نفرتوں کے سوداگر

منگل 18 دسمبر 2018

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

16 دسمبر ۔۔ تاریخِ پاکستان کا سیاہ ترین دن، وہ دن جب قائد کا پاکستان دولخت ہوا، وہ دن جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری عظمتیں سرِعام نیلام ہوئیں، وہ دن جب جنرل اروڑا نے جنرل نیازی کے تمغے نوچے، وہ دن جب پاکستان کے 90 ہزار فوجی اور شہری پا بہ زنجیر ہوئے اور وہ دن جو ہمارے جہنم سے نکلے ہوئے پڑوسی بھارت کی خباثتوں کا مُنہ بولتا ثبوت ہے لیکن تاریخ کا سبق یہ کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا، ہم نے بھی سبق حاصل نہیں کیا۔

زندہ قوموں کے رہنماء اپنی قوم کو متحد رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو صرف نفرتوں کے سوداگر ہی جنم لیتے ہیں اور وہ بھی تھوک کے حساب سے۔ بھٹو سے عمران خاں تک جو بھی آیا، اپنی مسندِ اقتدار بچانے کی خاطر نفرتوں کا سودا ہی کرکے گیا۔

(جاری ہے)

ایک دوسرے کو سکیورٹی رِسک اور غدار قرار دینے کا وتیرہ آج بھی عام ہے اور قوم کی نَس نَس میں نفرتوں کا زہر بھرنے والے بھی گلی گلی۔

موازنہ کرکے دیکھ لیجیئے، دسمبر 1971ء اور دسمبر 2018ء میں سرِمُو فرق نظر نہیں آئے گا۔ تو کیا ہم (خاکم بدہن) کسی اور سانحے کے انتظار میں ہیں؟۔
جمہوری ملکوں میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں لیکن پاکستان میں انتخابات کا معاملہ بھی عجیب کہ 70ء کے انتخابات پاکستان کو دولخت کر گئے۔7 دسمبر 1970ء کو جنرل یحیٰی خاں نے ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات کروائے۔

مقصد تو اُس کا یہ تھا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت قطعی اکثریت حاصل نہ کر سکے تاکہ اُس کی صدارت قائم رہے لیکن ہوا یہ کہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ قومی اسمبلی کی 313 میں سے 167 نشستیں لے اُڑی اور مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کو صرف 80 نشستیں حاصل ہوئیں۔ یحیٰی خاں نے اپنی حکومت ڈانواں ڈول ہوتے دیکھ کر ذوالفقارعلی بھٹو سے ملی بھگت کی اور اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے کرنے سے انکارکر دیا۔

شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان میں منتقل کر دیا گیااور پاکستان دولخت ہو گیا۔
7 مارچ 77ء کو دوسرے عام انتخابات ہوئے۔ اِن انتخابات میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ پاکستان قومی اتحاد (PNA ) سے ہوا۔ انتخابی نتائج کو پی این اے نے تسلیم نہ کیا جس سے ضیائی مارشل لاء کی راہ ہموار ہوئی اور جولائی 1977ء میں ضیائی آمریت مسلط ہوگئی۔

ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے اور اِسی آمریت کے زیرِسایہ بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ بھٹو کی پھانسی کو آج بھی ”جوڈیشل مرڈر“ قرار دیا جاتا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد 16 نومبر 1988ء کو تیسرے عام انتخابات ہوئے۔ پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی کی 204 میں سے 93 نشستیں حاصل کیں اور بینظیر بھٹو عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔

اُس وقت تک 58-B-2 کی تلوار صدر کے پاس تھی چنانچہ 1990ء میں اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خاں نے بَدعنوانی اور لاقانونیت جیسے الزامات لگا کر بینظیربھٹو کو گھر بھیج دیا اور ایک دفعہ پھر عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ 24 اکتوبر 1990ء کو چوتھے عام انتخابات ہوئے جن میں نون لیگ اور اتحادی جماعتوں (IJI ) نے 105 نشستیں حاصل کیں اور میاں نوازشریف وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔

90ء کے انتخابات بھی وزیرِاعظم میاں نوازشریف اور صدر غلام اسحاق خاں کی نذر ہوگئے۔ دونوں کی باہمی کشمکش کی بنا پر 1993ء میں دونوں کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
پانچویں عام انتخابات 6 اکتوبر 1993ء کو ہوئے جن میں بینظیر بھٹو نے چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور اپنی ہی جماعت کے فاروق احمدخاں لغاری کو صدر منتخب کروایا لیکن ہوا یہ کہ فاروق لغاری نے ہی اٹھاون بی ٹو کی تلوار چلا کر بینظیر کی حکومت کا خاتمہ کیا، گویا ”گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“۔

1997ء کے عام انتخابات میں نوازلیگ نے 135 نشستیں حاصل کرکے میدان مار لیا جبکہ پیپلزپارٹی کے حصّے میں صرف 18 نشستیں آئیں۔ میاں نوازشریف وزیرِاعظم بنے لیکن اکتوبر 1999ء کو مشرفی آمریت نے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ میاں نوازشریف پہلے گرفتار ہوئے اور پھر جلاوطن کر دیئے گئے۔ 2008ء کے انتخابات سے چندروزپہلے بینظیربھٹو دہشت دردی کی نذر ہو کر اللہ کو پیاری ہو ئیں اور 2013ء کے انتخابات عمران خاں کی تحریکِ انصاف کی اِس لحاظ سے بھینٹ چڑھ گئے کہ نوازحکومت کی راہ میں قدم قدم پر روڑے اٹکائے گئے۔


 یہی وہ دَور تھا جب پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین 126 روزہ دھرنا ہوا جس کے دَوران سپریم کورٹ کی دیواروں کے جنگلوں پر ”پوتڑے“ لٹکائے گئے، پارلیمنٹ ہاوٴس کے گیٹ توڑے گئے، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا، وزیرِاعظم ہاوٴس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی اور خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر سول نافرمانی کا اعلان کیا۔ آج وہی عمران احمد خاں نیازی (ماشاء اللہ) ملک کے وزیرِاعظم ہیں جن کے بارے میں اپوزیشن بَرملا کہتی ہے کہ وہ ”الیکٹڈ“ نہیں ”سلیکٹڈ“ ہیں۔

پہلے 2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خاں سرِعام کہا کرتے تھے کہ نوازلیگ کو اسٹیبلشمنٹ نے منتخب کیا ہے۔ آج نوازلیگ اور پیپلزپارٹی بھی تحریکِ انصاف پر یہی الزام دھرتی ہے۔ بلاول بھٹو نے تو وزیرِاعظم کے ساتھ مستقل ”سلیکٹڈ“ کا سابقہ لگا دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر 70ء میں ہونے والے انتخابات شفاف ترین تھے تو 2018ء میں ہونے والے انتخابات بدترین کہ رپورٹس یہی کہتی ہیں۔


فافن کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے 249 حلقوں میں جاری ہونے والے 78467 فارم 45 پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط نہیں ہیں۔ ہمیں دَورانِ ملازمت لوکل اور عام انتخابات میں کئی بار بطور پریذائیڈنگ آفیسر خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا اِس لیے ہم خوب جانتے ہیں کہ اگر فارم 45 پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط نہ ہوں تو نتائج صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ اُنہیں سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہی وہ فارم ہے جس پر تمام اُمیدواروں کے حاصل کیے گئے ووٹوں کا اندراج ہوتا ہے۔

اگر فافن کی رپورٹ کے مطابق واقعی 249 حلقوں کے فارم 45 پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط نہیں تو اِن نتائج کو کون تسلیم کرے گا۔ فافن کی رپورٹ سے پہلے ”یورپی یونین مبصرین کمیشن“ بھی 2018ء کے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کر چکا ہے۔ ”دی نیوز“ نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق 12ہزار فارم 45 کا جائزہ لیا گیااور 90 فیصد فارم پولنگ ایجنٹس کے دستخطوں کے بغیر پائے گئے۔

”پِلڈاٹ“ کے احمد بلال اور سابق سیکرٹری کنور دلشاد احمد نے بھی نتائج پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ پولنگ ڈے پر الیکشن کمیشن کا الیکٹرانک سسٹم بیٹھ جانا اور نتائج کا گھنٹوں تک رُک جانا بھی نتائج کو مشکوک بناتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ 2013ء کے انتخابات میں سامنے آتا تو کپتان ایک لحظے کی دیر کیے بغیر سڑکوں پر ہوتے لیکن متحدہ اپوزیشن نے مستحسن قدم اٹھاتے ہوئے سڑکوں پر آنے کی بجائے اِس معاملے کو پارلیمنٹ کے اندر حل کرنا ہی بہتر جانا حالانکہ مولانا فضل الرحمٰن کی شدیدترین خواہش تھی کہ نتائج کو تسلیم کیا جائے اور نہ ہی ارکانِ اسمبلی حلف اٹھائیں۔

عمران خاں نے پہلے دن ہی یہ اعلان کر دیا کہ اپوزیشن جس حلقے کو بھی کھلوانا چاہے، وہ تیار ہیں لیکن جب خواجہ سعد رفیق نے دوبارہ گنتی کے لیے درخواست دی تو خاں صاحب نے یو ٹرن لیتے ہوئے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا۔ اب بھی وقت ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے کیونکہ اگر اپوزیشن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ سڑکوں پر نکل آئی تو ہوسکتا ہے کہ جمہوری دَر ایک دفعہ پھر بند ہوجائے اور آمریتوں کے سیاہ ناگ پھنکارنے لگیں۔

ہم تو اپنے رَہنماوٴں کو یہی استدعا کر سکتے ہیں کہ وہ نفرتوں کی سوداگری چھوڑ کر ملک وقوم کی بہتری کی خاطر ”ایک صفحے“ پر ہوجائیں کہ اِسی میں سب کا بھلا ہے۔ اگر ہوسِ اقتدار نفرتوں کو یونہی جنم دیتی رہی تو پھر تاریخ (خاکم بَدہن) دسمبر 1971ء کو دہرا بھی سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :