چیئرمین سینٹ کی تبدیلی اور سیاست؟

پیر 8 جولائی 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

حکومت کیخلاف متحدہ اپوزیشن کی جانب سے بننے والی رہبر کمیٹی نے نو جولائی کو سینٹ میں موجودہ چئیرمین صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے اور حزب اختلاف کی جانب سے گیارہ جولائی کو متفقہ طور پر امیدوار چےئرمین سینٹ کا نام سامنے لانے کا اعلان کیا ہے۔اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ہونیوالے اجلاس میں 25جولائی کو موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں 2018ء کے الیکشن میں ہونیوالی مبینہ دھاندلی کیخلاف مشترکہ جلسے اور پشاور میں ملین مارچ کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ۔

تا دم تحریر حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سینٹ چےئرمین کا امیدوار پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن سے ہوگا منظوری دئیے جانے کے بعد راجہ ظفر الحق اور مصدق ملک کے علاؤہ ن لیگ نے دیگر ناموں پر مشاورت شروع کر دی ہے ذرائع کے مطابق رہبر کمیٹی کے اجلاس میں یہ بھی طے پایا ہے کہ اگر ن لیگ کا امیدوار کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا عہدہ چھوڑ دے گی۔

(جاری ہے)

اب موجودہ چےئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے درخواست پر ایک چوتھائی ممبران سینٹ کے دستخط ہونا ضروری ہیں جبکہ اس سلسلے میں اپوزیشن ضرور چاہے گی جب تحریک عدم اعتماد کے لئے سیکرٹریٹ میں درخواست جمع کروائی جائے تو تمام اپوزیشن سینٹ ممبران کے اس درخواست پر دستخط موجود ہوں اور اس سلسلے میں حزب اختلاف نے اپنے ممبران سینٹ سے رابطے کرنا بھی شروع کردئیے ہیں۔

دوسری جانب حکومت اور اس کے اتحادیوں نے موجودہ چےئرمین سینٹ کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے بلکہ حزب اختلاف کی جانب سے لائی جانیوالی ممکنہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے یقیننا عددی و نفسیاتی برتری حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ بھی کرے گی۔اب حکومت اور اپوزیشن کس حد تک ممبران سینٹ کو اپنے دام میں لا پاتے ہیں اس کا فیصلے کے نتائج چند دن کی مسافت پر ہیں۔

ملک میں سینٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 59 کے تحت ہوتے ہیں سینٹ دو ایوانی مقننہ کا اہم اور اعلی حصہ ہیسینٹ کے انتخابات ہر تین سال بعد کروائے جاتے ہیں۔1971ء میں جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا تھا تو اس کے دولخت ہونے کی دو اہم وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی حکومتیں چھوٹے صوبوں پر توجہ نہیں دیتی تھیں پاکستان میں سینٹ کے قیام کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ چھوٹے صوبوں کو نمائندگی مل سکے۔

اس وقت سینٹ میں 104ممبران میں سے اپوزیشن کے پاس 67ووٹرز ہیں جبکہ تحریک کی کامیابی کے لئے 53ارکان کی حمائت کی ضرورت ہے دیکھا جائے تو عدم اعتماد تحریک کی صورت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑا اعصاب شکن مقابلہ ہے۔سینٹ کا قیام جب عمل میں لایا گیا تو اس کے آغاز میں ممبران کی تعداد 45تھی 1977ء میں اس کے ممبران کی تعداد بڑحا کر 63کردی گئی1985ء میں اس کے ممبران کی تعداد 87ہو گئی ۔

جب جنرل(ر)پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اس کی حکومت نے لیگل فریم ورک آرڈر 2002ء کے تحت اس کے ارکان کی تعداد 100کر دی پھر جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو حکومت نے انیسویں ترمیم کے ذریعے چاروں صوبائی اسمبلیوں سے ایک ایک اقلیتی ممبر لے کر اس کے ارکان کی تعداد 104کردی اب سینٹ میں ارکان کی تعداد ایک سو چار ہے ۔اب اگر اپوزیشن موجودہ چئیرمین سینٹ کے مقابلے میں عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہو پاتی ہے اور اس کے سینٹ میں موجود ارکان اپنی مکمل حمایت کا یقین دلاتے ہوئے صادق سنجرانی کے خلاف ووٹ کرتے ہیں تو پھر سینٹ میں ان ہاؤس تبدیلی کو روکنا حکومت کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا۔

لیکن حالات کا زائچہ اپوزیشن کے لئے بھی سب اچھا کی نفی کرتا نظر آرہا ہے کیونکہ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ اپوزیشن کا متفقہ چےئرمین سینٹ کامیاب ہو پائے اگر اپوزیشن کا چےئرمین سینٹ کامیاب ہو گیا تو سینٹ میں حکومت کے لئے نہ صرف مشکلات پیدا ہو جائیں گی بلکہ اپوزیشن کے ہاتھ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کا سنہری موقع بھی آجائے گا۔اس لئے حکومت ہر حال میں اس تحریک کو ناکام بنانے کے لئے پوری کوشش کرے گی جس کا حکومتی ترجمان برملا اظہار کر چکے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹے گی ۔

اس ساری سیاسی فضا میں میں سمجھتا ہوں چھانگا مانگا کی سیاست کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گی چھانگا مانگا کی سیاست کے تناظر میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلی کے حصول کے لئے چھانگا مانگا کے پر فضاء مقام پر ارکان اسمبلی کی سیاسی منڈی سجائی تھی اس وقت کے حالات بتاتے ہیں کہ پس پردہ خفیہ طاقت بے نظیر بھٹو کو کلی طور پر اختیارات کا منبع دیکھنے کی متمنی نہ تھی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان جب بھی اقتدار کی رسہ کشی کا رن پڑا تو چھانگا مانگا کی سیاست کا بہت عمل دخل رہا اب بھی چونکہ حکومت کے پاس صادق سنجرانی کی سینٹ چےئرمین شپ بچانے کے لئے سینٹ میں ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود نہیں اس لئے چھانگا مانگا کی سیاست کے اثرات اپوزیشن ارکان پر مرتب ہوں گے اور حکومت مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے لئے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپوزیشن کے ارکان کیساتھ معاملات طے کرنے کی پوری کوشش کرے گی اور ہو سکتا ہے ایسے اپوزیشن کے ارکان حکومت کے پلڑے میں جا بیٹھیں اور اس بیانیے کیساتھ حکومت کا ساتھ دیں کہ وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام نہیں چاہتے اور اس بات کا قوی امکان بھی ہے حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کی تحریک ناکامی سے دوچار ہو جائے۔

موجودہ ملکی و سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت اپوزیشن کی ٹاپ لیڈر شپ کرپشن اور منی لانڈرنگ چارجز کے عوض بنائے جانیوالے مقدمات میں جیل کے اندر ہے اور اب تک اپوزیشن کی جانب سے بنائے جانے والے اتحاد حکومت کو دباؤ میں نہیں لا سکے بلکہ نیب نے احتساب کا عمل مزیڈ تیز کر کے دیگر سیاسی قیادت کو بھی گرفتار کر نا شروع کر دیاہے جس کے باعث جہاں اپوزیشن کی سیاسی پوزیشن کو ابھی تک استحکام نہیں ملا وہیں اپوزیشن جماعتوں کے سیاسی کارکن بھی سیاسی قیادت کی گرفتاری پر مایوسی کا شکار ہیں۔

اگر اس بار اپوزیشن سینٹ میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یقیننا جہاں اپوزیشن کو حکومت کے لئے ٹف ٹائم دینا آسان ہو جائے گا وہیں سیاسی کارکنان کے اندر بھی اپنی موجودہ سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑا ہونے کو تحریک ملے گی اگر اپوزیشن ناکام ہوتی ہے تو پھر اپوزیشن کے غبارے سے رہی سہی ہوا بھی نکل جائے گی۔ اب عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اپوزیشن کے لئے سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ اپنے ارکان کو ہارس ٹریڈنگ سے کیسے بچا پاتی ہے۔

اس سارے سیاسی کھیل میں حکومت یا اپوزیشن میں سے کون زیادہ زیرک ثابت ہوتا ہے یہ کہنا تو قبل از وقت ہے لیکن یہ وقت ضرور بتا دے گا کہ کون نظریات پر اور کون نظریہ ضرورت کی سرحد پر کھڑا ہے ضمیر فروشی کی سیاست پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں بس فرق اتنا ہے کہ کوئی زر کے ترازو میں تل کر نیلام ہوتا ہے اور کسی کو عہدہ تفویض کر کے اس کی قیمت چکا دی جاتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :