آٹا چینی مافیا اور بے نامی چینی کاروبار

جمعرات 23 اپریل 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

 چینی بحران کی تحقیقات کے دوران بے نامی اکاوٴنٹس، جائیدادوں اور اثاثوں کے بعد اب اربوں روپے کے بے نامی چینی کاروبار کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ تحقیقات کے دوران پتہ چلا ہے کہ چینی بے نامی اکاوٴنٹس کے ذریعے بھی خریدی گئی ہے۔ جس کے مطابق ٹرک ڈرائیوروں، سیکورٹی گارڈز اور ذاتی ملازموں کے اکاوٴنٹس کھلوا کر اس میں سے چینی کی خرید و فروخت کے لئے اربوں روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔

بحران کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے 192 افراد کے شناختی کارڈز کا ڈیٹا اسٹیٹ بینک بھجوایا ہے، تا کہ پتہ چل سکے کہ کس کس بینک میں بے نامی اکاوٴنٹس ہیں اور یہ پیسہ کہاں سے آیا اور اکاوٴنٹس کے پیچھے کون لوگ ہیں۔ 
پاکستان میں چینی اور آٹے کا بحران پیدا کر کے مال بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ یہاں دہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے کہ گلی گلی محلے محلے با آسانی دستیاب ہونے والی چینی اور آٹے کو منصوبہ بندی سے نایاب کر کے غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور کر دیاجاتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں بے نقاب ہونے والے افراد ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے عمل کے پرانے اور عادی مجرم ہے مگر پہلی دفعہ ان کا مکروہ دھندا اور چہرے بے نقاب ہوئے ہیں۔ بلا شبہ یہ پہلے کبھی نہیں ہوا کہ کوئی وزیرِ اعظم کمیشن بنائے اور ایک ایسی رپورٹ کو من وعن پبلک کر دے جس میں اس کی اپنی حکومتیں اور قریبی ساتھی ذمہ دار ٹہریں۔ انہوں نے ملکی سیاست اور سماج کو ایک نئی سوچ دی ہے اور ایک نئے طرزِ احساس اور جمہوری اقدار سے وابستگی کے سفر میں ایک لازوال جد و جہد کا منظر نامہ سجا کر دیا ہے جب کہ عوامی سیاست کے جو رنگ انہوں نے قومی سیاست کے فرسودہ ڈھانچے میں بکھیرے ہیں ان کی چمک دمک پچھلی تین چار دہائیوں میں دھیمی پڑ چکی ہے۔

جب قومی دولت اور عوام کو لوٹے جانے کا سدِ باب کرنے کی بجائے خود بھی کرپشن کرے اور دوسرے کرپٹ لوگوں کی کی سرپرستی بھی کرے تو پھر ملک کا کیا بنے گا۔ خدا را بہت ہو چکا اب تو اس ملک کے لوگوں کے حالات کو بدلنے دیا جائے۔ وہ کب تک اندھیروں اور تاریکیوں کے دور میں رہتے رہیں گے۔ ترقی اور خوشحالی کب ان کا مقدر بنے گی۔ اب کہیں جا کے اگر ان کا مقدر بدلنے کے لئے کوئی سنجیدہ ہے تو اس کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

آپ کی دھمکیوں سے کوئی اور تو مرعوب ہو سکتا ہے لیکن جس عمران خان کو ساری دنیا جاتی ہے آپ کی دھمکیوں میں آنے والا نہیں۔ کیا لوگوں نے آپ کو اس لیے منتخب کیا تھا کہ آپ اپنے جیسے با اثر افراد سے مل کر انہیں ہی لوٹیں اور روٹی چینی کے لئے ترسائیں۔
 ہم نے گزشتہ 72 سالوں میں بہت سی غلطیاں کیں اور ہر وقت اپنے اعمال کا حساب بھی نہیں کیا لیکن اس سارے تاریک سفر نامے کا ایک روشن باب یہ بھی ہے کہ اب ہم بطور قوم آہستہ آہستہ اپنے اصل اور چھوڑے ہوئے راستے پر مڑ رہے ہیں۔

بظاہر اس وقت ہر طرف افراتفری اور آشوب در آشوب کی سی صورتحال ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تواسی خرابی میں سے تعمیر کی ایک صورت بھی، ٹکڑوں میں ہی سہی، بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب عوام نہ صرف دائرے کی شکل و صورت سے آگاہ ہو رہے ہیں بلکہ اس کے حصار میں آویزاں ان مکڑی کے جالوں اور ان کے لگانے والوں سے خبردار ہوتے جا رہے ہیں۔

جن کے طلسم سامری نے ان کی زندگیوں کے 72 برسوں کو ان بے شمار رنگوں سے محروم رکھا، جو ان کا حق بھی تھے، ورثہ بھی، سرمایہ بھی۔ آپ اسمبلیوں میں دیکھیں کہ انہی لوگوں کی اکثریت ہے کچھ نئے چہرے بھی دکھائی دیں گے جو زیادہ تر انہی کی سرپرستی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دولت کی طاقت سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو کسی لیڈر کے لئے ناگزیر بنانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

اسی تجربے اور مہارت پر وہ اقتدار کی سیاست کرتے چلے آ رہے ہیں عمران خان نے ان کو عزت دی جلسوں میں اپنے دائیں بائیں اس امید پر کھڑا کیا کہ وہ اس کے ذہن کو سجھتے ہوئے اپنے ماضی کو بیچ میں نہیں لائیں گے لیکن انہوں نے وہی کچھ کیا جو وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ جب کہ عمران خان کو حمایت اس کرپٹ نظام کا حصہ بننے پر نہیں بلکہ اس کرپٹ نظام کو توڑنے کے وعدے پر ملی تھی۔

 
 اس حقیقت میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ہماری جمہوریت پر ہمیشہ امراء و روسا کا قبضہ رہا ہے۔ یہ لوگ حصولِ اقتدار صرف شہرت یا عام زندگی کی بہتری کے لئے نہیں چاہتے بلکہ برسرِ اقتدار آنا ان کے نزدیک زرگری کے لئے اشد ضروری ہے۔ عمران خان سٹیٹس کو توڑنے اور اصلاحات کے ذریعے پر امن انقلاب لانے کے آرزو مند ہیں۔ وہ معاشی استحکام اور ریاستی اداروں میں جوہری اصلاحات لانے میں سنجیدہ ہیں۔

عمران خان کو پورا موقع ملا تو وہ انشاء اللہ پاکستان کو درست ٹریک پر ڈال دیں گے جس کے نتیجے میں عوام اور ریاستی ادارے دونوں مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔ بلا شک عمران خان عوام کے مسائل کا پورا ادراک رکھتے ہیں اورا ن کو حل کرنے کا قابلِ عمل منصوبہ بھی ان کے ذہن میں موجود ہے۔ ان کے اس عمل سے ان کی نیت بھی ظاہر ہو رہی ہے۔ عمران خان کی گزشتہ بائیس سالوں کی سیاسی و سماجی جد و جہد پر نظر دوڑائیں تو اس میں یہی بات نمایاں نظر آتی ہے کہ وہ عام آدمی کی زندگی میں سدھار لانے کے لئے کوشاں ہیں۔

دوسرا وہ کرپشن اور بے ایمانی کے خلاف سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ عمران خان جانتے ہیں کہ کتنے طاقتور لوگ ہیں اور اس سارے معاملے سے نمٹنے کے لئے ایک بڑی مزاحمت کی ضرورت ہے جس میں عوام سمیت ہر کسی کو ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :