یوم مئی 2020ء:کرونااورسرمایہ داری دونوں مہلک ہیں

جمعہ 1 مئی 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

یقینی طور پر کرونا کی عالمی وباء نے نا صرف پوری دنیا کو بدل کررکھ دیا ہے بلکہ اس دنیا کی بہترین تشریح بھی کردی ہے‘ جس کے وسائل پر اقلیتی سرمایہ دار طبقہ قابض ہے۔ سرمایہ داری ایسے ہی عالمی سطح کے غیر معمولی واقعات میں اپنے چہرے پر نقاب لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔سرمایہ داری نظام کتنا سفاک ہے اسکی ایک وضاحت تو اسکے صحت کے نظام نے کردی ہے۔

جن انسانوں کی محنت اور زندگیوں کے بغیر سرمائے کا یہ کھیل ممکن نا تھا اور سردست نا ہے ،دنیا بھر میں اسکے تحفظ کیلئے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ امریکہ اس مالیاتی نظام کا چہرہ ہے اور وہاں اسپتالوں میں ماسک، بیڈ ،وینٹی لیٹرزاور دیگر درکارآلات کی عدم موجودگی اس صورتحال کو بالکل واضع کرتی ہے کہ اکیسویں صدی کی ترقی اور عظیم تر کامیابیاں انسانوں کی زندگیاں بچانے کی اہلیت نہیں رکھتی بلکہ اسکا رخ صرف منڈی کی بقاء اور منافعوں میں اضافوں تک ہی محدود ہے۔

(جاری ہے)

منڈی کو کنٹرول کرنے والی قوتیں”دنیا کو بغیر انسانوں “کے ہی دیکھتی آرہی تھیں اس لئے انکے لئے انسانی زندگی کے تحفظ اوربقاء کبھی بھی ترجیح نہیں رہے۔یہ کوئی الزام نہیں بلکہ پورے امریکہ اور سارے براعظم یورپ کے قبرستان اور ناکارہ اسپتال اسکی گواہی دے رہے ہیں۔ سرمایہ داری کی ترقی‘ مریخ سے آگے پہنچ گئی ہے مگر مریخ تک پہنچانے والے اس مزدور کو نا دیکھ سکی جس نے وہ کیل کانٹے ،آلات اور مشینیں بنائی جن کے سبب کائنات کے دوردراز جہانوں تک رسائی ممکن ہوئی۔

اسکی بنیادی وجہ صحت کے حقیقی نظام کا غیر منافع بخش ہونا ہے۔ سرمایہ دار وں کے نذیدک منڈی کی معیشت میں منافع کے بغیر محض انسانی بنیادوں پر کسی (صحت)شعبے پر رقم خرچ کرنایقینی طور پر بے وقوفی اور اسراف ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یورپ یا امریکہ میں صحت کا کوئی نظام ہی نہیں ہے! بالکل ہے‘ مگر یہ ناتو مفت ہے اور نا ہی عام لوگوں کیلئے۔ ”کرونا وباء“ نے واضع کردیا ہے کہ سرمایہ داری نظام کے رہتے ہوئے نا تو نسل انسان کا تحفظ ممکن ہے اور ناہی سرمایہ داری نظام کے تحت کوئی موثر نظام صحت استوار کیا جاسکتا ہے۔

سرمایہ داری میں صرف کھربوں ڈالر کمانے والی ادویات ساز کمپنیوں کو فائیدہ پہنچانے کا نام ہی ”نظام صحت“ ہے، ان کمپنیوں اور انکے شعبہ تحقیق کا کردار ہمیشہ کی طرح اس عالمی وباء کے موقع پر بھی مجرمانہ ہے۔ عام لوگوں کے لئے صحت کا نظام ترقی یافتہ ممالک میں بھی ریت کے ستونوں پر کھڑا تھا جو ”کرونا وائرس“کے ٹکرانے سے زمین بوس ہوچکا ہے۔

عام لوگ جن میں اکثریت غریبوں،محنت کشوں، بیماروں اور قدرے کم معیارزندگی کے حاملین کی ہے کیلئے یورپ اور امریکہ میں بھی علاج معالجے کی سہولیات اتنی ہی دور ہیں جتنی تیسری دنیا کے ممالک میں۔    
دوسری اہم بات جو ”کرونا وائرس کی عالمی وباء “ کے باعث اور بھی شدت سے بے نقاب ہوئی کہ جتنے بھی حالات خراب ہوں، جنگ ہو،قحط یا پھر موت بانٹنے والا عفریت نما کرونا وائرس‘ سرمایہ داروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔

امریکہ میں ابھی ایک بھی کرونا کا مریض نہیں تھا اور نا ہی وہاں کسی قسم کا ہیجان پیدا ہوا تھا، ابھی خطرہ چین ،ایران اور دور افتادہ ممالک میں تھا ‘جب ٹرمپ انتظامیہ نے سرمایہ داروں کیلئے دوکھرب ڈالر کی خطیر رقم لٹا دی۔ کروڑوں عام لوگوں کیلئے بعد ازاں معمولی رقم رکھی گئی جو چند درجن کمپنیوں کے سامنے بہت ہی حقیر تھی۔        ایسا ہی وطن عزیز میں ہوا،جہاں بارہ سو ارب روپے کی خطیر رقم ملک کے سرمایہ داروں اور برآمدکندگان کیلئے اور 22کروڑ لوگوں کیلئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (جس کو احساس پروگرام کا بے معنی نام دیا گیا ہے)140ارب روپے کی وہی رقم جو بجٹ میں ہر سال اناؤنس کی جاتی ہے۔

بس کیا یہ گیا ہے کہ پچھلے مہینوں میں جتنے گھرانوں کی کانٹ چھانٹ کی گئی تھی اتنے ہی (کرونا وباء متاثرین قراردیئے گئے )نئے لوگوں کو شامل کرکے تین ماہ کی امدادی رقم یک مشت دی جارہی ہے۔اس امداد کا حاصل کرنے کے مراحل کتنے دشوار، شرمناک اورصحت کے حوالوں سے خطرناک ہیں اسکا اندازہ بنکوں اور امدادی سنٹرز کے باہر لوگوں کے اجتماعات سے لگایا جاسکتا ہے۔

اس امدادی رقم اور اسی قسم کے نام نہاد ریلیف کی مختلف سکیموں سے صرف پیشہ وربھیکاری ہی فیض یاب ہوئے ہیں مگر عوام کے وہ وسیع حصے جن میں حالیہ وبائی دنوں میں برطرف اور بے روزگار محنت کش شامل ہیں ان تک کسی حکومت کی رسائی سردست ممکن نہیں ہوسکی اور ناہی سردست کوئی امکان نظر آتا ہے۔    ایک طرف کرونا کی وباء نے پاکستانی سرمایہ داروں کیلئے حکومتی امداد کی راہ ہموار کی ہے تو دوسری طرف بے پناہ سرمائے اور منافعوں کی حامل فیکٹریوں نے عارضی لاک ڈاؤن کا بوجھ بھی مزدوروں پر ڈالنا شروع کردیا ہے۔

ہر روز کسی نا کسی فیکٹری یا ادارے سے سینکڑوں مزدوروں کو فارغ کرنے کی خبریں آرہی ہیں۔ایک مزدور جو منڈی میں صرف اپنی محنت بیچنا ہی جانتا ہو،لاک ڈاؤن(جب ہر طرف پہیہ رکا ہوا ہے) کے دوران اسکی برطرفی اسکے گھرانے کی موت کے اعلان سے کم نہیں ہوگی۔1200ارب روپے کے امدادی پیکج میں حکومت نے مزدوروں کے روزگار کو یقینی رکھنے کے کسی حکم کوجاری نہیں کیا۔

حالانکہ ایسا کرنے سے سرمایہ داروں کو کوئی نقصان نہیں ہونا تھا،انکوبھی تو بغیر کام کئے حکومتی امداد مل رہی ہے،ٹیکسوں میں چھوٹ اور درپردہ قرضوں کی معافی کا عمل جاری ہے ۔ لاک ڈاؤن کے بعد برطرف مزدوروں کا صرف ایک حصہ ہی واپس اپنے کام پر آسکے گا،کیونکہ ان دنوں ‘سرمایہ داروں کے ماہرین کی ٹیمیں کم مزدوروں سے زیادہ کام لینے کے منصوبوں پر سوچ بچار کررہی ہونگی۔

یقینی طور پر کرونا وباء کے طبقاتی اثرات ہو سو نظر آرہے ہیں۔جانی اور مالی اعتبار سے صرف محنت کش طبقہ ہی ہلاکت کی زد میں ہے۔حتہ کہ جان بچانے والا ”عملہ صحت“بدترین حالات کا شکار ہے ۔ڈاکٹرز اور اسپتالوں کا عملہ کرونا سے متاثر ہوکر اموات کا شکار ہورہا ہے۔ انکو خطرناک حالات میں کام کرنے پر نا تو الگ سے رسک الاؤنس دیا جارہا ہے اور ناہی جان بچانے کا سامان ضرورت کے مطابق مہیاکیاگیا ہے۔

    اگرمعمول کی زندگی بھی ہوتو ‘تب بھی محنت کش طبقے کیلئے کسی قسم کی آسانی اور بہتری نظری نہیں آتی ۔صرف اوقات کار کا مسئلہ ہی نہیں ہے (حالانکہ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے محنت کا استحصال اور سرمائے کے ارتکازکی بنیادیں ملتی ہیں)،کم ترین سہولیات یعنی بدترین حالات کار،کم ترین حفاظتی اقدامات جن کے سبب ہر ہفتے کسی نا کسی صنعت،کان یا کام کرنے والی جگہ پر جان لیوا حادثات کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، کے ساتھ ساتھ ان تمام مراعات کا خاتمہ جو ماضی میں محنت کش طبقے نے اپنی مسلسل جدوجہد اور زبردست قربانیوں سے حاصل کی تھیں۔

ان مراعات میں سے سب سے اہم مستقل ملازمتوں کی جگہ پر بہت سے ناموں سے دھاڑی داری پر کام کو فروغ دیا گیا ہے،ایسا کرنے کیلئے ٹھیکے داری نظام کو قائم کیا جاتا ہے ۔ یوں پیداواری عمل میں مستقل عامل ہونے کے باوجود مزدورکا فیکٹری یا ادارے سے اجرت اور سہولیات کا رشتہ دن بھر کے لئے بنتا اور ختم ہوجاتا ہے۔ایک دیہاڑی دار کیلئے صحت،رہائش،ٹرانسپورٹ،الاونسز،بونس ،5پرسنٹ اور پنشن کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اسی طرح اسکے بچوں کی تعلیم یا دیگر ضروریات سے سرمایہ دارکو کوئی سروکار نہیں رہتا۔

اپنے حقوق کیلئے تو عملی طور پر ” مستقل مزدور“کیلئے بھی کوئی پلیٹ فارم نہیں رہا۔ بطور خاص نجی شعبے کے 99فیصد سے بھی زیادہ مزدور(اگر کسی ادارے میں یونین ہو بھی تو)کسی ”سوداکار انجمن“کا حصہ نہیں ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اگر کہیں (نجی اورسرکاری شعبوں میں)یونینز موجود بھی ہیں تو بس علامت کی حد تک،محنت کش طبقے کی زندگی کے اتارچڑھاؤ اورمسائل کے ساتھ انکا تعلق بہت واجبی رہ گیا ہے۔

اگر مزید غور سے دیکھیں تو جہاں معروضی حالات اور نظریاتی گراوٹ نے سرمایہ داری کو زیادہ اور مسلسل حملہ آور بنایا ہے وہاں مزدورقیادتوں کے سرنگوں ارادوں اور پست ہمتی نے اسکو مہمیز بخشی ہے۔زیادہ تر مزدورقیادتیں سرمایہ داری کی اطاعت گزار ہوکر جدوجہد سے تائب ہوچکی ہیں اور انکا میدان” صاف ستھری“مزدورسیاست‘ تک محدود ہوچکا ہے، جس میں جو مل گیا اس پر قناعت ‘اور انتظامیہ سے لڑنے سے گریز کی پالیسی شامل ہے۔

زیادہ سے زیادہ فیڈریشنز اور یونینز کے وکیل عہدیداروں کے روزگار کے لئے نام نہاد مزدورعدالتوں میں کیس فائل کردیئے جاتے ہیں پھرفیس کیلئے مزدور کی ہڈیوں پر چمٹی چمڑی بھی ادھیڑدی جاتی ہے۔مزدورعدالتیں دکھاوے کیلئے ہیں، بے ربط اور بے ثمر۔عدالتوں میں ناجج پورے ہیں اور انصاف کا تو ادھر سے گزر ہونا ناممکن ترین ہے۔ اگر کسی عدالت سے سہواََ یا مخصوص مقاصد کی تکمیل کیلئے انتظامیہ کے خلاف فیصلہ آبھی جاتا ہے تو اس پر عمل درآمد کیسے ہو؟     اس ساری صورتحال میں کیفیت کسی طور پر بھی مزدوروں کی اکثریت کے لئے موزوں نہیں ہے بلکہ بہت ہی اذیت ناک ہے۔


موجودہ یوم مئی جس میں مزدورکھل کر اپنا رونا بھی نہیں رو سکتے ،صرف سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی منانا ممکن رہا ہے۔ مگر اب اوقات کار کی بجائے زندگی کی بقاء کا معاملہ درپیش ہے۔ ایسی کیفیت میں ”مزدورماہرین “ کی انفارمل سیکٹر کے مزدوروں کو یہ تلقین کہ وہ خود کو یونینز میں رجسٹرڈ کرائیں بے وقت کی راگنی اور غیر حقیقی مطالبہ ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کہ مزدورراہنما جو عملی طور پریونینز کے ”گدی نشین “ بن کر رہ گئے ہیں‘ وہ حرکت میں آئیں۔ پہلی بات تویہ ہے کہ ہر سطح پر مزدوروں کی برطرفی کا ماننے سے انکار کیا جائے اور برطرف مزدوروں کو فوری طور پر تنخواہوں کے ساتھ انکی بحالی کا مطالبہ کیا جائے۔ اس ایک مطالبے کے گرد ملک گیر تحریک چلانا از حد ضروی ہے۔ہر قسم کے امکانات کو بروئے کارلانے کی ضرورت ہے۔

پہلے مرحلے پر سوشل میڈیا سے لیکر حکام بالا سے براہ راست مخاطب ہونے کی ضرورت ہے۔ اسی دوران ٹریڈ یونین سے متعلق راہنماؤں،یونینز،فیڈریشنز اور کنفیڈریشن کو ہر فیکٹری،ادارے اور مزدوروں کی بستیوں تک احتجاجی تحریک کو استوار کرنا ہوگا۔ کرونا وائرس جہاں ایک طرف انسانی زندگیوں پر دشمن بن کر حملہ آور ہوا ہے وہاں دنیا بھر کے محنت کشوں کو روزگار سے محروم کرنے ،غربت میں اضافہ اور بنیادی حقوق کی سلبی کا باعث بنا ہے لہذا ”تحریک“ کو بین الاقوامی سطح پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ عالمگیر مطالبات کو وضع کیا جاسکے۔

اس طرح مشترکہ عالمگیر مطالبات کی شدت اوردائرہ کار زیادہ اثرات مرتب کریگا۔تمام تر پابندیوں کے باوجود یہ یوم مئی پچھلے سالوں کی نسبت زیادہ اہمیت کاحامل ہے،ہمیں اسکے دائرہ کار کو یکم مئی سے آگے بڑھاناہوگا۔یکم مئی کی طبقاتی یک جہتی کو جہد مسلسل میں بدل کر موجودہ عہد میں نا صرف فوری مسائل کے حل کرنے کی تحریک شروع کی جاسکتی ہے بلکہ کرونا وائرس کی بدولت سرمایہ داری نظام کے حقیقی کردار کو اوروضاحت کے ساتھ عام لوگوں بالخصوص محنت کش طبقے کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ اس طرح اس سفاک اور انسان دشمن نظام کے خلاف اس تحریک کے آغاز کی بنیادیں استوار کی جاسکتی ہیں جواگلے مرحلوں میں ایک فیصلہ کن طبقاتی جدوجہد میں بدل سکتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :