
مہنگائی کا بڑھتا بوجھ…!
اتوار 29 دسمبر 2019

رانا اعجاز حسین چوہان
(جاری ہے)
بظاہر حکومتی اقدامات کے مطابق پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ توجہ خراب معاشی صورت حال پر قابوپانے کے لئے دی جا رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان کی معاشی ٹیم آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی اداروں اور دوست ملکوں سے مدد لینے کے علاوہ ملک کے اندرونی وسائل کو بھی بروئے کار لانے کیلئے سرگرداں ہے ۔ معیشت میں بہتری لانے کی ان کوششوں کو متعدد عالمی تجزیاتی اداروں نے سراہا ہے ۔ تاہم سب سے زیادہ توجہ طلب تجزیہ خود آئی ایم ایف کا ہے جو اربوں ڈالر کے قرضوں اور معاشی ومالیاتی مشوروں کے حوالے سے پاکستان کی اس اقتصادی جدوجہد کا ایک سنجیدہ کردار ہے ۔ آئی ایم ایف نے ایک جائزہ رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ تمام تر مثبت اشاریوں کے باوجود پاکستان کو آئندہ برسوں میں بھی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ شرح نمو ہدف سے کم ہو سکتی ہے ۔ تجارتی و بجٹ کا خسارہ بڑھ سکتا ہے ایف اے ٹی ایف کی ممکنہ بلیک لسٹ سے سرمایہ کاری میں کمی آسکتی ہے ۔ ادارہ جاتی اصلاحات میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے ۔ آئی ایم ایف کے خدشات اور مشوروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت اقتصادی محاذ پر ملک کے تمام علاقوں ، طبقوں اور صنعتوں کی یکساں ترقی کے تقاضوں سے پوری طرح باخبر ہے مگر عوام کو لاعلم ہی رکھنا چاہتی ہے۔ ہمارے ہاں مقتدر ادارے سمجھتے ہیں کہ عوام اس قابل نہیں کہ ان کے سامنے کسی اضافے کی وجہ بتائی جائے یا انہیں قائل کیا جائے کہ اضافہ ناگزیر تھا۔ اسی لیے عوام اپنے آپ کو حکومت میں شریک محسوس نہیں کرتے ۔ حکومت اور عوام کے مابین جو ایک ناگوار بیگانگی پائی جاتی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے ۔ حکومتی ادارے بند دفتروں میں بیٹھے ایسے فیصلے کرتے رہتے ہیں جن سے عوام متاثر ہوتے ہیں،لیکن وہ کبھی وجہ بتانے یا ان فیصلوں کے ضروری ہونے کی وجوہات عوام کے ساتھ شیئر نہیں کرتے ۔ انہیں احساس نہیں دلاتے کہ حکومت انہیں اہم حصہ سمجھتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں حکمران اور عوام ریاست میں دو الگ الگ دھاروں کی طرح رہتے ہیں جو باہم کبھی نہیں ملتے ۔ عوام حکومت سازی کا ذریعہ ضرور ہیں، کہ اس کے بغیر چارہ نہیں، مگر ہمارے ہاں جمہوریت کی روح کو ماننے کی بجائے اسے صرف اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ مانا جاتا ہے ۔ موجودہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے دعوے تو کررہی ہے مگر عملی طور پر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔یوٹیلیٹی سٹورز جو کبھی عوام کیلئے دال، چینی ، گھی وغیرہ کی نسبتاً سستے داموں فراہمی کا ذریعہ تھے ،مگر موجودہ حکومت نے عوام کی اس سہولت کو بھی تقریباً ختم کر دیا ہے ۔ اس کے متبادل کے طور پر کتنے ہی منصوبے پیش کئے گئے ،جن میں ایک کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے راشن کارڈ کا اجرا تھا اور ضلعی انتظامیہ کے ماتحت ایسے سٹور کھولے جانے تھے جہاں سے سستے داموں اشیائے خورو نوش خریدی جا سکتیں، مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود ان منصوبوں کا بھی کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا۔ نتیجتاً ملکی آبادی کا بیشتر حصہ خط غربت کے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے، دوسری جانب بیروزگاری بھی برق رفتاری سے بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ ان سنگین حالات میں برسر اقتدار شخصیات کو غریب و متوسط طبقے کے مسائل کے اداراک ہوناچاہیے ، اور مہنگائی کی بجائے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے عملی اقدامات کرنا چاہیے تاکہ غریب و متوسط طبقہ سکھ کا سانس لے سکے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رانا اعجاز حسین چوہان کے کالمز
-
جیسی رعایا ویسے حکمران
بدھ 16 فروری 2022
-
ویلنٹائن ڈے… !
منگل 15 فروری 2022
-
یوم یکجہتی کشمیر
ہفتہ 5 فروری 2022
-
صدارتی نظام کی بازگشت!
جمعرات 3 فروری 2022
-
نظام انصاف میں بہتری کی ضرورت
بدھ 2 فروری 2022
-
کرپشن انڈیکس میں اضافہ …!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
ایمان کی دولت انمول نعمت
جمعہ 28 جنوری 2022
-
خوشگوار زندگی کیلئے ذہنی صحت پر توجہ ضروری
جمعرات 20 جنوری 2022
رانا اعجاز حسین چوہان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.