ہمیشہ سے ایسا نا تھااور ناہی رہے گا!!

پیر 25 فروری 2019

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

جستجو انسان کی سرشت میں شامل ہے۔بلکہ یہ کہاجائے کہ کھوجنا اور جاننے کی سرشت آخری سانس تک زورآور رہتی ہے۔نظرآنے اورنا نظر آنے والے مظاہرکو’معلوم ‘کرنا زندگی کا اہم تقاضاہے۔جاننے اور علم حاصل کرنے کی سرشت میں ہی انسانی ارتقاء کی گُتھی پنہاں ہے۔
پیدا ہوتے ہی’زندگی‘گردونواح کا جائیزہ لیتی،رنگوں اور روشنیوں کے ’طلسمات ‘کی اسیر ہوجاتی ہے۔

بچے کی ذہنی نشونماء اسکی جسمانی نشونماء سے تیز تر ہوتی ہے،پھر یہ دونوں طرح کی بڑھوتریاں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ابتدائی علم‘ رنگوں اور روشنیوں کے دائروں میں ،دیکھنے ،چھونے اور منہ سے محسوس کرنے کے تجسس میں ہوتا ہے ۔اگلے درجے کے علم تک پہلے سے موجود قریبی انسانوں کی وساطت سے رسائی ملتی ہے۔

(جاری ہے)

دریں اثناء انسان اپنی عمر کے ان حصوں میں پہلے سے موجود معلومات ،علم، تجربات، حاصلات اور نتائج تک خود کومحدود نہیں رکھ پاتا۔

انسان کی یہی ’بغاوت ‘جو وراثتی علم سے استفادے کے باوجود اس پر’ شک‘ کرنے پرمجبور کرتی ہے ‘ سماجی،ثقافتی،مہارتی شعبوں میں حاصلات کاباعث بنتی ہے۔ شک یا ’اور جاننے ‘کی جستجو سے تہذیبوں کی پیش رفت ممکن ہوپاتی ہے۔اگرایسا نا ہوتا تو انسان آج بھی پتھر کے زمانے میں جی رہا ہوتا۔ ماضی کے انسان اور اسکے رہن سہن،زندگی اور معاشرت کے بارے میں جاننے کی تڑپ فطری طورپر انسان کو تاریخ کے مطالعے کی طرف لے جاتی ہے۔

تاریخ ‘آج کے انسان کا ماضی سے رشتہ استوارکرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔گزرے ہوئے کل کا انسان اور اسکی معاشرت‘ انسان کا قابل قدرورثہ ہے ۔ لیکن تہذیبوں کے عروج وزوال،عظمت وسطوت ،تبدل وترقی کی تشریح وتاریخ کے دومعروف ذرائع ہیں۔تاریخ کو ”اقتدارواختیار اور ذرائع دولت پر قابض قوتوں اور ان سے منسوب اعمال وافعال سے سمجھنے کا طریقہ کار۔

یوں تاریخی زمانوں کے وسیع وعریض خاکوں میں حاکم ومسلطوں کے رنگ بھر کے گویا پورے کے پورے سمند ر کو مبہم‘ مگر دلچسپ داستان آرائی کے کوزے میں بند کرکے ‘ ”تاریخ “کاعنوان دے دیا جاتا ہے۔ اس داستان گوئی میں بہت سے حقیقی عوامل بھی شامل کئے جاتے ہیں مگر انکی حیثیت ثانوی ہوتی ہے،جیسے جنگوں میں‘ گوسپاہیوں اور فوج کے کمان داروں کا تذکرہ ہوتا ہے مگر تمام تر حکمت عملی ،ذہانت، تدبراورجیت کا سہرا حکمران خانوادوں یا اعلی عہدوں پر فائیز افراد سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔

اسی طرح تاج محل کوا ب تک صرف ایک بادشاہ کی محبت اور تعمیراتی کارنامے کے تناظرمیں ہی دیکھا جاتاہے۔تاج محل کا منفرد ڈائیزائن،تعمیراتی انجینئرنگ ،بھاری بھرکم پتھروں کی باربرداری سے لیکر سنگ سفید کی تراش خراش تک کے مراحل کو یکسر تاریخ کی کفائت شعاری کی ٹوکری میں غائب کردیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی عمارات، قلعے،باغ اور محلات کیا بادشاہوں ،شہزادوں یا وزیروں نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کئے تھے؟ ان ہاتھوں اور ہنرکاکہیں ذکر تک نہیں ملے گا‘ ‘جن کے سبب بیان کردہ عجوبے تعمیرہوئے اور اک جہاں کی داد سمیٹ رہے ہیں۔

اسی طرح ہندوستان کی ہزاروں سالہ تاریخ پر ہزاروں دستیاب کتب میں ”عوام“ یا خلق کا کہیں بھی تذکرہ اس انداز میں نہیں پایا جاتا جس میں معاشرتی حرکت کے حقیقی عامل کے طور پر انکی شناخت ممکن ہوسکے۔صرف حکمرانوں،بادشاہوں،وزیروں اوردرباریوں کے علاوہ کروڑوں عوام بالخصوص انکی زندگی تاریخ کے صفحات سے غائب ہیں۔حکمران طبقے کی شاہانہ زندگی،عیش کوشی کے ساتھ انکے مصائب،بیماریاں،جسمانی وذہنی خصوصیات،محلاتی سازشیں،جنگیں ،شکستیں اور فتح یابی کے یکطرفہ خدوخال ،اس قسم کی تاریخ کا موضوع خاص ہوتے ہیں مگر عوام کی معاشی اور سماجی صورتحال کیا تھی اور وہ کن کن مشکلات سے دوچارتھے؟ اس سے ”درباری تاریخ نویسوں“ کی عدم توجہی ایک عام مظہر ہے۔

ایسی تاریخ نویسی ‘عالم میں بالادست طبقات کی لونڈی ہونے کی وجہ سے رائج اور معروف قراردی جاتی رہی ہے۔ایسی تاریخ میں سماج کی بالائی پرت کی زندگی ہی رواں دواں ہے اور نیچے گویا کچھ تھا ہی نہیں،اس تاریخ نویسی کا تو یہی مطلب سمجھ آتا ہے کہ تاریخ کی اس قسم میں انسان اور معاشرے کی ترقی کے بنیادی عوامل ناتو محنت کش تھے اور ناہی باقی عوام کا سماجی،معاشرتی اور معاشی ترقی میں کوئی کردار تھا بلکہ زمین پر صرف حکمران طبقہ ہی ساری حرکت ،تبدیلی اور بڑھوتری کا بنیادی محرک تھا۔


 ذرائع پیدوار اپنی ابتدائی اور سادہ ترین ہیئت سے کس کس طرح ترقی پاتے گئے اور ان سے سماجوں اور تہذیبوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟کیا انسان ازل سے اپنی اسی حالت میں تھا اور اس میں کسی قسم کی جسمانی اور ذہنی ترقی نہیں ہوئی ؟ اور اگر ہوئی تو کیوں کر ؟کن عوامل کی بنا پر انسان اپنی ابتدائی ہیئت سے بدلنا شروع ہوا۔کیا انسان کی ذہنی استعداد ‘ابتداء آفرینش سے ایسی ہی تھی یا پہلے انسان سے موجودہ انسان تک مسلسل تبدیلیوں کا عمل جاری وساری رہا ؟کیا ابتدائی انسان پیدا ہوتا ہی جدید وضع قطع کا تھا؟کیا ابتدائی انسان خودکار طریقہ سے آگاہ و ضروریات زندگی سے فیض یاب تھا یا پھر اسے ایسا کرنا پڑا ؟ جیسے مختلف خطوں ،علاقوں،موسموں،جغرافیے،سماجی پیش رفتوں اور ادوار میں انسانوں کا ارتقاء یکساں نہیں تھا،اسی طرح مختلف جگہوں کے انسانوں کی زبانوں کا ارتقاء بھی مختلف طرح سے ہوا۔

بے ہنگم آوازوں اوراشاروں سے لفظوں کومرتب کیا جانا اوربعدازاں لفظوں کو جوڑنے اور زبانوں کی تشکیل کے طویل ترین مراحل خالصتاََ انسانی محنت اور جستو کا مظہر ہیں۔مگر تاریخ نویسی کا بیان کردہ مکتبہ فکر‘طویل معاشرتی زندگی کے ارتقاء اور اسکی جذیات ،حتہ کہ حاصلات سے ہی لاتعلق ہے۔ زبان کی طرح رہن سہن،بود وباش،کھانا پینا،خوراک کاحصول اورکچی خوراک سے پکانے کے عمل تک ‘ یہ متذکرہ بالا تمام عوامل انسان کو قدرت نے کلی طور پرتحفتاََ نہیں ملے بلکہ زمین پر موجود ’زندگی‘ کے مختلف اظہاروں کے ساتھ انسانی محنت کی مسلسل آویزش نے خام زندگی کو جدید زندگی تک پہنچانے میں فیصلہ کن کردار عطاکیا ہے۔

مسلسل جستجو،تغیروتبدل،محنت سے بھرپوربہت ہی طویل زمانی ارتقاء کو یکسر نظرانداز کرکے ”سب کچھ پہلے سے ہی موجود تھا‘ ‘ کاتاثر ‘ہوسکتا ہے کہ تحقیق کی مغز ماری سے بچنے کی بھی کوشش ہو مگر زیادہ امکانات ہیں کہ ایسا شعوری طور پر کیا جاتارہا ہے اور ابھی تک کیا جارہا ہے۔پتھرکے اوزاروں سے دھات تک کی تبدیلی بذات خود مختلف زمانوں پر محیط ہے۔

جسکا درمیانی عرصہ دیگر’ حرکات‘ کے ساتھ ساتھ جستجو،تلاش،دریافت اورخام کو جدت دینے کے طویل دورانئے پر مشتمل نظرآتا ہے۔
بالکل ابتدائی انسان سے موجودہ انسان کی ذہنی نشوونماء وجملہ ترقی میں اوزار یا ذرائع پیداوار کا کردار کتنا فیصلہ کن رہا ہے ؟ روائتی تاریخ ‘معاشروں کی طرح انسان کے بارے میں بھی تقریباََ ساکت وجامد رویے کی حامل ہی نظر آتی ہے۔

تاریخ اتنی سادہ ہے یا سوچی سمجھی چالاکی کی بنا پر اس پر صرف بالادست طبقات ہی حاوی چلے آرہے ہیں؟ ایساہرگز نہیں ہے کہ تاریخ صرف داستان گوؤں ،درباریوں اور حکمران طبقہ کے منشیوں کے قلم سے ہی مرتب ہوپائی ہے۔ تاریخ یقینا بہت ہی مظلوم ہوتی اگر ایسا ہی ہوتا تو۔انسان،تہذیب اورمعاشرتی تغیروتبدل پر زورآوروں کا نکتہ نگاہ حرف آخر قراردیا جاسکتا تھا اگر تبدیلی اور انسانی محنت کے راز کو خود زمین اپنے سینے میں چھپاکر نا رکھتی تو۔

”مدفن تہذیبیں“ یقینا تاریخ کی محسن ہیں جنہوں نے تہہ درتہہ اپنے سینے میں گزرے معاشروں کو ارتقائی پیش رفت سمیت چھپاکررکھا ہواہے۔یہ تہذیبیں سب سے پہلے تو واضع کردیتی ہیں کہ ”سب کچھ ہمیشہ سے ایسا نا تھا جیسا آج دکھ رہا ہے “اس سے یہ اخذ کرنا بہت ہی آسان ہے ”جو کچھ آج ہے وہ بھی ہمیشہ نہیں رہے گا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :