خیرات، زکوة اور صدقات کے حقیقی حقدار

ہفتہ 26 ستمبر 2020

Rana Zahid Iqbal

رانا زاہد اقبال

انسان بشمول تمام مخلوقات کوزندہ رہنے کے لئے رزاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو واحد کل کائنات رزاق کے دستِ قدرت میں ہے۔ جس کو رزق دے کر صاحبِ دولت اور صاحبِ ثروت بنایا اس کے مال میں معاشرے کے غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کا حق ہے جو زکواة و صدقات کی صورت میں ان تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ اپنے بندوں کو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے عزیز مال و دولت کو سماج کے مفلوک الحال، مسکین، یتیم، نادار، قرضدار، بے سرو سامان، بیمار اور معذور لوگوں پر خرچ کرنے کی افادیت اور فضیلت سے آگاہ کیا ہے۔

وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران خان خود غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، انہیں خود سے سخاوت اور خدمتِ خلق سے دلی لگاوٴ ہے۔

(جاری ہے)


ہر صاحبِ حیثیت کو اپنے مال میں سے صدقات و خیرات کرنے کا پورا حق ہے کہ وہ غریبوں ضرورت مندوں میں دل کھول کر بانٹے لیکن اس کے لئے ضابطے، قانون اور قاعدے کا خیال رکھا جانا بہت ضروری ہے تاکہ حق داروں تک ان کا حق پہنچے۔

آنکھیں بند کر کے لوگوں میں صدقات، خیرات تقسیم کرتے رہنا درست نہیں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جن لوگوں کو اللہ پاک نے مال و متاع سے سرفراز کیا ہے وہ ضروت مندوں کا خیال رکھیں جو ان کی مدد کے محتاج ہیں کیونکہ ان کا حق ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اصل حق داروں تک پہنچے ایسا نہ ہو کہ ایسے لوگوں کو چلا جائے جہاں خیرات و صدقات کا مقصد فوت ہو جائے۔

اس حوالے سے وزارتِ اطلاعات و نشریات حکومتِ پاکستان کے ریسرچ ونگ پی پی سی کی طرف سے شروع کی گئی مہم "حق حق داروں تک" کا مقصد لوگوں میں عطیات دینے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس غرض سے وزارتِ اطلاعات و نشریات نے" حق حق داروں تک "کے نام سے ضلعی سطح پر ایک پروگرام بھی شروع کر رکھا ہے ۔ جس کا مقصد لوگوں میں عطیات دینے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے کہ خیرات اور صدقات کے کون حق دار ہیں یعنی کن کو یہ خیرات جانی چاہیے۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ کچھ ایسے لوگ بھی اس سے مستفید ہو جائیں جو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوں، ایسے افراد معاشرے کے لئے بہت خطرناک ہوتے ہیں اور ان کو دی گئی خیرات معاشرے میں مزید انارکی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کی دی ہوئی خیرات غلط راستے پر تو استعمال نہیں ہو رہی ہے۔ یہ ہر صاحبِ استطاعت شخص کا فرض بنتا ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیرات کرتے وقت اس بات خاص خیال رکھے کہ اس کے دئے گئے صدقات مستند اداروں اور مستحق افراد تک ہی پہنچتے ہیں۔


وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 554 ارب روپے سالانہ صدقات، خیرات اور عطیات کی مد میں دئے جاتے ہیں جو کہ عوام کی فلاحی کاموں میں شرکت اور انسانیت دوستی کا واضح ثبوت ہے اور یہ ہمارے ملک کی جی ڈی پی کا دو فیصد بنتا ہے۔ فی کس آمدنی کے لحاظ سے یہ شرح دنیا میں بلند ترین ہے۔ عطیات کی مد میں دی گئی رقم جہاں صحیح معنوں میں امدادی کاموں میں استعمال ہوتی ہے وہیں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کچھ دھوکے باز شر پسند عناصر فلاحی کاموں کی آڑ میں لوگوں کی معصومیت اور لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس رقم کا کچھ حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس طرح یہ رقم فلاحی کاموں کی بجائے ملک و قوم کی سا لمیت کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔

دہشت گردی کی روک تھام کے لئے قائم کئے گئے ادارے نیکٹا کی جانب سے تجویز کردہ درج ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوا جائے تو حق حق داروں تک پہنچانے میں معاونت ہو گی۔ ادارے کو خیرات دیتے وقت دیکھیں کہ کہیں اس کا تعلق کسی کالعدم تنظیم سے تو نہیں ہے؟ کیا وہ ادارہ اپنا حقیقی وجود رکھتا ہے یا صرف کتابوں میں یا فرضی میمبرز کا حامل ہے؟ ہمارے ہاں جگہ جگہ دوکانوں وغیرہ پر زکواة اور خیرات کے حصول کے لئے غلے رکھے ہوتے ہیں ان میں خیرات کی رقم ڈالنے سے قبل وصول کنندہ ادارے کے بارے میں اچھی طرح جانچ پڑتال کی جانی چاہئے کہ یہ ادارہ حاصل شدہ چندہ صرف معاشرتی فلاح بہبود کے لئے صرف کرے گا۔

کیونکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق ایسے لوگوں کو دی گئی رقوم دہشت گردی میں معاونت میں استعمال ہوں تو ان کو منجمند کیا جانا چاہئے۔ہمارے لئے یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں فال کر رہا ہے اور اگر یہ مزید بلیک لسٹ کی کیٹگری میں چلا جاتا ہے تو ملک بہت سے مشکلات میں گھر جائے گا جس سے ہماری معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہمیں پوری دیانتداری سے اپنی زکواة، خیرات اور عطیات مستند اداروں اور حقیقی مستحقین تک پہنچانے ہیں تا کہ نہ صرف حقداروں کو ان کا حق مل سکے بلکہ جعلسازوں کی کی حوصلہ شکنی بھی ہو۔
فیصل آباد ایک صنعتی شہر ہونے کے ناطے کورونا وائرس سے یہاں ڈیلی اجرت والے افراد کا روزگار بہت متاثر ہوا ہے۔ ان کی مدد کے نام پر بہت سے لوگ اور ادارے سرگرم ہیں ان کی مدد کے نام پر بہت سے شرپسند عناصر بھی ان صدقات سے فائدہ اٹھا کر انہیں ہمارے ہی ملک اور عوام کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ صدقات دیتے وقت دیکھا جائے کہ ان اداروں اور افراد کی ساکھ کیسی ہے اور کوشش کی جائے کہ ایسے افراد یا اداروں کو زکواة خیرات مہیا جائے جن کے بارے میں آپ خاصی معلومات رکھتے ہوں ۔موجودہ نامساعد حالات میں ہم سب بالخصوص اہلِ ثروت لوگوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم معاشرے میں سخاوت، ہمدردی اور مروت و ایثار کا ماحول قائم کریں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے جن لوگوں کے روزگار متاثر ہوئے ہیں ان کی معاونت اور آبادکاری کے لئے پیش پیش رہنا ہم سب کا فرضِ عین ہے۔ ایسی ناگہانی مصیبتوں اور آفتوں سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئے۔ بلکہ یقین کرنا چاہئے کہ مال اور دولت کے ہوتے ہوئے سخاوت کا وطیرہ اختیار کرنا تمام مال و جان اور جائیداد کے لئے ایک معقول وسیلہ اور ذریعہ نجات ثابت ہو سکتی ہے۔ صدقات اور خیرات بلا لحاظِ مذہب و ملت محتاجوں، مسکینوں اور لاچاروں کو دینے چاہئیں۔ انسانیت رنگ و نسل، قبائل و خاندان، مذہب و ملت اور سرحدوں سے بالاتر ہو کر انسانی رشتوں کو جوڑنے اور ان کے درمیان پیار و محبت اور ہمدردی و خیر خواہی کو پروان چڑھانے کا نام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :