں جمہوریت کیوں نہیں پنپی یا پنپنے دی نہیں گئی جواب واضح ہے یہاں جن طبقات کے پاس سیاست کی باگ ڈور رہی ہے وہ عوام سے نہیں تھے اور نہ آج ہیں ۔

وہ انقلابی شاعری سے اپنے مطلب کے اشعار پڑھ کر عوام کو گرما تو سکتے ہیں لیکن جمہوریت یا انقلاب کی ابجد سے واقف یا مخلص تک نہیں ہیں ۔ جمہوریت بنیادی طور پر صرف افراد کو گننے یا زیادہ کی حمایت حاصل کرنے کا ہر گز نام نہیں ۔جیسا کہ پہلے بھی تحریر کر دیا گیا ہے کہ جمہوریت کی کئی ایک اقسام ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں جمہوریت کی کون سی قسم میں جکڑا گیا ہے ۔

جمہوریت کی اقسام میں سب سے پہلے سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے پھر جاگیردارانہ جمہوریت ، ریاست کی زیر نگرانی جمہوریت ، صدارتی جمہوریت ، بنیادی جمہوریت ،نام نہاد پارلیمانی جمہوریت ، شہنشاہا نہ جمہوریت اور جو اصل جمہوریت ہے وہ غیر طبقاتی بنیادوں پر محکوم طبقات یعنی محنت کشو ں کے ہاتھ عنان اقتدار کا آنا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں سیاسی زبان میں پرولتاریہ کی جمہوریت جو 1917ء کو سوویت یونین ( موجودہ روس ) میں آئی اور اشتراکی نظام کے ذریعے ذرائع اپیداوار کو پوری قوم کی ملکیت میں لے کر برابر تقسیم کر دیا گیا پوری دنیا میں ایک پیغام دیا گیا کہ ممتاز معیشت دان فریڈرک اینگلز اور کارل مارکس کی تحقیق کے بعد جو نظریہ سامنے آیا وہ سچ ہے ۔

یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اخلاقی رہنمائی ادیان سے لی گئی لیکن کسی دین نے استحصال سے پاک معاشرہ قائم کرنے کے لیے کوئی طریقہ وضع نہیں کیا ۔ صرف جذبات اور اعلیٰ فکری اعمال کا ذکر کیا گیا جو آج کے مادی معاشرے میں سوچی تو جا سکتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد ایک دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس وقت پاکستان میں جو جمہوری نظام نافذ ہے اس کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ ووٹر ( رائے دہندہ ) کا کوئی فکری یا علمی معیار مقرر نہیں کیاگیا ہر طاقتور ووٹ لے سکتا ہے ہر ناخواندہ یا خواندہ حتٰی کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ایک ہی چھڑی سے ہانکے جاتے ہیں اس کے بعد اگر تھوڑی دیر کے لیے اس نظام کو مان بھی لیا جائے تو عوام کے منتخب کردہ نمائندگان کو بااختیار کتنا بنا یا جاتا ہے انہیں ایک فریم ورک دیا جاتا ہے جس کے اندر رہ کر وہ ریاست اور اس کے اداروں کے پابند ہو تے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے منشور صرف روایات کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں بلکہ فی زمانہ تو شخصیات کی ذاتیات پر تنقید کے سواکوئی سیاست دکھائی نہیں دیتی ،منتخب ہو جانے کے بعد حکومتی جماعت ریاست کی طرف سے تفویض کر دہ ایجنڈے پر عمل کرتی ہے پاکستان میں جن طبقات کے ہاتھ عنان حکومت ہوتی ہے پہلے وہ فدوی ہوتے ہیں پھر عوام ان کے سامنے زر خرید غلام ، اس طرز پرجتنا سیاسی شطرنج کھیلا جارہا ہے اس میں کسی جگہ پر عوام تو دکھائی تک نہیں دیتے اس لیے پاکستان کو ایک جمہوری ملک تصور کرنے تک بات ٹھیک ہے لیکن عملی طور یہ ایک بادشاہ اور رعایا کے نظام پر مبنی ریاست ہے جس میں عوام کے حقوق جن میں یکساں معیار کی تعلیم ، صحت ، رہائش اور روزگار کی سہولیات ایک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں ۔

اگر عوامی جمہوریت کی بات ہے تو پھر پہلی مثال یورپ کی دی جا سکتی ہے جہاں گزشتہ پانچ صدیوں میں ترقی کا راز سات نکات کے اندر پنہاں ہے ۔ یکساں علم کا فروغ بلا تمیز طبقہ یا نسل، عقد سے آزاد عقل کی بالا دستی ، قانون کی حکمرانی ، انصاف اور مساوات ، انسانوں کے حقوق کا تحفظ ، عام انسانوں کا احترام ۔ یہ مثال تو یورپ کی ہے جہاں آج بھی رسمی لیکن بادشاہت کا نظام موجود ہے اب اصل میں اس جمہوریت کی مثال جس کے متعلق ماہر تعلیم پروفیسر خواجہ مسعود نے کہا تھا کہ جمہوریت سوشل ازم اور سوشل ازم جمہوریت کے بغیر نامکمل ہے ۔

یعنی ایک ایسا معاشی نظام جس کا تعارف دنیا میں ممتاز ماہر معاشیات کارل مارکس اور اینگلز نے دیا کہ انسان ایک ایسا معاشرہ ترتیب دے سکتے ہیں جس میں چار بنیادی انسانی حقوق (روزگار ، رہائش ، تعلیم اور صحت ) کی ضمانت ریاست دے اور عنان حکومت پر مکمل محنتی طبقہ براجمان ہو ۔اگر ذرا غور کیا جائے تو دنیا کی تخلیق اور ترقی محنت کش طبقہ کی وجہ سے رواں دواں ہے ۔

سوشلسٹ جمہوریت ایک ایسا نظام ہوتا ہے جس میں استحصال سے پاک معاشرہ قائم ہوتا ہے جرائم نہ ہو نے کے برابر جا سکتے ہیں ذرائع پیداوار(زمین ، محنت ، سرمایہ اور تنظیم) کی نجی (ذاتی) ملکیت نہیں ہوتی اور پورے ملک کی زمین پوری قوم کی ملکیت ہوتی اور دیگر ذرائع پیداوار (معدنیات ، جنگلات ، صنعت اشیاء و خدمات کی درآمد و برآمدوغیرہ )بھی پوری قوم کی ملکیت میں ہوتے ہیں ملک کے ہر شہری کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں ہر بالغ شہری ملکی تعمیر و ترقی کا برابر حصہ دار ہوتا ہے پھر1949ء میں ماؤ زے تنگ کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد عوامی جمہوریہ چین جیسی بڑی معاشی طاقت بن کر عالمی نقشے پر ابھرتی ہے ۔

1969ء میں ایک گڈریے کے بیٹے کرنل معمر قذافی کی قیادت میں لیبیا میں، ہوچی منہ کی قیادت میں ویت نام وغیرہ کے بعد آج بھی سوشلسٹ ری پبلک آف سر ی لنکا جیسے ممالک دنیا کے نقشے پر قائم ہیں ۔ پاکستان میں ایسی ہی جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں ایک غیر طبقاتی معاشرہ کے قیام کے نتیجے میں یہاں بھی واقعی قائد اعظم کی تخلیاتی ماڈرن (جدید ) ریاست وجود میں آسکے۔جدید کا مطلب سمجھنے کے لئے ہمیں آج دوبئی اور سعودی عرب کی طرز ریاست کو دیکھنا ہو گا تا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے یہ وطن عزیز بھی اسلامی عوامی جمہوریہ پاکستان بن جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :