مسجد آیا صوفیہ کا احیاء اور منافقانہ عالمی ردِ عمل

پیر 20 جولائی 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

بازنطینی سلطنت کے بادشاہ جسٹینین نے چھٹی صدی عیسوی میں آیا صوفیہ کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ 900 سال سے زائد عرصہ تک یہ چرچ آرتھو ڈوکس عیسائیوں کا مرکز رہا۔ 1453ء میں خلافتِ عثمانیہ نے قسطنطنیہ فتح کیا تو آیا صوفیہ چرچ کومسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس چرچ کے متعلق اہلِ شہر کا عقیدہ تھا کہ یہ کسی طاقت کے ذریعے مفتوح نہیں ہو سکتا۔

اگر حملہ آوراس شہر پر قبضہ کر بھی لیں تب بھی آیا صوفیہ کا علاقہ اور عمارت حملہ آوروں سے محفوظ رہے گی۔ اس میں داخل ہونے والوں پر آسمان کے فرشتے موت کا پیغام بن کر اتریں گے۔ 1453ء میں جب سلطان محمد فاتح نے اس شہر پر فتح حاصل کی تو اہلِ شہر فاتحین کی تباہی و بربادی دیکھنے کے لئے اس چرچ کے آس پاس اکٹھے ہو گئے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور پورے خطے پر عثمانی فوج نے کنٹرول سنبھال لیا۔

(جاری ہے)

سلطان فاتح محمد نے اس خطہ کو بزورِ طاقت حاصل کیا، ایسی صورت میں بین الاقوامی اصولوں کے تحت اسے پورا اختیار تھا کہ عبادت گاہوں کو باقی رکھے یا مسمار کرے لیکن اس نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چرچ کو رقم ادا کر کے خریدا اور اس کے بعد اسے مسجد کی شکل دی گئی۔ جس کے ڈاکو منٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج بھی موجود ہیں۔ جس کے تحت بازنطینی دور کی یادگار مقام آیا صوفیہ کو پھر سے مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے۔


جدید ترکی کی بنیاد رکھتے ہوئے کمال اتا ترک نے آیا صوفیہ کو ایک عجائب گھر کی حیثیت دے دی تھی۔ کمال اتا ترک نے ترکی قوم کو کمال ازم سے متعارف کرایا۔ کمال ازم کے تحت مذہب کو ریاست سے علیحدہ قرار دیا گیا۔ تمام وہ نشانیاں ختم کر دیں جن سے ریاست کے حوالے سے کسی مذہب کی طرف اشارہ ہوتا حتیٰ کہ ترک زبان کا عربی رسم الخط بھی جو صدیوں سے مروج تھا ختم کر کے رومانائز کر دیا۔

ان کے عہد میں ترکی سے اسلام کو مٹانے اور سیکولر بنانے کی کوشش کی گئی۔ تمام دنیا کی طرح مسلمان عربی میں عبادت کرتے تھے لیکن وہاں مقامی زبان میں عبادت کا حکم دیا گیا۔ اللہ کی بجائے ترک نام " تانری" رائج کرنے کی کوشش کی گئی۔ استدلال یہ تھا کہ ترک اس زبان میں عبادت کیوں کریں جسے اکثریت نہیں سمجھتی۔ اللہ اکبر کے بجائے ' تانری الدور" کہنے پر اصرار کیا گیا۔

عبادت کو سست کردینے والا غیر پیداواری فعل قرار دیا گیا۔ خواتین کا پردہ جبراً ختم کرادیا گیا، خواتین کو حجاب کے ساتھ سرکاری دفاتر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ کسی ملک میں اپنے باشندوں پر مذہب کے حوالے سے اس قسم کی پابندیاں نہیں لگائی گئی ہوں گی۔ حالانکہ سیکولر ازم سب کو اپنے طرزِ زندگی کے مطابق عمل کرنے کی آزادی کا نام ہے۔ اسلام کے خلاف اقدامات کے ساتھ ساتھ قوم پرستی کا پروپیگنڈا اتنا زبردست اور مٴوثر تھا کہ نئی ترک نسل مغربی طور طریقوں میں رنگتی چلی گئی۔


اسی سیکولر کمال اتا ترک نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مغربی آقاوٴں کی خواہش پر 24 نومبر 1934ء کو آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے میوزیم بنا دیا۔ ترک سمیت تمام دنیا کے مسلمان عوام برسوں سے چاہتے تھے کہ آیا صوفیہ کی کی اصلی حیثیت بحال کی جائے ۔ خود طیب اردگان بھی آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت بحال کرنے کے خواہشمند تھے لیکن انہوں نے بیرونی دباوٴ کو کم کرنے کے لئے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کونسل آف اسٹیٹ سے فیصلہ کروا کرآیا صوفیہ کو مسجد کی حیثیت دی۔


آیا صوفیہ مسجد کی دوبارہ سے بحالی ہر چند کہ یہ اقدام بین الاقوامی لحاظ سے بھی اور قومی حقوق کی پاسداری کے اعتبار سے بھی عین انصاف تھا مگر عالمی طاقتوں نے اس پر اعتراض کرنا اپنا حق سمجھا اور ہر طرف سے اس کی مذمت شروع کر دی گئی۔ اس تاریخی فیصلے پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، یونیسکو اور روسی ایوانِ بالا بھی غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اندلس میں قرطبہ اور غرناطہ کی تمام تاریخی مساجد کو گرجا گھروں میں بدل دینے اور سقوطِ غرناطہ پر لاکھوں مسلمانوں کو فریب دے کر تہہ و تیغ کرنے پر مسرت آمیز خاموشی اختیار کرنے والی یورپی یونین نے عدالتی فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

جب کہ یونان میں عثمانی دور کی مساجد پر قبضے کے معاملے میں مغرب کے کان پر جوں نہیں رینگی، حتیٰ کہ یونان میں عثمانی دور کی بچ جانے والی ایسی درجنوں مساجد ہیں جن کا تشخص تبدیل کیا جا چکا ہے، اب یہ مساجد نمائش کے مراکز ہیں یا پھر سینما ہالوں میں تبدیل کی جا چکی ہیں۔ صرف ایک برس میں اسرائیل میں عربوں کی تاریخی مسجد کو شراب خانے میں تبدیل کرنے پر بھی پوری دنیا میں خاموشی کا عالم تھا۔

گزشتہ برس فلسطین میں واقع مسجد " الاحمر" کو اسرائیلی میونسپلٹی نے نائٹ کلب میں تبدیل کر دیا تھا۔ مسلم امہ کی مساجد اور تاریخی یادگاریں جو ایک صدی تک ہمارے پاس تھیں وہ تمام مختصر وقت میں تباہ کر دی گئیں۔ ایتھنز یونان جہاں آج ایک بھی مسجد نہیں یہاں تمام مساجد شہید یا نمائشی مراکز میں تبدیل کر دی گئیں، افسوس کا مقام ہے کہ آج یہ مساجد نماز کی بجائے دیگر مختلف سرگرمیوں کے لئے استعمال ہو رہی ہیں۔

مگر آیا صوفیہ پر واویلہ مچانے والے مغرب نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کئے رکھی۔ جب کہ ترکی کی عدالت کا آیا صوفیہ کی تاریخی عمارت کا دوبارہ مسجد کی شکل میں بحال کرنے کا فیصلہ آتے ہی مغرب کے ردِ عمل میں تیزی آ چکی ہے، مغربی سرمایہ کار ترکی کی اسٹاک مارکیٹ سے اب تک 8 ارب ڈالر کی رقم نکال چکے ہیں، جس کا بنیادی مقصد طیب اردگان کو سبق سکھانا ہے کہ اس مردِ مجاہد نے آیا صوفیہ کو میوزیم سے دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کی جرأت کیسے کی۔

پچھلی دو دہائیوں کے عرصہ میں ایک اسلام پسند لیڈر بن کر ابھرنے والے طیب اردگان ان تمام حربوں سے بخوبی آگاہ تھے لیکن انہوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی۔ آج طیب اردگان فاتح قسطنطنیہ سلطان فاتح محمد دوئم کی طرح مظلوم مسلمانوں کی آواز بن چکے ہیں۔ سلطان فاتح محمد بھی ایک عالم اور مجاہد تھے ۔ طیب اردگان نے اسلام کو سیاسی نعرہ بنانے کی بجائے اسلام کو ایک طرزِ زندگی کے طور پر اپنانے کو ترجیح دی۔

ان کی طاقت ان کے فتوے نہیں بلکہ جسٹس اور ڈویلپمنٹ ہے۔ عالمِ اسلام کے لئے ان کی بہت خدمات ہیں۔
یورپ نے ہمیشہ اسلام کے خلاف دہرا رویہ اختیار کیا ہے، وہی طرزِ عمل عالمِ اسلام کے یہاں حقوق کی پامالیوں کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر وہ انصاف کے ساتھ تاریخ پر نظر ڈالیں تو آیا صوفیہ کے متعلق عدالت کے فیصلے میں انہیں کوئی خرابی نظر نہیں آئے گی، مگر تعصب ہے کہ ہر مرحلے میں حقائق کو پوشیدہ رکھتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :