مہنگائی اور اناج کی قدر

جمعرات 17 اکتوبر 2019

Riaz Ahmad Shaheen

ریاض احمد شاہین

انسان کو اللہ تعالے نے ان گنت نعمتوں سے نوازرکھا ہے ان نعمتوں کا ہر لمحہ شکر کرنے کے ساتھ ساتھ کو استعمال کریں ضیاع نشکری ہے مہنگائی نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے اس کا حکمرانوں کے پاس بھی حل نہیں ہے عوام کی چیخ وپکار اپنی جگہ قوم کا بھی فرض ہے سادگی کو اختیار کیا جائے اور روٹی کے ٹکرے سمیت کھانے پینے کی اشیاء کی قدر کی جائے اور اللہ تعالے کا شکر ادا کیا جائے اناج کے ضیاع کی روک تھام کی عادت کو معمول بنا لیں تو موجودہ حالات کا بھی مقابلہ کرنا آسان ہو گا دیکھا یہ کیا ہے کھانے پینے سمیت بچی کچی روٹیاں پھینک دیتے ہیں یاخواتین چھان بورہ والوں کو معمولی رقم سے فروخت کر دیتں ہیں اللہ تعالے کی نعمتوں کی قدر نہیں کی جاتی مجھے اچھی طرح یاد ہے لاری اڈا سے گزر رہا تھا ایک دیہاتی نے چھابڑی والے سے پکوڑے خرید اور وہ بس پر سوار ہونے لگا اس کے ہاتھ سے پکوڑے زمین پر گر گئے دیہاتی فورابس سے نیچے اتر کر زمین سے پکوڑوں کو اٹھایا اور اپنی چادر سے پکوڑوں سے مٹی جھاڑ کر کھانے لگا تو قریب کھڑے مسافروں نے کہا زمین سے اٹھا کر پکوڑے نہ کھاوٴ اور خرید لیں دیہاتی کہا یہ اللہ کی نعمت ہے ان کو کیوں ضائع کروں گندگی کے ڈھیروں پر پڑے اناج کو بھی کھاتے شخض کو دیکھا ہے اور تندرست توانا ہے میرا ہر گز یہ مقصد نہیں گندگی کے ڈھیروں سے کھانے پینے کی اشیاء اٹھا کر کھائیں ضرورت اس بات کی ہے کھانے پینے کی اشیاء اور اناج کی قدر کریں بچی کچی خوراک کو ضائع نہ کریں اس کو محفوظ کرنے کی عادت ڈالیں اور ضرورت مندوں تک پہنچائیں چند سالوں سے ہوٹلوں پر بھی روٹی نان کو دو یا چار ٹکروں میں پیش کرتے ہیں اسی طرح تبلیغی جماعت والے روٹی نان کو چار ٹکروں میں کاٹ کر کھاتے ہیں روٹی بچ جانے کی صورت صبح کے ناشتے میں چائے یا شوربہ میں سوکھی روٹی کو ڈوبو کر کھانے کی عادت بنا رکھی ہے اور کھانے پینے کی کسی اشیاء کا ضیاع نہیں ہوتا ہے مغربی ممالک والوں نے ایسی سماجی فلاحی تنظیمیں بنا رکھی ہیں جو ہوٹلوں میں ہونے والی تقاریبات کا بچا ہوا کھانا پیک کر کے ضرورت مندوں تک پہنچاتے ہیں ماضی میں خواتین بچ جانے والی روٹیاں دوسرے دن ان کا چُورہ چُورہ کر کے اس میں گڑ گھی ڈال اور پکا کر کھانے کے طور پر استعمال کرتیں تھیں اٹھاریں صدی میں قحط پر گیا بڑے بزگوں سے بات چلی آرہی ہے اناج نہ ملنے پر جنگلی پیلوں کے پھل کا استعمال کر کے اس قحط کا مقابلہ کیا گیا اور روٹی کے ٹکرے سمیت تمام اناج کی قدر کو معمول بنا یاگیا اور لوگوں کو قدرت کی نعمتوں کوضائع نہ کرنے کی تر غیب دی گئی ماضی میں دیہاتی وسیب میں رات کا بچا کھانا روٹیاں صبح کے ناشتہ معمول تھا سرکاری گوداموں میں گندم کے ذخیرہ کا ضیاع پر دکھ ہوتا ہے اگر اس کو ضائع ہونے سے پہلے مارکیٹ میں فروخت کیا جائے تو سرکاری گوداموں کو اس قدر خسارہ نہ ہو دیہاتی وسیب کے لوگ جب شہروں میںآ تے جاتے تھے تو اپنے ساتھ روٹی سالن اچار ایک کپڑے میں کر لے جاتے اور بچت کی عادت کو معمول بنا رکھا تھا مگر موجودہ دور میں اناج کی بے قدری دیکھنے میں آتی ہے جبکہ دوسری طرف پوری قوم کمر توڑ مہنگائی کا رونا روتی دیکھائی دیتی ہے اور اس مہنگائی سے نجات ممکن نہ ہے مگرہم زندہ قوم ہیں اور ہر حالات کا مقابلہ کرنا ہی زندہ قوم کی علامت ہے قوم کو ان حالات میں بچت سادگی اور وقت اور اللہ تعالے کی نعمتوں کی قدر کرنے کو معمول بنانا لینا چاہیے اور بجلی گیس کا استعمال ضرورت کے مطابق کریں فالتو بتیاں پنکھے بند رکھیں گیس کو بھی ضرورت کے مطابق جلائیں اور کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال ضرورت کے مطابق کریں اور ضائع کرنے کی عادات کو ترک کریں اسی میں ہی آپ کی اور ملک وقوم کی بھلائی ہے حالات کا مقابلہ ہی زندہ قوم کی پہچان ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :