پینشنر حضرات۔۔۔

جمعہ 28 اگست 2020

Raja Furqan Ahmed

راجہ فرقان احمد

کچھ عرصہ قبل میں ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا تھا۔ جولائی کی گرمی اپنے عروج پر تھی۔ سورج کی تپش کے باعث سڑک زیادہ تر سنسان نظر آ رہی تھی۔ سڑک کے دوسری جانب نجی بینک موجود تھا۔ اس بات پر آپ سب اتفاق کریں گے کہ ہم پاکستانی قوم جہاں بھی A C چلتا دیکھیں وہاں سے اٹھنا گوارا محسوس نہیں کرتے چاہے وہ وہ باٹا کی دوکان ہو یا نجی بینک۔ کچھ وقت سے میری نظر اس بینک کی طرف گامزن تھی۔

وہاں پر ایک آدھر شخص جس کی عمر تقریبا 65 سال تھی سر میں ٹوپی، ہاتھ میں رائفل، باوردی اہلکار، کپڑے سے پسینہ پونچھتے ہوئے اس بینک کے عین دروازے کی بائیں جانب کھڑے ہو کر اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ پہلے تو مجھے اس شخص کی حالت دیکھ کر بہت ترس آیا کہ جس عمر میں انسان گھر بیٹھ کر آرام و سکون کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اس عمر میں وہ گھر بیٹھنے کے بجائے نوکری کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

میں نے ہمت کی اور ان سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ریسٹورنٹس سے نکل کر میں ان کے پاس پہنچا۔ شروعات میں ادھر ادھر کی بات کی لیکن بات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو یہ نوکری کیوں کرنی پڑ رہی ہے، آپ کی عمر تو آرام فرمانے کی ہے۔ انہوں نے میری باتیں بہت اعتماد سے سنیں اور مسکرا کر کہنے لگے میں سرکاری ریٹائر ملازم ہوں۔ میری ریٹائرمنٹ کو تقریبا پانچ سال ہو چکے ہیں۔

میں نے سوچا تھا کہ ریٹائر ہونے کے بعد پرسکون زندگی گزاروں گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ آئے روز کے حالات مجھے اس جانب لے آئیں۔ میری پینشن جو تمام تر اضافوں کے بعد پندرہ ہزار روپے بنتی ہیں اس دور میں گزارا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ میں کرائے کے گھر میں مقیم ہوں جس کا کرایہ تقریبا 9500 روپے ہیں۔ میری چار بیٹیاں ہیں جن میں سے دو شادی شدہ اور ایک کی جلد شادی ہونے والی ہے جس کے لیے میں جہیز اکٹھا کر رہا ہوں۔

اس نوکری سے دس ہزار روپے ملتے ہیں جس سے مشکلوں سے گھر کا گزارا چلتا ہے۔ ان کی داستان سن کر بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پنشن لیتے وقت طرح طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی کلرک فنڈ کا رونا روتے اور کبھی کاغذی کارروائی مکمل ہونے کا۔
پاکستان جہاں پر غربت، بے روزگاری، افلاس عام ہوچکی ہے۔ اس معاشرے میں پنشنرز حضرات کے لیے بھی نت نئے مسائل سامنے آرہی ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کی نالائقی کہ بائیس ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں۔
اول تو سرکاری ملازمین کو پینشن حاصل کرنے کے لیے انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کاغذی کارروائی مکمل نہ ہونے کا کہا جاتا ہے اور کبھی سگنیچر نہ ہونے کا جس کے باعث وہ شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ مارا مارا پھرتا ہے۔ اکثر سرکاری دفتروں میں کلرک جو بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں ان کا لب و لہجہ دیکھ کر قیامت سے پہلے قیامت نظر آتی ہے۔

بھیڑیوں کی طرح اپنے شکار کا انتظار کرتے ہیں اور جوہی کوئی شکار نظر آ جائے اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اکثر ملازمین جو اپنے پنشنر لینے کے لئے دفاتر کے چکر لگاتے ہیں ان کو بھی نہیں بخشتے اور بتا وصول کرتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی شرمناک عمل ہے۔
آج کے دور میں مہنگائی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے پینشنر حضرات کی صرف سات سے دس فیصد پینشن بڑھائی جاتی ہے، جو ان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہیں۔

ان پنشنرز حضرات کو اس اضافے سے معمولی سا فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کی پینشن پندرہ ہزار روپے ہے۔ دس فیصد پڑھنے کے بعد اس میں صرف پندرہ سو روپے کا اضافہ ہوگا جبکہ دوسری جانب وہ حضرات جو اعلی عہدوں سے ریٹائرہوئے سات سے دس فیصد بڑھنے سے پینشن میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ بات عہدہ کی نہیں بلکہ بات اس کی ہے کہ ہر انسان کو اس کی بنیادی ضروریات فراہم کی جائے۔

پاکستان کے اداروں کا ہی حال دیکھ لیجئے کہ پی آئی اے کے ریٹائرڈ ملازمین تین سال سے اپنی پنشن حاصل کرنے کے منتظر ہیں۔ اسٹیل کے ملازمین کو اپنی پنشن تو دور کی بات تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ یہ ایک انتہائی شرمناک اقدام ہے کہ جو شخص زندگی کے سنہری دور اس ادارے میں گزارے اور جب اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوں تو وہ ادارے اس کی بنیادی حقوق دینے کے بجائے جگہ جگہ سے اسے ٹھوکریں کھلوائے۔ حکومت کو اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کم سے کم پنشن 25000 رکھے اور 65 سال کے بعد پینشن میں سو فیصد اضافہ کرے تاکہ یہ عوام اپنی آخری عمر میں سکھ کا سانس لے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :