انسان کو اللہ تعالے نے ان گنت نعمتوں سے نوازرکھا ہے ان نعمتوں کا ہر لمحہ شکر کرنے کے ساتھ ساتھ کو استعمال کریں ضیاع نشکری ہے مہنگائی نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے اس کا حکمرانوں کے پاس بھی حل نہیں ہے عوام کی چیخ وپکار اپنی جگہ قوم کا بھی فرض ہے سادگی کو اختیار کیا جائے اور روٹی کے ٹکرے سمیت کھانے پینے کی اشیاء کی قدر کی جائے اور اللہ تعالے کا شکر ادا کیا جائے اناج کے ضیاع کی روک تھام کی عادت کو معمول بنا لیں تو موجودہ حالات کا بھی مقابلہ کرنا آسان ہو گا دیکھا یہ کیا ہے کھانے پینے سمیت بچی کچی روٹیاں پھینک دیتے ہیں یاخواتین چھان بورہ والوں کو معمولی رقم سے فروخت کر دیتں ہیں اللہ تعالے کی نعمتوں کی قدر نہیں کی جاتی مجھے اچھی طرح یاد ہے لاری اڈا سے گزر رہا تھا ایک دیہاتی نے چھابڑی والے سے پکوڑے خرید اور وہ بس پر سوار ہونے لگا اس کے ہاتھ سے پکوڑے زمین پر گر گئے دیہاتی فورابس سے نیچے اتر کر زمین سے پکوڑوں کو اٹھایا اور اپنی چادر سے پکوڑوں سے مٹی جھاڑ کر کھانے لگا تو قریب کھڑے مسافروں نے کہا زمین سے اٹھا کر پکوڑے نہ کھاوٴ اور خرید لیں دیہاتی کہا یہ اللہ کی نعمت ہے ان کو کیوں ضائع کروں گندگی کے ڈھیروں پر پڑے اناج کو بھی کھاتے شخض کو دیکھا ہے اور تندرست توانا ہے میرا ہر گز یہ مقصد نہیں گندگی کے ڈھیروں سے کھانے پینے کی اشیاء اٹھا کر کھائیں ضرورت اس بات کی ہے کھانے پینے کی اشیاء اور اناج کی قدر کریں بچی کچی خوراک کو ضائع نہ کریں اس کو محفوظ کرنے کی عادت ڈالیں اور ضرورت مندوں تک پہنچائیں چند سالوں سے ہوٹلوں پر بھی روٹی نان کو دو یا چار ٹکروں میں پیش کرتے ہیں اسی طرح تبلیغی جماعت والے روٹی نان کو چار ٹکروں میں کاٹ کر کھاتے ہیں روٹی بچ جانے کی صورت صبح کے ناشتے میں چائے یا شوربہ میں سوکھی روٹی کو ڈوبو کر کھانے کی عادت بنا رکھی ہے اور کھانے پینے کی کسی اشیاء کا ضیاع نہیں ہوتا ہے مغربی ممالک والوں نے ایسی سماجی فلاحی تنظیمیں بنا رکھی ہیں جو ہوٹلوں میں ہونے والی تقاریبات کا بچا ہوا کھانا پیک کر کے ضرورت مندوں تک پہنچاتے ہیں ماضی میں خواتین بچ جانے والی روٹیاں دوسرے دن ان کا چُورہ چُورہ کر کے اس میں گڑ گھی ڈال اور پکا کر کھانے کے طور پر استعمال کرتیں تھیں اٹھاریں صدی میں قحط پر گیا بڑے بزگوں سے بات چلی آرہی ہے اناج نہ ملنے پر جنگلی پیلوں کے پھل کا استعمال کر کے اس قحط کا مقابلہ کیا گیا اور روٹی کے ٹکرے سمیت تمام اناج کی قدر کو معمول بنا یاگیا اور لوگوں کو قدرت کی نعمتوں کوضائع نہ کرنے کی تر غیب دی گئی ماضی میں دیہاتی وسیب میں رات کا بچا کھانا روٹیاں صبح کے ناشتہ معمول تھا سرکاری گوداموں میں گندم کے ذخیرہ کا ضیاع پر دکھ ہوتا ہے اگر اس کو ضائع ہونے سے پہلے مارکیٹ میں فروخت کیا جائے تو سرکاری گوداموں کو اس قدر خسارہ نہ ہو دیہاتی وسیب کے لوگ جب شہروں میںآ تے جاتے تھے تو اپنے ساتھ روٹی سالن اچار ایک کپڑے میں کر لے جاتے اور بچت کی عادت کو معمول بنا رکھا تھا مگر موجودہ دور میں اناج کی بے قدری دیکھنے میں آتی ہے جبکہ دوسری طرف پوری قوم کمر توڑ مہنگائی کا رونا روتی دیکھائی دیتی ہے اور اس مہنگائی سے نجات ممکن نہ ہے مگرہم زندہ قوم ہیں اور ہر حالات کا مقابلہ کرنا ہی زندہ قوم کی علامت ہے قوم کو ان حالات میں بچت سادگی اور وقت اور اللہ تعالے کی نعمتوں کی قدر کرنے کو معمول بنانا لینا چاہیے اور بجلی گیس کا استعمال ضرورت کے مطابق کریں فالتو بتیاں پنکھے بند رکھیں گیس کو بھی ضرورت کے مطابق جلائیں اور کھانے پینے کی اشیاء کا استعمال ضرورت کے مطابق کریں اور ضائع کرنے کی عادات کو ترک کریں اسی میں ہی آپ کی اور ملک وقوم کی بھلائی ہے حالات کا مقابلہ ہی زندہ قوم کی پہچان ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔